
تحریر: محمد یوسف بلوچ
بلوچ نیشنل موومنٹ
زرمبش مضمون
ہم نے ہمیشہ تاریخ کی کتابوں اور انقلابی داستانوں میں پڑھا ہے، اور اپنے آبا و اجداد سے سنا بھی ہے کہ دنیا کے کئی انقلابی رہنماؤں اور سیاسی شخصیات نے اپنی تحریکوں کو جِلا بخشنے کے لیے نہ صرف بیٹوں بلکہ بیٹیوں کے کردار کو بھی تسلیم کیا۔ کئی بزرگوں نے اپنی بیٹیوں کے انقلابی کردار کی داد میں کتابیں، مضامین اور خطوط تحریر کیے تاکہ وہ کردار آنے والی نسلوں کے لیے ایک روشن مثال بن سکیں۔ ایسی مثالیں مختلف اقوام میں موجود ہیں لیکن بدقسمتی سے بلوچ قومی انقلابی تحریک میں ایسے واقعات بہت کم دکھائی دیتے ہیں، حالانکہ ہماری مزاحمتی جدوجہد میں کئی شیر دل بیٹیوں نے اپنی جانیں قربان کیں اور مادرِ وطن کے دفاع میں امر ہو گئیں مگر ان کی یاد میں کوئی ایسی تحریر، کوئی علمی خراج، اُن کے والدین کی طرف سے شاذ ہی سامنے آیا۔بانڈی سے لے کر مائی بیبو تک، بلوچ ماؤں نے نہ جانے کتنی شیر زال بیٹیاں اس دھرتی کو دی ہیں، لیکن اُن بہادر بیٹیوں کے نصیب میں اکثر والدین کی طرف سے کوئی تحریری تحفہ نہ آ سکا۔
مگر آج کی جاری بلوچ قومی تحریکِ آزادی نے ایک نئی روایت رقم کرتے ہوئے جدیدیت کی اُس منزل کی جانب قدم بڑھایا ہے، جو بلوچ سماج کے پرانے، فرسودہ نظامِ جہالت کو ایک شعوری انقلابی دہلیز فراہم کر رہی ہے۔ یہ تحریک ذہنیت، آگہی اور جسمانی غلامی کے اختتام کی طرف بڑھتے ہوئے، قومی شعور و آگہی کو غلامی کے خلاف اجتماعی انقلابی دہلیز کی سمت لے جا رہی ہے، بلوچ قومی تاریخ میں ہزاروں شیر زال بلوچ بیٹیوں نے گلزمین پر جنم لے کر اس سرزمین، بلوچ شناخت، رسم و رواج اور ثقافت کے دفاع میں اپنی اور اپنے لختِ جگروں کی قربانی دے کر مادرِ وطن کا فریضہ نبھایا اور تاریخ و سماج میں سرخرو ہو کر امر ہوئیں۔
مگر افسوس کہ اس جدیدیت کے دور میں بھی کئی بلوچ انقلابی ہم سفر والدین اپنی ان شیر زال بیٹیوں کو اُس قومی نعمت سے محروم رکھتے ہیں جو ان کی قومی خدمت کی داد رسی کر سکے۔
ہم بلوچ والدین، دنیاوی اور سماجی روایتوں کو نبھاتے ہوئے سونے، چاندی اور مال و دولت کے تحفے دینے اور نام کمانے کا تو خیال رکھتے ہیں مگر ان کی قومی خدمات کو تسلیم کرتے ہوئے، صرف چند الفاظ لکھ کر ان کی شان کو دوبالا کرنے کی ہمت نہیں کر پاتے، آج میں خود کو ایک خوش نصیب تصور کرتے ہوئے فخر محسوس کر رہا ہوں کہ غلامی کے اس دور میں، اپنی زندگی کے باقی ایّام میں، مجھے یہ سننے اور پڑھنے کا شرف حاصل ہوا کہ میرے کاروانِ آزادی کی ایک ساتھی رہنما نے اپنی بیٹی کی شادی پر سونے، چاندی اور دیگر دنیاوی تحائف کے بجائے اپنی تحریر کردہ کتاب "جبری غلامی تا فکری آزادی تک” بطور سوغات پیش کی اور بیٹی نے اسے چوم کر قبول کیا۔
یہ ایک نئی روایت ہے، جسے پختہ ہونا چاہئے۔ بلوچ قوم کو اسے اپنے روایات کا حصہ بنانا چاہئے، ایک انقلابی والد نے ایک انقلابی بیٹی کو کتاب کا تحفہ دے کر ایک فکری اور قومی ریت کی بنیاد رکھ دی۔ میں اس روایت کے بانی اور جنوبی کوریا میں مقیم بی این ایم کے ساتھی نصیر بلوچ کو دل سے سلام پیش کرتا ہوں اور ان کی بیٹی کے لیے گہرے جذبات اور نیک تمناؤں کا اظہار کرتا ہوں کیونکہ اس سے بڑھ کر میں کچھ اور نہیں کر سکتا۔
جو کام آج تک ہم جیسے نادان اور لاشعور انقلابی والدین، جو قومی انقلابی تحریکوں سے وابستہ ہو کر بھی اپنی انقلابی اولادوں کو یہ شرف نہ دے سکے نہ ہی اپنے بیٹے بیٹیوں کو ایسی آشوبی سوغات کے تحفے سے نواز سکے، میرے اس رہبر ساتھی نے آج وہ باوقار کام کر دکھایا ہے، جس پر ہمیں فخر کرنا چاہئے۔ یہ عمل ہم بلوچ باپوں، بیٹوں اور بیٹیوں کے لیے ایک تربیت اور سکون کا باعث بنے گا۔
مجھے آج شہید غلام محمد بلوچ کے وہ مبارک الفاظ یاد آ رہے ہیں، جب وہ 10 اکتوبر 2007 کو دشمن کی زندانوں میں 9 ماہ کے ذہنی و جسمانی تشدد کے بعد آزاد ہو کر مند پہنچا۔ میری بیٹی خیریہ نے اپنے پیارے کاکا، یعنی چاچا جان کے کندھوں پر بلوچی شان کی پٹی والی سیاہ چادر ڈال دی۔شہید کی آنکھیں پُرنم ہو گئیں اور ان کے خشک ہونٹوں سے یہ الفاظ نکلے
"خیریہ جان! دشمن کے ٹارچر اور اذیت میرے آنکھوں کو نم نہ کر سکے مگر آج تم نے ایک ایسا بوجھ میرے کندھوں پر ڈال دیا ہے۔ دعا کرو کہ میں اس کی لاج رکھ سکوں، اور اس چادر کو بلوچ قومی شرف بخش سکوں، تاکہ یہ چادر میرے بعد ہر بلوچ کے کندھوں کی زینت بن کر ایک یادگار بن جائے۔”
استقبال کے لیے آئے ہوئے چند لوگوں نے غلام محمد سے کہا:
"غلام محمد! اس قوم کے لیے اپنا وقت اور اپنی ذات ضائع نہ کرو، اس ریاست سے لڑنا ممکن نہیں اور یہ قوم تمھارا ساتھ نہیں دے گی۔”
مگر غلام محمد نے مسکراہٹ کے ساتھ مخاطب ہو کر کہا:
"میرے مرنے کے بعد مجھے یقین ہے کہ میری قوم میرے کاروان کی ہم سفر بن کر، اس کاروان کی قیادت کرے گی اور اسے منزل کی طرف گامزن کرے گی۔ میرے خوابوں کی تعبیر کے لیے میرا باشعور قوم اس کاروان کو ضرور منزل تک پہنچائے گا۔”
اور آج، مجھے یہ حقیقت میں نظر آ رہا ہے کہ شہید کی وہ بلوچی پٹی والی سیاہ چادر، جو آخرکار ان کا کفن بنی، آج بلوچ اقوام کی ہر نونہال، پیر و کماش کے کندھوں کی زینت بنی ہوئی ہے۔ یہی چادر اب بلوچ ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کے دوپٹے میں ڈھل کر، غیر مہذب دشمنوں کے سامنے، چاہے وہ میدان جنگ ہو، ٹارچر سیلوں کی تاریک چار فٹ کی کوٹھڑیاں ہوں یا مسلح محاذ۔آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دلیری سے مقابلہ کر رہی ہے۔
میں فخر سے کہتا ہوں کہ جب شہید کے انقلابی کاروان میں کماش نصیر بلوچ جیسے نظریاتی اور شعوری ساتھی رہنمائی کرتے رہیں گے اور حفصہ بلوچ، سمی دین جان، کامریڈ ڈاکٹر ماہرنگ، بیبو بلوچ، گلزادی بلوچ، سیما بلوچ، کمسن ماہ زیب بلوچ، ننھی فاطمہ بلوچ جیسی ہزاروں بیٹیاں، بہنیں، مائیں اور بلوچ فرزند شعور و فلسفۂ انقلاب کے ساتھ کاروان کی رہنمائی کر رہے ہیں ، تو یہ کاروان نہ صرف منزل کی طرف بڑھ رہا ہے، بلکہ ایک زندہ، جاوید اور ناقابلِ شکست روایت میں ڈھل چکا ہے۔
میں شہید غلام محمد بلوچ کے ساتھ، بلوچ گلزمین کے تمام شہداء اور لاپتہ فرزندوں کے سنہری خوابوں کی تعبیر کو، کماش نصیر جان کی تحریر کردہ کتاب اور اس کا بیٹی کی شادی پر بطور سوغات پیش کیا جانا ایک علامت کے طور پر پایۂ تکمیل کی صورت میں دیکھ رہا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ اس علامتی اور تاریخی اقدام کی روشنی میں بلوچ والدین اپنی بیٹیوں کو سماجی تقاضوں کے ساتھ ساتھ کتاب، علم، فکر اور فلسفہ بھی بطور تحفہ دیں گے اور یوں اپنی بیٹیوں کو صرف خوشحال زندگی کا ذریعہ نہیں بلکہ بلوچ قومی تحریک کا مضبوط ستون اور فکری وارث بھی بنائیں گے۔