
نوکنڈی میں گزشتہ روز پاکستانی فورسز ایف سی کی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے زامیاد ڈرائیور شادر مینگل کے لواحقین کی جانب سے دوسرے روز بھی احتجاج جاری ہے۔ بابِ عمر کے مقام پر سڑک بدستور بند ہے، جبکہ نوکنڈی سمیت چاغی، دالبندین، چہتر اور یکمچ میں مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال کی جا رہی ہے۔
احتجاج کرنے والے لواحقین کا کہنا ہے کہ اب تک انتظامیہ کی جانب سے کسی قسم کی قانونی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔ لواحقین نے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں انصاف فراہم کیا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے نوجوان روزگار کے لیے بارڈر کی جانب رخ کرتے ہیں، مگر وہاں ایف سی کے ہاتھوں قتل کیے جاتے ہیں۔
لواحقین کے مطابق چاغی سمیت بلوچستان کے کئی علاقوں میں سرحد ہی واحد ذریعہ معاش ہے اور بارڈر بند ہونے یا وہاں پیش آنے والے واقعات براہ راست مقامی روزگار کو متاثر کرتے ہیں۔
شادر مینگل کے لواحقین نے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے ان دعوؤں کو بھی سختی سے مسترد کر دیا ہے جن میں واقعے کو قبائلی تنازع قرار دیا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق شادر مینگل کو عوام کے سامنے ایف سی نے براہ راست گولیاں مار کر شہید کیا گیا، اور یہ کسی بھی طرح قبائلی جھگڑا نہیں بلکہ ریاستی تشدد کا تسلسل ہے۔
احتجاجی مظاہرین نے ایف سی پر الزام عائد کیا ہے کہ اس طرح کے واقعات بلوچ نسل کشی کی ایک منظم مہم کا حصہ ہیں، جس میں ریاستی ادارے اور انتظامیہ نہ صرف ملوث اہلکاروں کو تحفظ فراہم کر رہے ہیں بلکہ ہر سطح پر جوابدہی سے بھی انکاری ہیں۔
آخر میں لواحقین اور مظاہرین نے نوکنڈی سمیت بلوچستان بھر کے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ اس مبینہ ظلم اور جبر کے خلاف آواز بلند کریں اور احتجاج میں ان کا ساتھ دیں۔