
بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان جیئند بلوچ نے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ سرمچاروں نے بلوچستان میں دشمن کے جنگی انفراسٹرکچر کو دو مختلف حملوں میں نشانہ بنایا، جن میں ایک مربوط آپریشن مستونگ شہر کے قلب میں جبکہ دوسرا شدید حملہ آماچ کے پہاڑی محاذ پر سرانجام دیا گیا۔ دونوں کارروائیاں بلوچ سرزمین پر جاری قبضہ گیریت، ریاستی بربریت، اور بلوچ نسل کشی کے خلاف بی ایل اے کا ردعمل ہیں، ان کاروائیوں کی ذمہ داری ہماری تنظیم قبول کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ منگل کی صبح بلوچ لبریشن آرمی کے سرمچاروں نے مستونگ شہر میں دو مختلف مقامات پر مربوط انداز میں کارروائی کی۔ سرمچاروں نے نہایت منظم حکمت عملی کے تحت تحصیل آفس، تین مختلف بینک اور دیگر ریاستی اداروں پر کنٹرول حاصل کیا۔ سرکاری دفاتر سے اہم ریکارڈ قبضے میں لیا گیا، اور دشمن فورسز کے اہلکاروں کو غیر مسلح کر کے اسلحہ ضبط کیا گیا۔ اس دوران شہر کے اندر سرمچاروں کی مکمل گشت اور پیشقدمی نے نہ صرف دشمن کے خفیہ نیٹ ورک کو مفلوج کیا بلکہ بزدل قابض فوج کی کھوکھلی حقیقت آشکار کردیا۔
ترجمان نے کہا کہ قابض پاکستانی فوج اور پولیس کا دہشتگرد ذیلی ادارہ سی ٹی ڈی ( کاونٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ) نے اس کارروائی کو روکنے کی غرض سے بکتر بند گاڑیوں کے ذریعے پیشقدمی کی کوشش کی، جس پر سرمچاروں نے بھاری ہتھیاروں، راکٹ لانچروں اور خودکار رائفلوں سے حملہ کرتے ہوئے دشمن کو پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔ قابض ریاست کی فورسز کی جانب سے کی جانے والی ہر جوابی کارروائی کو سرمچاروں نے عسکری مہارت سے ناکام بنایا، جس کے نتیجے میں مستونگ شہر میں بی ایل اے کے سرمچار دو گھنٹوں تک عملاً مکمل کنٹرول میں رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسی دوران قابض ریاست کے زیر حکم کام کرنے والا پولیس کا دہشتگرد ذیلی ادارہ، سی ٹی ڈی، بلوچ لبریشن آرمی کے سرمچاروں پر حملے کی کوشش میں ملوث پایا گیا۔ سرمچاروں نے اس حملے کو مکمل ناکام بنا کر، دشمن کو شدید جانی نقصان پہنچایا۔ بی ایل اے نے پہلے ہی پولیس اور لیویز فورسز کے متعلق اپنی پالیسی واضح کی ہے کہ انہیں بطور ادارہ نشانہ نہیں بنایا جائے گا، تاہم ان اداروں میں شامل وہ افراد جو براہ راست دشمن کی جنگی مشینری کا حصہ ہیں، اُنہیں نشانہ بنایا جانا بی ایل اے کی جنگی حکمت عملی کا حصہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ لیکن حالیہ واقعے اور ماضی کے متعدد شواہد کی روشنی میں یہ بات پوری وضاحت سے کہی جا سکتی ہے کہ سی ٹی ڈی بلوچ نسل کشی، جبری گمشدگیوں، اور ریاستی دہشتگردی میں نہ صرف ملوث ہے بلکہ ایک فعال فریق بن چکی ہے۔ اس بناء پر بلوچ لبریشن آرمی آج باضابطہ طور پر سی ٹی ڈی کو “بلوچ قومی دشمن ادارہ” قرار دیتی ہے، اور اعلان کرتی ہے کہ آئندہ سے یہ ادارہ قابض دشمن فوج کی طرح بی ایل اے کے حملوں کا براہ راست ہدف ہوگا۔ اس بابت تمام سرمچاروں کو سینئر کمانڈ کونسل سے ہدایات جاری کی جاچکی ہیں کہ وہ سی ٹی ڈی پر براہ راست حملوں کا آغاز کردیں۔ اسی لیئے تمام بلوچوں کو یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ وہ قابض ریاست کے اس ذیلی دہشتگرد فورس اور اسکے اہلکاروں سے محفوظ فاصلہ رکھیں اور انکا سماجی بائیکاٹ کرکے ان سے کوئی لین دین نا رکھیں۔
بیان میں کہا گیا کہ بی ایل اے اس اعلان کے ذریعے سی ٹی ڈی میں موجود تمام بلوچ اہلکاروں کو انتباہ دیتی ہے کہ اگر وہ اب بھی سی ٹی ڈی جیسے ادارے کا حصہ رہیں گے تو انہیں غداری، بلوچ نسل کشی میں شمولیت، اور دشمن کی صف میں ہونے کے باعث نشانہ بنایا جائے گا۔ البتہ وہ بلوچ جو اس اعلان کے بعد سی ٹی ڈی سے علیحدگی اختیار کر لیں گے، انہیں بی ایل اے نشانہ نہیں بنائے گی۔
ترجمان نے مزید کہا کہ سی ٹی ڈی کے علاوہ دیگر پولیس فورسز اور لیویز کے حوالے سے بی ایل اے کی پالیسی وہی برقرار رہے گی کہ بطور ادارہ انہیں نشانہ نہیں بنایا جائے گا، مگر انفرادی طور پر ملوث اہلکاروں کو دشمن قوت کے آلہ کار ہونے کی بنیاد پر ہدف بنایا جا سکتا ہے۔
بی ایل اے نے کہا کہ کہ مستونگ شہر پر کنٹرول کے دوران سرمچاروں نے ریاستی عمارتوں کو مکمل کنٹرول میں لینے کے بعد انہیں نذر آتش کیا تاکہ دشمن کے نوآبادیاتی ادارے نہ صرف تباہ ہوں بلکہ بلوچ عوام کے ذہنوں سے اُن کی اجارہ داری کا خوف بھی زائل ہو۔ کارروائی کے بعد سرمچار منصوبہ بندی کے تحت کامیابی سے نکلنے میں کامیاب رہے، اور دشمن کسی بھی قسم کی گرفت یا ردعمل میں ناکام رہا … دوسری جانب آماچ کے پہاڑی علاقے میں بلوچ لبریشن آرمی کے ایک اور دستے نے ریاستی فوج کو ریموٹ کنٹرول بم حملے کے ذریعے نشانہ بنایا۔ حملے کے بعد سرمچاروں نے خودکار ہتھیاروں سے قابض فوج پر تابڑ توڑ حملہ کیا، جس کے نتیجے میں کم از کم سات دشمن اہلکار ہلاک اور کئی زخمی ہوگئے۔ اس جھڑپ میں بی ایل اے کے دو سرمچار، سنگت طاہر عرف سربلند اور سنگت نعیم ساتکزئی عرف شاہد شہادت کے عظیم مرتبت فائز ہوکر سرخرو ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ ان شہداء نے اپنے خون سے مزاحمت کی تاریخ میں ایک اور سنہرا باب رقم کیا۔ شہید طاہر شاہوانی، مستونگ کے علاقے کھڈکوچہ سے تعلق رکھتے تھے اور گزشتہ ایک سال سے بی ایل اے سے منسلک تھے۔ وہ مستونگ کے محاذ پر عسکری خدمات انجام دے رہے تھے۔ شہید نعیم عرف شاہد ساتکزئی، کوئٹہ کے علاقے ڈغاری سے تعلق رکھتے تھے، اور 2024 سے بلوچ لبریشن آرمی کے ساتھ منسلک ہوکر مادر وطن کے دفاع میں سرگرم تھے۔ شہید طاہر عرف سربلند ایک خاموش مگر پختہ مزاج نڈر سرمچار تھے، جنہوں نے قلیل مدت میں غیرمعمولی عسکری فہم اور نظم کا مظاہرہ کیا۔ شہید نعیم ساتکزئی عرف شاہد اپنی نظریاتی وابستگی، مسلسل مطالعے، اور قربانی کے جذبے کے باعث نئی نسل کے لیے ایک انقلابی مثال تھے۔ دونوں شہداء نے نہ صرف دشمن کے خلاف مزاحمت کی، بلکہ اپنی زندگی کو قومی آزادی کی اجتماعی سوچ میں ڈھال دیا۔
آخر میں ترجمان نے کہا کہ بلوچ لبریشن آرمی ان شہداء کو سرخ سلام پیش کرتی ہے اور ان کے لہو کو آزادی کا مشعل سمجھتی ہے، جو آنے والی نسلوں کے لیے رہنمائی کا چراغ بنے گا۔