کون دہشت گرد ہے؟

تحریر: عزیز سنگھور
زرمبش مضمون

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ایک نیا باب اس وقت کھلا، جب بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کے مرکزی رہنماؤں کو ہدہ جیل سے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ عدالت نے ان تمام رہنماؤں کو مزید دس دن کے لیے پولیس کے جسمانی ریمانڈ پر دے دیا۔

ان رہنماؤں میں معروف انسانی حقوق کی کارکن ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، ثابت قدم مزاحمتی رہنما صبغت اللہ شاہ جی، نظریاتی سیاسی رہنما بیبگر بلوچ، ماما غفار بلوچ، گلزادی بلوچ اور بیبو بلوچ شامل ہیں۔ یہ تمام افراد کئی ماہ سے تھری ایم پی او کے تحت ہدہ جیل میں قید تھے۔

ایک ایسے وقت میں جب سیاسی کارکنوں کی طویل قید پر سوالات اٹھ رہے تھے، حکومت نے اچانک ایم پی او کے احکامات ختم کر دیے اور انہیں انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کر دیا گیا۔ پولیس نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ ان افراد کے خلاف دہشت گردی کے الزامات کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں، اور مزید تفتیش کے لیے اضافی وقت درکار ہے۔ عدالت نے پولیس کی درخواست منظور کرتے ہوئے رہنماؤں کو مزید 10 دن کے لیے پولیس کی تحویل میں دے دیا۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ترجمان نے اس تمام صورتحال کو "پیشگی منصوبہ بندی” قرار دیا۔ ان کے مطابق، حکومت نے ایک منظم سازش کے تحت سیاسی قیادت کو جعلی اور من گھڑت مقدمات میں الجھا کر ریاستی جبر کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کا کہنا تھا:“ہمارے رہنماؤں کے خلاف دائر کی گئی ایف آئی آرز مکمل طور پر جھوٹ پر مبنی ہیں۔ یہ سیاسی انتقام کی واضح مثال ہے، جس کا مقصد بلوچ عوام کی آواز کو خاموش کرنا ہے۔”

بی وائی سی نے یہ بھی واضح کیا کہ وہ جبر کے آگے سر نہیں جھکائیں گے اور مزاحمت کا سلسلہ جاری رہے گا۔

حکومتی ادارے عرصے سے بلوچ سیاسی تحریکوں کو "سیکیورٹی رسک” کے طور پر پیش کرتے آئے ہیں۔ مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور ان کے ساتھیان بلوچ جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل، اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف آئینی و سیاسی جدوجہد کر رہے ہیں۔ بی وائی سی نے اپنے احتجاجی مارچز، پریس کانفرنسز اور مظاہروں کے ذریعے بلوچستان کے عوامی مسائل کو اجاگر کیا ہے، جنہیں دہشت گردی کے بجائے جمہوری سرگرمیاں سمجھا جانا چاہیے۔

مختلف انسانی حقوق کے کارکنوں، وکلا تنظیموں اور سول سوسائٹی نے بی وائی سی رہنماؤں کی گرفتاری اور ان پر انسداد دہشت گردی قوانین کے اطلاق پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ کئی ماہرین قانون نے اس عمل کو "آئین کے آرٹیکل 10 اور 15 کی خلاف ورزی” قرار دیا ہے، جو شخصی آزادی، اجتماع، اور اظہار رائے کے حق کی ضمانت دیتے ہیں۔

یہ سوال آج پورے بلوچستان میں گونج رہا ہے کہ وہ لوگ جو اپنے لاپتہ پیاروں کی بازیابی کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں، وہ دہشت گرد ہیں یا انسان دوست کارکن؟ کیا حکومت سیاسی اختلاف کو سننے کے بجائے اسے دبا کر خاموشی حاصل کرنا چاہتی ہے؟ اور کیا اس خاموشی سے بلوچستان میں امن قائم ہو سکے گا یا مزید بے چینی جنم لے گی؟

بلوچستان کی سرزمین صدیوں سے جدوجہد، قربانی اور مزاحمت کی گواہ رہی ہے۔ یہاں کی مٹی نے ہمیشہ ایسے فرزند جنم دیے جنہوں نے ناانصافی کے خلاف آواز بلند کی، چاہے قیمت جان ہی کیوں نہ ہو۔ ضلع کیچ کے علاقے "ڈنوک” میں "ملک ناز” کے خون سے ایک نئی مزاحمتی شناخت نے جنم لیا ہے، جسے ہم "بلوچ یکجہتی کمیٹی” کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ کمیٹی اب محض ایک تنظیم نہیں، بلکہ ایک عوامی تحریک میں ڈھل چکی ہے، جس نے بلوچ قومی سیاست میں نئی جان ڈال دی ہے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی بنیاد ایسے وقت میں رکھی گئی، جب روایتی بلوچ سیاسی جماعتیں یا تو خاموش تھیں، یا انتخابی سیاست کی الجھنوں میں الجھ چکی تھیں۔ جبری گمشدگیاں، ماورائے عدالت قتل اور بلوچ عوام کی پکار صدا بہ صحرا بنی ہوئی تھی۔
بی وائی سی نے لانگ مارچ، کیمپ، ریلیاں، پریس کانفرنسز اور سوشل میڈیا کے ذریعے نہ صرف بلوچ عوام کو متحرک کیا بلکہ ملکی و بین الاقوامی میڈیا کو بھی مجبور کیا کہ وہ بلوچستان میں حکومتی زیادتیوں کا نوٹس لے۔

ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ بی وائی سی نے عسکریت سے دور رہتے ہوئے، مکمل سیاسی اور پُرامن مزاحمت کا راستہ اپنایا۔ یہ جماعت حکومت کو سیاسی میدان میں چیلنج کرتی ہے، جمہوری زبان میں سوال اٹھاتی ہے اور آئینی دائرے میں رہ کر احتجاج کرتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے حکومتی اداروں نے ان کی اس سیاسی مزاحمت کو بھی برداشت نہ کیا۔ شاید بلوچ کی زبان، خواہ وہ کتاب سے نکلے یا بینر سے، حکومت کے لیے ناقابلِ برداشت ہے۔

گزشتہ مہینوں میں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، صبغت اللہ شاہ جی، بیبگر بلوچ، غفار بلوچ، گلزادی بلوچ، بیبو اور دیگر رہنما تھری ایم پی او کے تحت ہدہ جیل میں قید رکھے گئے۔ اب ان پر اچانک انسداد دہشت گردی کے قوانین لاگو کر دیے گئے ہیں۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ
کیا جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج کرنا دہشت گردی ہے؟ کیا ماں کی ممتا کو یاد دلانا، باپ کی قبر پر انصاف مانگنا، قانون شکنی ہے؟

حکومت کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ بلوچ عوام کو ساتھ لے کر چلنا چاہتی ہے یا انہیں مستقل "دشمن” سمجھتی ہے؟ کیا سیاسی اختلاف کی گنجائش صرف پنجاب کے لیے ہے؟ اگر بلوچستان کے نوجوان سوال اٹھائیں تو وہ غدار کیوں؟

بی وائی سی کے خلاف کارروائی، دراصل بلوچ عوامی شعور کے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔ یہ جنگ اگر جیتی جا سکتی ہے، تو صرف مکالمے، انصاف اور سیاسی حل سے۔ بصورت دیگر، ہر گرفتار بلوچ رہنما ایک نئی تحریک کا آغاز بنے گا۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

بی وائی سی کے رہنماؤں کی دوبارہ جھوٹے مقدمات میں گرفتاری ریاستی حواس باختگی ہے۔ میر سفیر بلوچ

منگل جولائی 8 , 2025
بلوچ نیشنل موومنٹ کے رہنما اور بی ایس او سابق سیکریٹری جنرل میر سفیر بلوچ نے سوشل میڈیا پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں کی دوبارہ جھوٹے مقدمات میں گرفتاری ریاستی حواس باختگی ہے۔ میر سفیر بلوچ نے اپنے کہا ہے […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ