
کراچی: بلوچ سیاسی رہنما اور جبری گمشدگی کا شکار بلوچستان نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کے رہنما ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی گمشدگی کو 16 سال مکمل ہونے پر کراچی پریس کلب میں ’ڈاکٹر دین محمد بلوچ کے بغیر 16 سال‘‘ کے عنوان سے ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ یہ سیمینار اتوار کے روز منعقد ہوا جس میں بڑی تعداد میں صحافیوں، وکلا، انسانی حقوق کے کارکنان، سول سوسائٹی کے نمائندوں اور جبری لاپتہ افراد کے لواحقین نے شرکت کی۔
سیمینار کی نظامت ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی مہلب بلوچ نے کی، جبکہ اس موقع پر ممتاز شخصیات نے خطاب کیا۔ مقررین میں کراچی پریس کلب کے صدر فاضل جمیلی، سینئر صحافی وسعت اللہ خان، مظہر عباس، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے نمائندے اسد بٹ، معروف سماجی کارکن و فنکارہ شیما کرمانی، بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما اور ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی سمی دین بلوچ، بی وائی سی کراچی کے لالا وہاب بلوچ اور کامریڈ خرم علی شامل تھے۔
مقررین نے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے بڑھتے ہوئے واقعات پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے ایک سنگین انسانی المیہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ سیمینار ریاستی جبر کے خلاف جاری تحریک کی ایک علامت ہے، جو جبری گمشدگیوں کے خلاف آواز بلند کرنے اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے مطالبے کو اجاگر کرتا ہے۔
سمی دین بلوچ اور مہلب بلوچ کے حوالے سے شرکاء کا کہنا تھا کہ دونوں بچپن سے اپنے والد کی بازیابی کے لیے کراچی پریس کلب کے باہر احتجاج کرتی آئی ہیں، اور آج بھی ان کی جدوجہد جاری ہے۔ تاہم سولہ برس گزرنے کے باوجود ریاست تاحال ان کے والد کے بارے میں کوئی جواب دینے سے قاصر ہے۔
شرکاء نے کہا کہ بلوچستان میں روزانہ جبری گمشدگیوں اور مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں، لیکن ملکی میڈیا اور ادارے ان آوازوں کو دبانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ریاست کو لگتا ہے کہ خوف کے ذریعے لوگوں کی جدوجہد ختم کی جا سکتی ہے تو وہ سخت غلطی پر ہے، کیونکہ عوام کی مزاحمت جاری ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما سمی دین بلوچ نے کہا کہ سندھ پولیس کی بھاری نفری، راستوں کی بندش اور شرکاء کو ہراساں کرنے کی تمام کوششوں کے باوجود عوام کی بڑی تعداد نے سیمینار میں شرکت کی اور جبری گمشدگیوں کے خلاف اپنی آواز بلند کی۔
سیمینار کے اختتام پر سمی دین بلوچ نے تمام معزز مہمانوں اور شرکاء کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان تمام لوگوں کی ممنون ہیں جنہوں نے اس جدوجہد سے یکجہتی کا اظہار کیا اور ہماری آواز بنے۔


