
بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے اپنی جاری کردہ بیان میں کہا ہیکہ بلوچستان یونیورسٹی میں بلوچی، براہوی اور پشتو زبان کے شعبوں کی بندش کا فیصلہ تشویشناک ہے، بی ایس او زبان دشمنی کو قوموں کی اجتماعی شناخت پر حملہ تصور کرتی ہے اور یہ مطالبہ کرتی ہیکہ شعبوں کی بندش کا فیصلہ فوری طور پر واپس لیا جائے ۔
ترجمان نے مزید کہا کہ زبان محض رابطہ کاری کا ذریعہ نہیں ہے بلکہ یہ کسی بھی معاشرے کی ذہنیت، اخلاقیات، جمالیات، جذبات، خیالات اور تجربات کا تاریخی ورثہ ہے، مزید یہ وہ شناخت اور وجود ہے جس میں معنی اور جذبات شعوری طور پر اپنا اظہار کرتی ہیں۔ ایک زبان رکھنے والا معاشرہ ایک مضبوط زندگی کا جواز رکھتا ہے۔ زبان کی ترقی کی سطح زندگی کی ترقی کی سطح ہے، بی ایس او ایسی وحشت ناک ثقافتی نسل کشی کو مسترد کرتی ہے اور اس کے خلاف جمہوری جدوجہد جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کرتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس سے قبل بلوچستان کی سب بڑی درسگاہ جامعہ بلوچستان کو مختلف ہربوں سے تباہی کی جانب دھکیلنے کی مسلسل کوششیں ہو رہی ہیں، جس میں یونیورسٹی کے اندر فوجی چوکیاں، فیسوں میں بے تحاشا اضافے، ناقص اور محدود ٹرانسپورٹ سسٹم، طالبات کی ہراسانی سمیت ہاسٹلز کی بندش جیسے طلبہ دشمن پالیسیوں کے اطلاق سے جامعہ آسیب کے مناظر پیش کر رہی ہے، حالیہ بلوچی، براہوی اور پشتو زبان کے شعبوں کی بندش کا اعلامیہ انہی طلبہ دشمن پالیسیوں کا شاخسانہ ہے جو بعد ازاں جامعہ کی مجموعی تباہی کا باعث بنے گی۔
مرکزی ترجمان نے کہا کہ جامعہ بلوچستان میں ان شعبوں کی بندش اس ملک کے اندر مظلوم اقلیتوں کی شناخت اور وجود سے انکار کی تاریخی پالیسیوں کے تسلسل کا نتیجہ ہے۔ بی ایس او کسی بھی صورت اس فیصلے کو تسلیم نہیں کرتی اور مطالبہ کرتے ہیکہ اس فیصلے کو واپس لیکر فوری طور پر جامعہ میں تمام لسانی شعبہ جات کو بحال کریں۔ بصورتِ دیگر بی ایس او بلوچی،براہوئی اور پشتو شعبہ جات کی بحالی تک سراپا احتجاج رہے گی۔