
بلوچ نیشنل موومنٹ کے سابق سکریٹری جنرل رحیم ایڈووکیٹ بلوچ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ شہدائے بلوچستان نواب نوروز خان زہری، میر بھٹے خان زہری، میر بھاول خان زہری، میر ولی محمد زہری، میر سبزل خان زہری، میر مستی خان موسیانی ، اور میر غلام رسول نیچاری نے 1950 کی دہائی میں جو قربانیاں دیں ان کی قربانیاں رائیگاں نہیں گئیں بلکہ بلوچ قومی تحریک آزادی ان کے قربانیوں کو بنیاد بنا کروقت اور حالات کے تقاضوں کے مطابق تنظیم و تعمیر کے مراحل سے گزرتے ہوئے آج ایک زیادہ منظم اور مضبوط شکل میں موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ قابض ریاست پاکستان کے نمائندوں نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر انھیں کوئی نقصان نہ پہنچانے کے وعدے پر نواب نوروز خان کو مزاکرات کیلئے پہاڑوں سے نیچے لاکر اسے اور اس کے ساتھیوں کو گرفتار کرکے وعدہ خلافی اور دھوکہ دہی سے جو عارضی کامیابی اس وقت حاصل کرلیا تھا اس کی وہ دھوکہ دہی اور وعدہ شکنی بلوچ قوم کیلئے ایک چشم کشا سبق بن گیا ہے اور کوئی بھی آزادی پسند بلوچ سیاسی جماعت، گروہ یا مسلح تنظیم قابض ریاست کے کسی بھی وعدے پر اعتبار نہیں کرتا۔
رحیم ایڈوکیٹ بلوچ نے کہا کہ میں آج نواب نوروز خان کے ساتھیوں شہدائے بلوچستان کو ان کے 64 ویں برسی پر خراج عقیدت پیش کرتا ہوں جنہیں 1961 میں آج کے دن سکھر اور حیدر آباد کے جیلوں میں پھانسی دی گئی تھی۔ میں شہدائے بلوچستان کے لاشوں کو سکھر اور حیدر آباد میں لاوارث دفنانے کی اجازت نہ دینے اور ان کی جسد خاکیوں کو با صد احترام قلات پہنچانے پر مرحوم میر رسول بخش ٹالپُر اور میر علی احمد ٹالپر کو بھی خراج پیش کرتا ہوں جنہوں نے ایوبی آمریت کے قہر کی پرواہ نہ کرکے غیرت مند بلوچ ہونے کا ثبوت دیا تھا۔