تربت میں عبدوئی بارڈر بندش کیخلاف احتجاجی دھرنے پر کریک ڈاؤن، متعدد مظاہرین گرفتار و لاپتہ

بلوچستان کے ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت میں ایرانی بارڈر بندش کے خلاف گزشتہ پانچ روز سے جاری پُرامن احتجاجی دھرنے پر ریاستی اداروں نے رات کے اندھیرے میں کریک ڈاؤن کرتے ہوئے متعدد مظاہرین کو گرفتار اور لاپتہ کر دیا ہے۔

ذرائع کے مطابق، ڈی بلوچ ایم ایٹ سی پیک شاہراہ پر واقع دھرنا گاہ پر رات گئے ریاستی فورسز نے دھاوا بول دیا، مظاہرین پر لاٹھی چارج، آنسو گیس کی شیلنگ اور ہوائی فائرنگ کی گئی۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی تربت کے علاقے عبدوئی میں کی گئی، جہاں 50 ڈگری سینٹی گریڈ کی شدید گرمی کے باوجود عوام پُرامن طور پر اپنے روزگار کے آئینی حق کے لیے احتجاج کر رہے تھے۔

مظاہرین کے مطابق، عبدوئی بارڈر کی بندش نے مقامی روزگار کے واحد ذریعے کو بند کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ریاستی آئین کے تحت ہر شہری کو باعزت روزگار کا حق حاصل ہے، لیکن اس کے بجائے پُرامن مظاہرین پر رات 2 بجے کے قریب حملہ کیا گیا۔ “اگر ضلعی انتظامیہ کا اقدام آئینی تھا تو دن کی روشنی میں کیا جاتا، رات کے اندھیرے میں چوروں کی طرح حملہ واضح کرتا ہے کہ خود ان کو اپنی کارروائی پر یقین نہیں”، ایک مظاہر نے کہا۔

انہوں نے مزید کہا کہ جب ضلعی افسران، بشمول ڈپٹی کمشنر، عوامی مسائل حل کرنے کا اختیار نہیں رکھتے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اصل اختیارات کس کے پاس ہیں؟ مظاہرین کا کہنا ہے کہ مقتدر قوتیں نہ صرف اختیارات پر قابض ہیں بلکہ لیویز اور پولیس کو عوامی احتجاج کچلنے کے لیے بطور ہتھیار استعمال کر رہی ہیں۔

احتجاجی شرکاء کا موقف ہے کہ بلوچستان میں جو شہری پُرامن، سیاسی اور جمہوری انداز میں اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرتا ہے، اس پر ریاستی طاقت کے ذریعے جبر کیا جاتا ہے۔ انہوں نے حق دو تحریک کیچ کے ضلعی آرگنائزر صادق فتح سمیت دیگر کارکنان اور مزدوروں پر تشدد اور گرفتاریوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔

مظاہرین کے مطابق، موجودہ صورتحال واضح کرتی ہے کہ بلوچستان میں عملی طور پر ایمرجنسی نافذ ہے اور مارشل لا جیسی فضا قائم ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ آئین پاکستان ہر شہری کو پرامن احتجاج، دھرنے اور اظہار رائے کی آزادی دیتا ہے — ان حقوق کو سلب کرنا ملک کو بدامنی کی طرف دھکیلنے کے مترادف ہے۔

شرکاء کا مطالبہ ہے کہ عبدوئی بارڈر کو سابقہ پوائنٹ پر بحال کیا جائے، ایرانی سپلائرز کی تیل ترسیل کا عمل جاری رکھا جائے اور سیکیورٹی فورسز کی نئی “بھاڑ” کے ذریعے بھتہ وصولی کا سلسلہ بند کیا جائے، جس پر ایرانی حکام نے بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

مظاہرین نے الزام لگایا کہ ریاستی ادارے نہ تو عوام کی جان و مال کی حفاظت میں سنجیدہ ہیں، نہ ہی ملکی استحکام کی پرواہ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک پر چند جرنیلوں کا قبضہ ہے جو ریٹائرمنٹ کے بعد بیرون ملک رہائش اختیار کر لیتے ہیں، جبکہ بلوچستان کے عوام اپنی زمین پر دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں۔

آخر میں دھرنے کے شرکاء نے درج ذیل مطالبات پیش کیے:
1. ڈی بلوچ دھرنے کے تمام پُرامن مظاہرین، سیاسی کارکنوں اور مزدوروں کو فی الفور رہا کیا جائے؛
2. عبدوئی بارڈر کو سابقہ پوائنٹ پر کھول کر باعزت روزگار کا حق دیا جائے؛
3. غیر آئینی بھاڑ کا خاتمہ کیا جائے اور بھتہ وصولی بند کی جائے؛
4. آئینی و قانونی حقوق کو تسلیم کیا جائے؛
5. علاقے کے خاموش منتخب نمائندے اپنی ذمے داری قبول کریں۔

شرکاء کا کہنا تھا کہ ریاست ‘فتنہ ہندوستان’ کا ڈرامہ رچاتی ہے، لیکن اصل فتنہ جنرستان ہے۔ طاقت نہیں، صرف انصاف اور احترام ہی امن کی ضمانت بن سکتا ہے۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

مستونگ میں تحصیل آفس پر مسلح افراد کا حملہ، 8 افراد زخمی، 3 گاڑیاں نذر آتش

منگل جولائی 1 , 2025
بلوچستان کے ضلع مستونگ میں نامعلوم مسلح افراد نے تحصیل آفس پر دھاوا بول دیا، حملہ آوروں نے سرکاری کمپاؤنڈ میں موجود گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا جبکہ فائرنگ اور دھماکوں کی آوازیں دیر تک علاقے میں گونجتی رہیں۔ مقامی ذرائع کے مطابق حملے کے دوران اب تک کم […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ