بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر کا انٹ سنٹ (babbling)

تحریر: رحیم ایڈووکیٹ بلوچ
زرمبش اردو

پاکستانی فوج کے ترجمان ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل چودھری احمد شریف کا بی بی سی اردو سروس کو دیا ہوا بیان 27 جون 2025 کو شائع/ نشر کیا گیا جس میں بلوچستان کی صورتحال اور وہاں فوج کے ہاتھوں انسانی حقوق کی خلاف ورزی/ بالخصوص جبری گمشدگیوں سے متعلق سوال پر فوجی ترجمان انٹ سنٹ ( babbling ) کرتا ہوا نظر آیا۔ اس نے جبری گمشدگیوں کا دفاع کرنے، اس کیلئے قانونی اور اخلاقی جواز پیش کرنے یا پھر انسانیت کے خلاف اس جرم میں ملوث فوجی اور انٹیلیجنس اہلکاروں کے خلاف کاروائی کی کوئی مثال پیش کرنے کے بجائے بھارت، امریکہ اور دیگر ممالک میں لاپتہ افراد کے مسئلے کا ذکر کرتے ہوئے بالواسطہ طریقہ سے اس جرم کیلئے جواز گڑھنے کی کوشش کی۔ لاپتہ یا غائب (missing ) ہونا اور جبری گمشدگی ( enforced disappearance ) قطعی دو مختلف معاملات ہیں۔ کوئی انسان کسی بھی سبب، جیسے کوئی کسی انجان اور گنجان آباد علاقہ میں حادثہ، موت، یا یاد داشت کھو دینے وغیرہ سے لاپتہ/ غائب ہو سکتا ہے مگر فوج، نیم فوجی ملیشیا فرنٹیئر کور، انٹیلیجنس یا دیگر ریاستی فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگی ایک الگ مسئلہ اور سنگین جرم ہے۔ یہ اعتراف تو ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھی کیا ہے کہ کسی بھی شخص کو جبری اٹھا کر گم یا لاپتہ رکھنے کا اختیار اور حق کسی کے پاس نہیں ہے مگر وہ اس جرم میں ملوث کسی ایک سکیورٹی اہلکار کو جوابدہ بنانے، اس کے خلاف شفاف عدالتی کاروائی اور سزا دینے کی ایک بھی مثال پیش نہ کرسکا بلکہ فوج، ایف سی اور تفتیشی اداروں کو بری الذمہ ٹھہراتے ہوئے معاملے کی ساری ذمہ داری ” کمیشن آف انکوائری آن انفورسڈ ڈس اپئیرنس “ پر ڈال دی۔

گزشتہ تین دہائیوں سے ہزاروں بلوچوں کو ان کے گھروں سے ان کے اہلخانہ کے سامنے، بازاروں، ہوٹلوں، دفاتر، کام کرنے کی جگہ، دوران سفر مسافروں سے بھری گاڑیوں اور ایئر پورٹس سے فوج، فرنٹیئر کور، انٹیلیجنس، سی ٹی ڈی اور پولیس سرعام گرفتار کرکے جبری گمشدہ رکھتے آرہے ہیں۔ ریاستی اداروں کے ہاتھوں ان جبری گم بلوچوں میں سے بیشتر کی تشدد سے مسخ لاشیں ملتی رہی ہیں، سینکڑوں کو فوج اور پولیس جعلی مقابلوں میں قتل کرتے رہے ہیں، ہزاروں ازیت رسانی اور تشدد سے نیم مردہ حالت میں چھوڑے جا چکے ہیں اور ہزاروں بلوچ آج بھی خفیہ ریاستی عقوبت خانوں میں قید اور گمنام رکھے ہوئے ہیں، اور ہر گزرتے دن فوج، انٹیلیجس، ریاستی سرپرستی میں سرگرم مسلح نجی ملیشیاز، سی ٹی ڈی، پولیس وغیرہ کے ہاتھوں بلوچوں کی جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل میں تیزی لائی جارہی ہے۔ گو کہ کمیشن آف انکوائری آن انفورسڈ ڈس اپیرنس جبری گمشدگی کے ہزاروں مقدمات نبٹانے اور ہزاروں جبری گمشدہ بلوچوں کو بازیاب کرنے کا دعویٰ کرتی ہے مگر اس کمیشن نے 2011 میں اپنی تشکیل سے لے کر آج تک کسی ایک مقدمہ میں مجرموں کی نشاندہی اور جوابدہی نہیں کیا ہے جس کی وجہ سے ہائیکورٹس، سپریم کورٹ آف پاکستان اور جبری گمشدگیوں پر اقوام متحدہ کے ادارہ ” ورکنگ گروپ آن انفورسڈ یا انوالنٹری ڈس اپیئرنس“ نے مذکورہ کمیشن کی کارکردگی کو صفر قرار دے کر اس کے وجود کو بے مقصد اور اس کے بھاری اخراجات کو خزانہ پر بوجھ قرار دے چکے ہیں۔

کمیشن آف انکوائری آن انفورسڈ ڈس اپیرنس سے مجرموں کی نشان دہی کرنے اور جواب دہی کی امید کیسے کی جاسکتی ہے جب سب کو معلوم ہے کہ پاکستان میں امور ریاست ہائبرڈ نظام کے تحت چلائی جارہی ہیں۔ اس ہائبرڈ نظام میں ریاستی اقتدار اور اختیارات پر فوج اور انٹیلیجنس اداروں کا مکمل کنٹرول ہے۔ پارلمنٹ، حکومت، عدلیہ اور دوسرے ادارے اس ہائبرڈ نظام میں فوج اور انٹیلیجنس کی سہولتکار اور محض دکھاوے کے ہیں ان کے پاس پالیسی سازی اور فیصلہ سازی کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ اس ہائبرڈ نظام کی حقیقت سابق وزیر اعظم عمران خان کے موقف میں صاف نظر آتا ہے جو کئی سالوں سے جیل میں ہے مگر کھٹ پتلی حکومت کے ساتھ مذاکرت پر تیار نہیں۔ وہ حکومت کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش کو بار بار ٹھکراتے ہوئے حکومت کو کھٹ پتلی اور بے اختیار قرار دے کر براہ راست فوج کے ساتھ مذاکرات کرنے پر زور دے رہا ہے۔ پاکستان میں رائج ہائبرڈ نظام عالمی برادری سے بھی چھپی نہیں جس کی تازہ جھلک حالیہ اسرائیل – ایران جنگ کے دوران صاف نظر آیا جب امریکہ کے صدر مسٹر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس جنگ کے طول پکڑنے کی امکان کے پیش نظر امریکہ اور اسرائیل کیلئے پاکستان کی حمایت کو یقینی بنانے اور، شاید پاکستان میں قیمتی معدنیات کی تلاش سے متعلق معاہدوں کیلئے پاکستانی ڈمی وزیر اعظم کی بجائے اقتدار اور اختیار کے اصل مالک پاکستانی آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو وائٹ ہاؤس بلاکر دعوت کھلایا۔

بھارت اور پاکستان کے درمیان حالیہ چند روزہ جنگ کو رکوانے کیلئے بھی امریکی حکومت نے براہ راست جنرل عاصم منیر سے رابطہ کیا تھا۔

اس ہائبرڈ نظام میں جب پارلیمنٹ، حکومت، عدلیہ بے اختیار اور ملکی دستور بے وقعت دستاویز سے زیادہ کچھ نہیں ہیں تو اس حکومت کی طرف سے قائم بے اختیار ” کمیشن آف انکوائری آن انفورسڈ اور انوالنٹری ڈس اپیئرنس“ کی کیا اوقات ہے جس کا سربراہ عارضی طور پر مقرر ایک ایسا ریٹائرڈ جج ہے جس کا اپنا کوئی باوقار شخصی کردار اور خوشنامی نہیں ہے، جو صرف ناجائز مراعات و مفادات کیلئے فوج اور انٹیلیجنس کی خوشنودی کو ملحوذ رکھتے ہوئے نوکری کر رہا ہے، جس کی نوکری میں توسیع یا برطرفی محض ایک ایگزیٹو آرڈر سے ممکن ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ مقبوضہ بلوچستان اور پختونخواہ میں فوج اور انٹیلیجنس کے ہاتھوں جبری گمشدگی اور ماورائے عدالت قتل کے بڑھتی شکایت کے خلاف تحقیقات کیلئے 2011 میں جب اقوام متحدہ کے ادارہ ” ورکنگ گروپ آن انفورسڈ اینڈ انوالنٹری ڈس اپیرنس“ کا ایک وفد پہلی بار پاکستان آرہا تھا تو فوج اور ریاست کے جرائم کو چُھپانے کیلئے اس وقت کی حکومت نے ریٹائرڈ جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں اس کمیشن کو قائم کیا۔ اس وقت کے چیف جسٹس آف سپریم کورٹ مسٹر افتخار چوہدری نے بھی ریاست کو الزام سے بچانے کیلئے کچھ جوڈیشل ایکٹوزم دکھایا تاکہ اقوام متحدہ کے ادارے کی کمیشن اور دنیا کو تاثر دیا جاسکے کہ پاکستان میں حکومت اور عدلیہ بااختیار ہیں، اور جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل سمیت انسانی حقوق کی پامالیوں کو روکنے اور مجرموں کو جوابدہ ٹھہرانے کیلئے سنجیدہ ہیں۔

دیگر ممالک اور اداروں کی پالیسیاں ان کے اپنے مفادات اور ترجیحات کے مطابق بنتی ہیں اسلئے وہ ڈی جی آئی ایس پی آر کے جھوٹے موقف اور بیانیہ پر اپنے مفادات اور علاقائی ترجیحات کے مطابق ردعمل ظاہر کریں گے مگر بلوچ قوم قابض پاکستان کی قاتل فوج اور انٹیلیجنس سمیت تمام ریاستی اداروں کی بلوچ دشمن کردار کو بخوبی جانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس بلوچ نسل کشی اور قومی وسائل کی لوٹ کھسوٹ کی اصل وجہ بلوچستان پر پاکستان کا جبری قبضہ اور اس کا مسلط کردہ نوآبادیاتی نظام ہے اسلئے وہ اس قومی محکومی سے دائمی نجات اور بلوچستان کی آزادی کیلئے ہر طرح کی قربانیاں دے رہے ہیں۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

مستونگ پر سرمچاروں کا کنٹرول، آماچ میں دشمن فوج کے سات اہلکار ہلاک، دو بلوچ سرمچار شہید – بی ایل اے

جمعہ جولائی 4 , 2025
بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان جیئند بلوچ نے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ سرمچاروں نے بلوچستان میں دشمن کے جنگی انفراسٹرکچر کو دو مختلف حملوں میں نشانہ بنایا، جن میں ایک مربوط آپریشن مستونگ شہر کے قلب میں جبکہ دوسرا شدید حملہ آماچ کے پہاڑی محاذ پر سرانجام […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ