
تحریر: عزیز سنگھور
زرمبش مضمون
بلوچستان میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ صرف ایک خطے کی صورتحال نہیں بلکہ ایک عالمی المیہ بن چکا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی تازہ ترین رپورٹ میں حکومت کے ان ہتھکنڈوں کو بے نقاب کیا گیا ہے، جن کے ذریعے سیاسی کارکنوں، انسانی حقوق کے علمبرداروں اور پرامن احتجاج کرنے والوں کو دہشت گرد قرار دے کر جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے۔
اس وقت بلوچ یکجہتی کمیٹی کے چھ اہم رہنما، ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، بیبگر زہری، بیبو بلوچ، شاہ جی صبغت اللہ، غفار قمبرانی اور گل زادی بلوچ زیرِ حراست ہیں۔ ان پر تھری ایم پی او جیسے انتظامی قوانین کے تحت تین ماہ قید رکھنے کے بعد اب انسدادِ دہشت گردی کی دفعات لگاکر جیل منتقل کر دیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پرامن احتجاج، پریس کانفرنسز، لانگ مارچ اور سچ بولنے کا تعلق آخر دہشت گردی سے کیسے جوڑا جا سکتا ہے؟
یہ معاملہ صرف چند افراد کی گرفتاری کا نہیں، بلکہ ریاست کے اس بڑھتے ہوئے رجحان کا غماز ہے، جس میں اختلاف رائے کو دبانے کے لیے اب انسدادِ دہشت گردی کے قوانین کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ وہی قانون ہے جو دہشت گردوں، مسلح گروہوں، بم دھماکوں اور خودکش حملوں کے لیے بنایا گیا تھا ۔ اب اسی قانون کی زد میں وہ لوگ آ رہے ہیں جو ہاتھ میں بندوق نہیں، بلکہ سچائی اور انصاف کی بات کر رہے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنے خدشات میں یہ بھی واضح کیا ہے کہ ان رہنماؤں کو حراست کے دوران نہ صرف طبی سہولیات سے محروم رکھا گیا بلکہ انہیں تشدد اور ناروا سلوک کا سامنا بھی ہے۔ یہ انسانی حقوق کی ایسی کھلی خلاف ورزی ہے جس پر نہ صرف اقوام متحدہ بلکہ پاکستان کے آئین کے تحت بھی سوال اٹھتا ہے۔
پاکستان اگر واقعی ایک جمہوری ریاست ہے تو اسے بلوچستان میں بھی جمہوریت، آزادیِ اظہار اور اختلاف رائے کی گنجائش پیدا کرنی ہوگی۔ ریاستی جبر، جھوٹے مقدمات، اور سیاسی انتقام نہ صرف داخلی انتشار کو بڑھاتے ہیں بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کی امیج کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔
یہ وقت حکومت، عدلیہ اور سول سوسائٹی کے لیے آئینہ دیکھنے کا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ محض ایک انتباہ نہیں، بلکہ ایک موقع بھی ہے۔ حکومت چاہے تو اس ظلم کا سلسلہ روک سکتی ہے، ان افراد کو رہا کر کے ایک مثبت پیغام دے سکتی ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ یہ تمام افراد اپنی آئینی آزادیوں کے تحت کام کر رہے تھے اور ان کی گرفتاری کا مقصد صرف اور صرف بلوچستان میں جاری ریاستی کریک ڈاؤن کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانا ہے۔
ایمنسٹی کی یہ رپورٹ اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ بلوچستان میں صرف آواز بلند کرنا ہی جرم بن چکا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کو دہشت گرد قرار دینا نہ صرف پاکستان کی داخلی سیاست کے لیے خطرناک ہے بلکہ عالمی سطح پر اس کی ساکھ کو بھی شدید نقصان پہنچا رہا ہے۔
اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو بلوچ نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی بے چینی بھی ریاست کے لیے ایک نیا چیلنج بن سکتی ہے۔

