
وائس فار بلوچ مسنگ پرسن نے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ نسیدہ بلوچ نے تنظیم سے شکایت کی، کہ انکے بھائی صغیر احمد ولد غلام قادر میروانی بلوچ اور کزن اقرار ولد جنگیاں کو فورسز کے اہلکاروں نے 11 جون کی شب اورماڑہ چیک پوسٹ سے زبردستی حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام پر منتقل کردیا، جب وہ اورماڑہ سے اپنے کزن کے ساتھ گھر آرہا تھا۔
انہوں کہا ہے کہ وہ متعلقہ انتظامیہ سے اپنے بھائی اور کزن کی فورسز کے ہاتھوں ماورائے قانون گرفتاری کے حوالے سے رابطہ کیا، لیکن انہیں انتظامیہ انکے لاپتہ پیاروں کے حوالے سے معلومات فراہم نہیں کررہا ہے، جسکی وجہ سے انکا خاندان شدید ذہنی دباو کا شکار ہے، جسکی وجہ سے انکی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے
نسیدہ بلوچ نے کہا کہ انکے بھائی صغیر احمد کو پہلی مرتبہ 20 نومبر 2017 میں کراچی سے ملکی اداروں نے جبری لاپتہ کردیا تھا_ ایک سال اپنے حراست میں رکھنے کے بعد اسے رہا کردیا تھا
انہوں نے کہا کہ انکے بھائی صغیر احمد نے کراچی یونیورسٹی سے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد سرگودھا یونیورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری بھی حاصل کیا،
اس کے بعد وہ اپنے لوگوں کی خدمت کے لیے اپنے آبائی علاقے آواران آگئے۔ لیکن تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اسے روزگار نہیں ملا، سہولیات کا فقدان تھا، اسے مجبوراً تربت منتقل ہونا پڑا اور عزت کے ساتھ روزی کمانے کے لیے اپنے کزن اقرار ولد جنگیان کے ساتھ وہاں ایک آئل ڈپو میں کام کررہا تھا
تنظیمی سطح پر نسیدہ بلوچ کو یقین دھانی کرائی گئی، کہ اسکے بھائی اور کزن کے کیس کو لاپتہ افراد کے حوالے سے بنائی گئی کمیشن اور صوبائی حکومت کو فراہم کیا جائے گا، اور انکی باحفاظت بازیابی کے لیے ہر فورم پر آواز اٹھائی جائے گی،
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیرمین نصراللہ بلوچ نے حکومت اور ملکی اداروں کی سربراہوں سے اپیل کی کہ صغیر احمد میروانی اور اقرار کے لواحقین کو ملکی قوانین کے تحت انصاف فراہم کرنے میں اپنی کردار ادا کرکے متاثرہ فیملی کو ذہنی کرب و اذیت سے نجات دلائیں۔