
بلوچستان کے ضلع پنجگور کے علاقے سوردو میں ایک نوجوان کی گولیوں سے چھلنی لاش برآمد ہوئی ہے۔ لاش کی شناخت ذیشان ظہیر کے نام سے ہوئی ہے، جو لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے سرگرم تھا۔
پولیس کے مطابق ذیشان کے جسم پر گولیوں کے متعدد نشانات پائے گئے ہیں۔ مقتول کے والد، ظہیر بلوچ، 13 اپریل 2015 سے جبری طور پر لاپتہ ہیں اور تاحال ان کا کچھ پتہ نہیں چل سکا۔ ذیشان، جو کہ 21 سالہ طالبعلم اور خدا آباد، پنجگور کا رہائشی تھا، گزشتہ رات 29 جون 2025 کو تقریباً رات 8 بجے فٹبال چوک، پنجگور سے ریاستی سرپرستی میں سرگرم ڈیتھ اسکواڈ کے ہاتھوں جبری طور پر لاپتہ ہوا تھا۔
ذیشان کی جبری گمشدگی کے فوراً بعد اہل خانہ نے سی پیک روڈ، پنجگور پر احتجاجی دھرنا دیا، مظاہرین ذیشان کی فوری رہائی کا مطالبہ کر رہے تھے کہ آج صبح 9 بجے کے قریب ان کے اہل خانہ کو اس کی قتل کی اطلاع دی گئی۔
ذیشان کی لاش پنجگور کے علاقے سوردو میں غریب نواز ہوٹل کے قریب سے برآمد ہوئی۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق، ان کے جسم پر گولیوں کے متعدد زخم موجود تھے، جو تشدد کی واضح علامت ہیں۔
بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت ہلاکتوں کے واقعات پر انسانی حقوق کے اداروں کی تشویش میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، تاہم اس حوالے سے تاحال کسی قسم کی شفاف تحقیقات یا اقدامات سامنے نہیں آئے۔

