زَبان، ذِہنی اِستِعمار : نَگوگی اور فینَن کی فِکر کا بَلوچ تَناظُر میں مُطالعہ

تحریر:رامین بلوچ (پہلا حصہ )

نوآبادیاتی نظام کی پیچیدہ اور کثیرالجہتی قبضہ گیریت کو اگر کسی نے گہرائی اور فکری ایمانداری سے بیان کیا ہے تو وہ فرانز فینن اور نگوگی وا تھیونگو جیسے مفکرین ہیں۔ اگر فینن نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب "افتادگانِ خاک” میں نوآبادیاتی تشدد اور نفسیاتی غلامی کو موضوع بنایا، تو نگوگی وا تھیونگو نے ایک اور نہایت اہم زاویے—یعنی ذہنی استعماریت—کو بےنقاب کیا۔

ان کی کتاب Decolonising the Mind نوآبادیاتی لسانی سیاست کی اُس گہری تہہ میں چھپی وحشت اور فکری خناس کو آشکار کرتی ہے، جس کے ذریعے استعماری قوتیں مقبوضہ اقوام کے شعور، ثقافت اور خودی کو تحلیل کرتی ہیں۔ یہ کتاب اس بات کی دلیرانہ وضاحت کرتی ہے کہ زبان کس طرح محض اظہار کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک فکری ہتھیار بھی ہے، جسے استعمار نے مقبوضہ اقوام کے اذہان کو مسخ کرنے کے لیے استعمال کیا۔

نگوگی کا مقدمہ بظاہر سادہ ہے، مگر حقیقت میں یہ ایک انقلابی سوچ کی نمائندگی کرتا ہے۔ ان کے مطابق استعمار صرف زمین پر قبضے کا نام نہیں، بلکہ شعور اور ذہنیت پر تسلط کا ایک منظم منصوبہ ہے۔ جب کوئی قوم اپنی زبان کھو دیتی ہے، تو درحقیقت وہ اپنی تاریخ، ثقافت، تخیل اور اجتماعی شعور سے محروم ہو جاتی ہے۔ زبان صرف اظہار کا ذریعہ نہیں، بلکہ دنیا کو دیکھنے، سمجھنے اور بیان کرنے کا ایک مخصوص زاویہ نظر بھی فراہم کرتی ہے۔

نگوگی کے مطابق، جب یورپی استعماری قوتوں نے افریقہ پر قبضہ کیا تو انہوں نے بندوق سے پہلے زبان کے ذریعے فتح کی بنیاد رکھی۔ انگریزی، فرانسیسی یا پرتگالی زبان کو تعلیم، حکومت، عدلیہ اور ادب کا معیار بنا دیا گیا، جبکہ قومی زبانوں کو کمتر، غیر مہذب، جاہل اور ترقی کے لیے رکاوٹ تصور کیا گیا۔

یہ لسانی استحصال محض ایک استعماری حربہ نہیں تھا، بلکہ نظریاتی اور ذہنی قبضے کا حصہ تھا۔ نوآبادیاتی نظام نے مقبوضہ اقوام کو ان کی قومی زبان میں تعلیم سے محروم کر کے ان کی خوداعتمادی، فکری آزادی، اور تاریخی تسلسل کو منقطع کر دیا۔ نگوگی اسے "ذہنی استعمار” کا نام دیتے ہیں، جو جسمانی غلامی کے مقابلے میں کہیں زیادہ دیرپا اور گہرا اثر رکھتا ہے۔ ایک غلام قوم اگر اپنی غلامی سے آگاہ ہو تو مزاحمت کر کے اسے چیلنج کرتی ہے، لیکن اگر وہ اپنی غلامی کو "فطری” سمجھنے لگے تو مزاحمت کی صلاحیت سے محروم ہو جاتی ہے۔ پھر وہ اس ظلم کو تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیتی ہے، اور ذلت و غلامی کے تعفن میں زندگی گزار کر خود کو بیڑیوں میں جکڑا ہوا ہونے کے باوجود آزاد تصور کرنے لگتی ہے—حالانکہ حقیقت میں وہ آزاد نہیں۔
نگوگی ذہنی استعماریت کے تصور کو ادب اور تخلیقی تحریر کے تناظر میں نہایت مؤثر انداز میں واضح کرتے ہیں۔ ان کے مطابق، جب قومی لکھاریوں کو غیر ملکی استعماری زبان میں لکھنے پر مجبور کیا جاتا ہے، تو ان کا تخیل بھی نوآبادیاتی سانچے میں ڈھل جاتا ہے۔ ایسے میں وہ نہ اپنی ماؤں کی زبان میں خواب دیکھ سکتے ہیں، نہ اپنی مٹی کی خوشبو بیان کر سکتے ہیں، اور نہ ہی اپنے دکھوں کی وہ معنوی گہرائی پا سکتے ہیں، جو صرف ان کی اپنی قومی زبان میں ممکن ہوتی ہے۔ نتیجتاً، ان کی تحریر — چاہے مزاحمتی ہی کیوں نہ ہو — استعماری ڈھانچے کے اندر ہی محدود رہتی ہے۔

ذہنی استعماریت دراصل اس عمل کو کہتے ہیں جس کے ذریعے استعماری طاقتیں مقبوضہ اقوام کی نفسیات میں احساسِ کمتری، اجنبیت، اور غلامی کو اس قدر گہرائی سے پیوست کر دیتی ہیں کہ وہ قومیں خود اپنی زبان، ثقافت، تاریخ، اور حتیٰ کہ اپنے وجود کو بھی مشکوک اور ناقابلِ اعتبار سمجھنے لگتی ہیں۔ نگوگی نے اس کیفیت کو "دوہری خودی” (Double Consciousness) سے تعبیر کیا ہے، جس میں فرد خود کو دو متضاد دنیاؤں میں بٹا ہوا محسوس کرتا ہے: ایک اس کا اپنا ثقافتی اور مقامی وجود، اور دوسری وہ مصنوعی شناخت جو نوآبادیاتی طاقتوں نے بطور "ترقی یافتہ” اس پر مسلط کی ہے۔
نگوگی اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ جب تک تیسری دنیا کے ممالک، خصوصاً افریقی اقوام، اپنی قومی اور علاقائی زبانوں کو دوبارہ بحال نہیں کرتے، تب تک نہ ان کی سیاسی آزادی مکمل ہو سکتی ہے، نہ سماجی مساوات ممکن ہے، اور نہ ہی فکری خودمختاری حاصل ہو سکتی ہے۔ زبان کا استعمار ایک ایسی بیڑی ہے جو بظاہر نظر نہیں آتی، مگر ذہن اور روح کو جکڑ لیتی ہے۔ لہٰذا استعماریت کے خاتمے کے لیے سب سے بنیادی شرط یہ ہے کہ قومیں اپنی زبان کو اپنائیں، اسی میں تعلیم حاصل کریں، علم تخلیق کریں، اور ادب، سائنس، سیاست اور فلسفے کی گفتگو اپنی ہی زبان میں کریں۔

جب ہم نگوگی وا تھیونگو کی فکر کا مطالعہ کرتے ہیں، تو ہمیں استعمار کی ایک ایسی صورت کا سامنا ہوتا ہے جو توپ و تفنگ سے کہیں زیادہ مہلک ہے: زبان کے ذریعے غلامی۔ نگوگی کے نزدیک نوآبادیاتی عمل کا سب سے کاری وار زبان کے توسط سے کیا جاتا ہے، کیونکہ زبان صرف اظہار کا وسیلہ نہیں بلکہ شعور، تخیل اور وجود کی بنیاد بھی ہے۔ جب کوئی قوم اپنی زبان سے کٹ جاتی ہے، تو وہ صرف الفاظ سے نہیں بلکہ اپنی تاریخ، خواب، فکر اور شناخت سے بھی کٹ جاتی ہے۔

بلوچ قوم کا لسانی تجربہ دراصل نگوگی وا تھیونگو کی "ذہنی استعمار” (colonial alienation) کے تصور کی ایک زندہ مثال ہے۔ نگوگی کے مطابق استعمار کی سب سے مہلک صورت وہ ہے جو انسانی شعور میں سرایت کر جاتی ہے، اور فرد کو اس کی اپنی زبان، ثقافت اور شناخت سے بیگانہ کر دیتی ہے۔ یہی وہ صورت حال ہے جس کا سامنا بلوچ قوم کو دہائیوں سے ہے۔

بلوچستان میں اردو اور فارسی زبانوں کو علمی، انتظامی اور تعلیمی میدان میں بالادست بنانا، دراصل ایک گہری نوآبادیاتی حکمت عملی کا حصہ رہا ہے۔ اس منصوبہ بندی کو پنجابی اشرافیہ، اور نوآبادیاتی ذہنیت نے مشترکہ طور پر پروان چڑھایا۔ اس کا بنیادی مقصد بلوچ قومی زبانوں — بالخصوص بلوچی اور براہوئی — کو علمی افق سے خارج کر کے انہیں محض "علاقائی بولیاں” ثابت کرنا اور یوں ان کی تہذیبی، فکری اور قومی حیثیت کو مجروح کرنا تھا۔

یہ زبانیں صرف رابطے کا ذریعہ نہیں، بلکہ ہزاروں سالہ تہذیبی، ادبی، اور فکری روایات کی امین ہیں۔ مگر منظم طریقے سے انہیں تعلیمی نصاب، ریاستی ذرائع ابلاغ، اور انتظامی اداروں سے باہر کر کے ان کے بولنے والوں کو احساسِ کم تری اور لسانی محرومی میں مبتلا کر دیا گیا۔ اس عمل نے نہ صرف ایک مکمل زبان دشمنی کو جنم دیا، بلکہ اس کے نتیجے میں ایک گہری ذہنی اجنبیت بھی پیدا ہوئی۔

بلوچ نوجوان جب اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہتا ہے، جب اسے اپنی ماں بولی میں سوچنے، لکھنے، اور خواب دیکھنے کی اجازت نہیں دی جاتی، تو وہ ایک متزلزل شناخت کا شکار ہو جاتا ہے۔ وہ نہ تو مکمل طور پر اردو یا فارسی بولنے والا بن پاتا ہے، نہ ہی اپنی زبان کا موثر محافظ۔ یہی وہ کیفیت ہے جسے نگوگی "ذہنی استعمار” قرار دیتے ہیں — یعنی ایسا استعماری نظام جو افراد کے اذہان میں اپنی برتری کے نقوش چھوڑ جاتا ہے، اور اُنہیں خود اپنی زبان، اپنی ثقافت اور اپنی تاریخ سے بیگانہ کر دیتا ہے۔

اس ذہنی استعمار کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ فرد نہ صرف اپنی زبان سے شرمندہ ہونے لگتا ہے بلکہ اسے اپنے شعور میں بھی ایک غیرضروری بوجھ سمجھنے لگتا ہے۔ وہ اپنی ماں بولی کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ، اور استعماری زبانوں کو نجات دہندہ کے طور پر دیکھنے لگتا ہے۔ یوں ایک مکمل علمی و ثقافتی غلامی کی بنیاد پڑتی ہے، جو جسمانی غلامی سے کہیں زیادہ دیرپا اور گہری ہوتی ہے۔

اس تناظر میں ، بلوچ زبانوں کی بحالی اور فروغ محض ایک لسانی مسئلہ نہیں بلکہ ایک فکری، تہذیبی اور سیاسی مزاحمت کا عمل ہے۔ یہ وہ جدوجہد ہے جو نگوگی کے تصور کے مطابق صرف زبان کی بازیافت نہیں بلکہ ذہنی آزادی کی جانب پہلا قدم ہے۔

مسئلہ محض ظلم و جبر تک محدود نہیں۔ اصل مسئلہ اس سے کہیں گہرا اور پیچیدہ ہے—جب ایک قابض قوت اپنے جبر، استحصال اور جرائم کو نہ صرف طاقت کے بل پر قائم رکھتی ہے بلکہ انہیں نظریاتی اور لسانی سطح پر بھی چھپانے کی کوشش کرتی ہے۔ ایسے میں مزاحمت صرف جسمانی ردعمل نہیں بلکہ شعوری بیداری کا ایک لازمی اظہار بن جاتی ہے، تاکہ قابض کی چالاکی سے پردہ اٹھایا جا سکے اور اس کے جرائم کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا جا سکے۔

ہم جیسے لکھنے والے، جو اردو کو ایک استعماری اور غیر فطری زبان تصور کرتے ہیں، آج اردو ہی میں لکھنے پر مجبور ہیں۔ اس مجبوری کی جڑیں ماضی اور حال کے اس نوآبادیاتی تعلیمی نظام میں پیوست ہیں، جس نے بلوچ وطن میں انگریزی سامراج کے بعد پنجابی استعمار کے توسط سے اردو کو ہماری تعلیمی، اور فکری زبان بنا دیا۔ ہماری نسلوں کو اپنی مادری زبانوں سے کاٹ کر ایک ایسی زبان میں سوچنے اور لکھنے پر مجبور کیا گیا جو ان کی تہذیب، ثقافت اور تاریخی حافظے سے بیگانہ ہے۔

اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ اردو ایک مخلوط اور غیر فطری زبان ہے، جو مختلف لسانی عناصر کا مرکب ہے، اور نوآبادیاتی مفادات کے تحت پروان چڑھی۔ مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ آج ہم اسی زبان کو استعمال کرتے ہوئے اپنی قومی غلامی کا مقدمہ لڑنے پر مجبور ہیں۔ اس وقت کے زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے، دشمن کی زبان میں مخاطب ہونا ایک مؤثر حکمت عملی ضرور ہے—مگر شرط یہ ہے کہ ہماری فکری جڑیں اپنی قومی زبان، یعنی بلوچی یا براہوئی میں پیوست ہوں۔

اردو میں لکھنا ایک وقتی ناگزیر ضرورت ہو سکتی ہے، لیکن اپنی زبان میں سوچنا، محسوس کرنا اور تخلیق کرنا ہی حقیقی آزادی کی بنیاد ہے۔ جب تک ہم اپنی قومی زبان میں شعور پیدا نہیں کریں گے، تب تک کسی بھی زبان میں کیا گیا اظہار مکمل اور آزاد نہیں کہلا سکتا۔ اردو میں لکھنا ہمیں وقتی طور پر عالمی سطح پر اپنی آواز بلند کرنے کا موقع تو فراہم کرتا ہے، لیکن یہ زبان ہماری شناخت کا ترجمان نہیں ہو سکتی۔ اس لیے ہماری اصل جدوجہد لسانی آزادی اور قومی شعور کی بازیابی ہے—جو صرف اور صرف اپنی زبان میں ممکن ہے۔
افریقی دانشور اور معروف مفکر نگوگی وا تھیونگو ایک ایسی اپیل کرتے ہیں جو نہ صرف افریقی اقوام بلکہ دنیا کی تمام محکوم اور نوآبادیاتی تجربہ رکھنے والی اقوام کے لیے گہری معنویت رکھتی ہے۔ وہ اہلِ علم، اہلِ قلم، اور تخلیق کاروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں:

"اپنی زبان کو علمی، فکری اور تخلیقی اظہار کا وسیلہ بناؤ۔”

یہ صرف ایک ادبی نعرہ نہیں بلکہ فکری آزادی اور تہذیبی خودمختاری کی بنیاد ہے۔ جب تک ہم اپنی مادری زبانوں کو تحقیق، فلسفہ، سائنس اور تنقید کی زبانیں نہیں بنائیں گے، ہماری آزادی صرف ظاہری و رسمی ہوگی، باطنی اور فکری سطح پر ہم غلام ہی رہیں گے۔

استعمار کی بات کرتے ہوئے عمومی طور پر ہم اُس تاریخی دور کو یاد کرتے ہیں جب یورپی طاقتوں نے ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ پر فوجی طاقت، معاشی استحصال اور سیاسی غلبے کے ذریعے قبضہ کیا۔ مگر نگوگی وا تھیونگو ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ استعمار محض ماضی کا باب نہیں، بلکہ حال کا زندہ چیلنج ہے۔ ان کے مطابق استعمار نے اپنی شکلیں بدل کر آج بھی تعلیم، عدلیہ، زبان، ثقافت اور میڈیا جیسے نظاموں کے ذریعے اپنا تسلط برقرار رکھا ہوا ہے۔ یہی وہ "ذہنی استعمار” ہے جو جسمانی غلامی کے خاتمے کے باوجود ذہنوں کو قید میں رکھتا ہے۔

بلوچ قومی تناظر میں اس استعمار کی ایک واضح شکل پنجابی حکمرانی کی صورت میں نظر آتی ہے۔ بہت سے لوگ نوآبادیات کو صرف انگریزوں کے دور سے جوڑتے ہیں، لیکن نوآبادیاتی طرز حکمرانی کا خاتمہ صرف انگریزی بولنے والے حاکم کے جانے سے نہیں ہوتا۔ جب ایک قوم دوسری قوم پر غیر فطری، غیر تہذیبی، اور جبر کی بنیاد پر اقتدار مسلط کرے، تو وہ بھی نوآبادیاتی عمل ہی کہلاتا ہے۔

بلوچ اور پنجابی اقوام کے درمیان نہ کوئی نسلی رشتہ ہے، نہ زمینی ربط، اور نہ ہی تاریخی طور پر کوئی فطری اتحاد۔ پنجابی حکمرانی کا بلوچ سماج پر تسلط مذہب، فوج، اور ریاستی طاقت کے ذریعے قائم کیا گیا ہے۔ یہ تسلط نہ صرف سیاسی اور معاشی ہے، بلکہ لسانی و ثقافتی سطح پر بھی ایک گہری جارحیت کا اظہار ہے۔ بلوچی زبان اور ثقافت کو حاشیے پر ڈالنے کی منظم کوششیں، ریاستی نصاب، میڈیا اور عدالتی زبان کے ذریعے ایک خاص شناخت کو مسلط کرنا — یہ سب "نوآبادیاتی استعمار” ہی کی جدید صورتیں ہیں۔

ایسے میں بلوچ دانشوروں، شاعروں، ادیبوں اور اکیڈمک افراد کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ وہ اس ذہنی استعمار کے خلاف فکری مزاحمت کا محاذ کھولیں۔ اپنی زبان کو تحقیق، تنقید، تدریس اور تخلیق کا ذریعہ بنائیں۔ بلوچی زبان میں فلسفہ لکھا جائے، سائنسی اصطلاحات تخلیق کی جائیں، تنقیدی مباحثے ہوں، اور سب سے بڑھ کر عوام کو زبان کی اہمیت سے روشناس کرایا جائے۔

یہ کام محض جذباتی ردعمل یا نعرے بازی سے ممکن نہیں۔ اس کے لیے سنجیدہ علمی کاوش، ادارہ جاتی سطح پر منصوبہ بندی، اور طویل مدتی لسانی تحریک کی ضرورت ہے۔ جس دن بلوچی زبان میں ایک طالبعلم فلسفہ، فزکس یا سیاسیات پر ایم فل یا پی ایچ ڈی کی سطح پر کام کر سکے گا، وہ دن ہماری فکری آزادی کی طرف پہلا قدم ہوگا۔

آزادی صرف جغرافیہ سے حاصل نہیں ہوتی، ذہن اور زبان کی آزادی اس سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ جب تک ہم اپنے فکری ڈھانچے کو نوآبادیاتی باقیات سے آزاد نہیں کرتے، تب تک حقیقی آزادی ایک خواب ہی رہے گی۔
ذہنی استعماریت (Mental Colonization) صرف سیاسی یا اقتصادی محکومی کا تسلسل نہیں، بلکہ اس سے کہیں زیادہ گہرا، پیچیدہ اور دیرپا اثرات کا حامل فکری عمل ہے، جس کے ذریعے نوآبادیاتی قوتیں نہ صرف اقوام کے وسائل پر قابض ہوئیں بلکہ ان کی فکری ساخت، لسانی شناخت، تاریخی شعور اور علمی خودی کو بھی نشانہ بنایا۔ یہ عمل ایک منظم حکمتِ عملی کے تحت انجام دیا گیا، جس میں سب سے اہم کردار تعلیمی اداروں اور علمی بیانیے نے ادا کیا۔ نوآبادیاتی طاقتوں نے مقبوضہ اقوام کے اذہان کو اس انداز سے تشکیل دیا کہ وہ غیرملکی زبان، علوم، اقدار اور افکار کو اعلیٰ، ترقی یافتہ اور قابلِ تقلید سمجھنے لگیں، جب کہ اپنی قومی زبان، مقامی علمی روایت اور تہذیبی شعور کو پسماندہ، دقیانوسی اور غیر موزوں گرداننے لگے۔

اس عمل کا سب سے نمایاں مظہر نوآبادیاتی تعلیمی نظام ہے، جو آج بھی بیشتر نوآبادیاتی معاشروں میں اپنی اصل یا کسی نہ کسی ترمیم شدہ صورت میں نافذ العمل ہے۔ ان تعلیمی اداروں میں نہ صرف نصاب بلکہ زبانِ تدریس، تحقیقاتی معیار، امتحانی نظام، اور علمی اصطلاحات تک استعمار کے سانچوں میں ڈھلے ہوئے ہیں۔ نتیجتاً ایک ایسی نسل تیار ہوتی ہے جو بظاہر تعلیم یافتہ، مگر فکری لحاظ سے مغرب کی مرعوب، اور اپنی علمی خودی سے بیگانہ ہوتی ہے۔

معروف کینیاوی ادیب اور مفکر نگوگی وا تھیونگو (Ngũgĩ wa Thiong’o) نے اپنی فکرانگیز کتاب Decolonising the Mind میں ذہنی استعماریت کی اسی نوعیت کو موضوعِ بحث بنایا ہے۔ ان کے مطابق زبان صرف اظہار کا ذریعہ نہیں بلکہ وہ ایک فکری جہان کی تشکیل کرتی ہے۔ زبان کے ذریعے انسان نہ صرف دنیا کو دیکھتا، سمجھتا اور بیان کرتا ہے، بلکہ وہ اس کے ذریعے حقیقت کو معنی دیتا، علم کو تشکیل دیتا اور اپنی اجتماعی شناخت کو متعین کرتا ہے۔ چنانچہ جب کسی قوم کی زبان کو اس کے تعلیمی، عدالتی، علمی اور ادبی نظام سے خارج کر دیا جاتا ہے، تو یہ ایک لسانی اخراج نہیں بلکہ فکری اخراج، تاریخی انقطاع اور علمی امتیاز کا عمل ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں وہ قوم اپنی علمی روایت سے کٹ جاتی ہے اور اپنے وجود کے تعارف کے لیے استعمار کے ترازو کی محتاج ہو جاتی ہے۔

نگوگی اس امر پر زور دیتے ہیں کہ قومی زبانوں کو صرف ثقافتی یا جذباتی ورثے کے طور پر نہیں بلکہ علم، تحقیق، فلسفہ، سائنس، اور دیگر فکری علوم کے مکمل اور جائز ذرائع کے طور پر اختیار کیا جانا چاہیے۔ ان کے مطابق جب تک نوآبادیاتی زبانوں کی اجارہ داری علمی و تدریسی نظام پر قائم رہے گی، ذہنی استعماریت کا تسلسل قائم رہے گا، چاہے سیاسی آزادی کا حصول ہو چکا ہو۔ حقیقی آزادی تب ہی ممکن ہے جب ایک قوم اپنی زبان میں سوچنے، لکھنے، سیکھنے اور سکھانے کے قابل ہو، اور اپنے علمی مسائل کے حل اپنی فکری روایت کے اندر سے نکالے۔

بلوچی زبان کے تناظر میں دیکھا جائے تو صورت حال مزید تکلیف دہ اور توجہ طلب ہے۔ بلوچی، جو نہ صرف ایک قدیم لسانی ورثہ ہے بلکہ اپنے اندر ایک مکمل ثقافتی، ادبی اور علمی روایت سمیٹے ہوئے ہے، آج رسمی تعلیمی نظام سے تقریباً ناپید ہو چکی ہے۔ بلوچی زبان میں تعلیم دینے والے ادارے محدود، نصاب غیر موجود، تحقیقی مواد ناپید، اور علمی زبان سازی کا عمل تقریباً معطل ہے۔ نتیجتاً بلوچی بولنے والی راج اپنی قومی زبان سے جذباتی تعلق تو رکھتی ہیں، مگر علمی اور عملی سطح پر اس پر اس انداز میں کام نہیں کرسکتی جو آزادی کی صورت میں ممکن ہیں اور یہی استعمار کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔

ذہنی استعماریت کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ بلوچی زبان کو نہ صرف ادارہ جاتی تعلیم کا ذریعہ بنایا جائے بلکہ ، تحقیق، فلسفہ، سائنسی علوم، اور ادبی تنقید کا بھی ایک فعال اور مؤثر وسیلہ تسلیم کیا جائے۔ اس کے لیے آزادی دوست سیاسی جماعتیں۔ اور ادارء زبان کی معیار بندی، علمی اصطلاحات کی تخلیق، نصاب کی تیاری، نسل نو کی تربیت، اور لسانی خودمختاری کا شعوری منصوبہ بندی کے ساتھ آغاز کیا جائے۔ بصورتِ دیگر، فکری غلامی کا یہ سلسلہ صرف نئی شکلوں میں، نئی زبانوں اور نئے اداروں کے ذریعے قائم و دائم رہے گا۔

حاصلِ کلام یہ ہے کہ استعماریت اگرچہ اپنی سیاسی شکل میں پسپا ہو چکی، مگر ذہنی سطح پر اب بھی ہمارے تعلیمی نظام، علمی فریم ورک، اور لسانی ترجیحات پر قابض ہے۔

تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ جب بھی برطانوی، فرانسیسی، پنجاپی یا دیگر نوآبادیاتی قوتوں نے کسی خطے پر قبضہ جمایا، تو ان کا پہلا ہدف وہاں کی قومی اور مقامی زبانوں کو پسِ پشت ڈال کر انہیں ریاستی، تعلیمی، عدالتی اور انتظامی دائروں سے خارج کرنا رہا۔ ہندوستان میں بھی یہی نوآبادیاتی حکمتِ عملی اختیار کی گئی۔ انگریزوں نے مقامی زبانوں کو ثانوی حیثیت دے کر انگریزی کو عدالت، یونیورسٹی، اور سرکاری بیوروکریسی کی زبان بنا دیا۔

اس اقدام کے دور رس اثرات مرتب ہوئے۔ اول، اس سے وہ لاکھوں افراد جو انگریزی سے ناآشنا تھے، اعلیٰ تعلیم، قانونی فہم، اور حکومتی عملداری سے یکسر محروم ہو گئے۔ دوم، اس فیصلے نے ایک نئی استحصالی اشرافیہ کو جنم دیا، جو صرف اس لیے بااختیار ہو گئی کہ وہ انگریزی زبان سے واقف تھی۔ اس لسانی تقسیم نے نہ صرف سماجی ناہمواری کو بڑھایا بلکہ علمی برتری کے تصور کو مغربی زبانوں سے منسلک کر دیا۔

یہی نوآبادیاتی نسخۂ عمل (colonial template) نہ صرف برصغیر بلکہ افریقہ، مشرقِ وسطیٰ اور لاطینی امریکہ میں بھی بعینہٖ دہرایا گیا۔ ہر جگہ مقامی زبانوں کو "کم تر” یا "غیر معیاری” قرار دے کر تعلیمی اداروں، علمی مراکز، اور پالیسی سازی کے دائرے سے خارج کر دیا گیا۔ نتیجتاً مقامی لسانی و فکری روایتیں حاشیے پر چلی گئیں، اور مغربی علمیات (Western Epistemologies) کو عالمی معیار کا درجہ دے دیا گیا۔

اس علمی استعماریت (epistemic colonialism) نے یہ تصور راسخ کر دیا کہ صرف وہی علم معتبر ہے جو مغرب کی زبان میں ہو، اور صرف وہی فہم قابلِ قبول ہے جو یورپی ماڈل کے مطابق ہو۔ یوں مقامی دانش، تاریخ، فلسفہ، ادب اور سائنسی فکر کو غیر رسمی، روایتی یا دیہی کہہ کر علمی منظرنامے سے خارج کر دیا گیا۔

یہ لسانی استعمار نہ صرف زبان کی شکل میں تھا، بلکہ اس نے علم کی ساخت، مفہوم، معیار اور رسائی کو بھی مغربی سیاسی و تہذیبی طاقت سے منسلک کر دیا۔ مقامی معاشروں کو ان کی اپنی زبانوں میں علم سے محروم کر کے ایک ایسی فکری غلامی میں جکڑا گیا جس سے نجات آج بھی کئی خطوں کے لیے ایک چیلنج بنی ہوئی ہے۔

اب وقت کا تقاضا ہے کہ نوآبادیاتی دور کی اس علمی و لسانی پسماندگی کا تجزیہ کر کے مقامی زبانوں اور علمی روایتوں کو ازسرِ نو زندہ کیا جائے، تاکہ علم و اقتدار کے درمیان حائل لسانی دیواریں گرائی جا سکیں، اور علم دوبارہ عوامی، مقامی اور بااختیار ہو سکے۔
ذہنی استعماریت محض علمی یا لسانی محرومی کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک وسیع تر سیاسی اور سماجی بے اختیاری کا بھی مؤثر ذریعہ ہے۔ جب کسی قوم کی اکثریت کو ایسی زبانوں میں تعلیم دی جاتی ہے جو اس کی اپنی تاریخی، ثقافتی اور سماجی شناخت سے بیگانہ ہوں، تو ہ یہ بیگانگی محض خارجی یا رسمی نہیں، بلکہ داخلی اور وجودی سطح پر ایک گہرا زخم بن جاتی ہے، جس سے عدم شرکت، احساسِ کمتری، فکری جمود، اور علمی اجنبیت جیسے مہلک اثرات جنم لیتے ہیں۔

مزید برآں، قومی زبانوں کی بے توقیری اور غیرملکی زبانوں کو ترجیح دینا صرف لسانی مسئلہ نہیں بلکہ ایک تہذیبی اور شعوری توہین بھی ہے۔ زبان صرف اظہار کا ذریعہ نہیں بلکہ شعور، جذبات، تاریخی تجربے، اجتماعی حافظے، اور فکری جہات کی تعبیر کا نام ہے۔ نگوگی وا تھیونگو (Ngũgĩ wa Thiong’o) بجا طور پر کہتے ہیں کہ جب ہم اپنی زبان میں سوچتے، لکھتے اور تخلیق کرتے ہیں، تو ہم اپنی تاریخ، اپنے وجود، اور اپنی فکری آزادی سے جڑتے ہیں۔ اپنی زبان میں سوال اٹھانا، اپنے سیاق میں علم تخلیق کرنا، اور اپنی زمین سے جڑے ہوئے حوالہ جات دینا، علمی خودمختاری کی بنیاد ہے۔

نوآبادیاتی ورثے کے تسلسل میں نو آبادیاتی جامعات (یونیورسٹیاں) بدقسمتی سے ایک فعال آلہ کار بنی ہوئی ہیں۔ ان اداروں میں نہ صرف زبانِ تدریس غیرملکی ہے، بلکہ علمی تناظر، تحقیقاتی ڈھانچے، تھیوریز، اصطلاحات، اور حوالہ جاتی نظام سب استعماری ماڈلز سے مستعار لیے گئے ہیں۔ علم کو "یونیورسل” کے نام پر ایک مخصوص نوآبادیاتی قالب میں ڈھالا جاتا ہے، اور وہ بھی اس انداز میں کہ قومی روایات، ادب، قصہ گوئی، اور علمی ذخیرہ یا تو نظرانداز کر دیا جاتا ہے یا اُسے "غیر سائنسی”، "روایتی”، یا "پس ماندہ” قرار دے کر علمی حلقوں سے خارج کر دیا جاتا ہے۔

افریقی ادب میں چینو اچیبے کی حیثیت محض ایک ادیب یا ناول نگار کی نہیں بلکہ وہ ایک ضمیرِ عصر کے طور پر ابھر کر سامنے آتے ہیں—ایک ایسا فکری اور تہذیبی معمار جس نے افریقی شعور کو نوآبادیاتی تجربے کے اندر سے دریافت کیا اور اسے زبان و بیان کی قوت سے آشنا کیا۔ وہ اس روایت شکن ادیب کی صورت میں سامنے آتے ہیں جو نوآبادیاتی تسلط کو صرف ایک سیاسی یا معاشی سانحہ نہیں سمجھتا، بلکہ اسے ایک ہمہ جہتی تہذیبی، فکری، نفسیاتی اور لسانی سانحہ قرار دیتا ہے، جس نے مقبوضہ اقوام کی داخلی ساخت اور اجتماعی شعور کو جڑ سے ہلا دیا۔

اچیبے کے پہلے ناول "Things Fall Apart” سے لے کر "No Longer at Ease” تک، ان کا تخلیقی سفر ایک ایسے بیانیے کی تشکیل کرتا ہے جو افریقہ کے ماضی، حال اور تہذیبی مستقبل کو ایک پیچیدہ، مگر نہایت عالمانہ اور گہرے تنقیدی عدسے سے دیکھتا ہے۔ ان کے ہاں نوآبادیاتی طاقتوں کا حملہ صرف بندوقوں اور توپوں کے ذریعے نہیں ہوتا، بلکہ ایک چالاک مگر مہلک فکری اور تہذیبی دراندازی کے طور پر رونما ہوتا ہے، جو مذہب، ثقافت، روایات، اقدار اور زبان کی سطح پر ایک منظم اور گہری منصوبہ بندی کے تحت انجام دیا جاتا ہے۔

چینو اچیبے کے نزدیک نوآبادیات کا سب سے مہلک اور پائیدار پہلو وہ نفسیاتی اور تہذیبی بیگانگی ہے جو مقبوضہ اقوام کو ان کی اپنی شناخت، خودی اور روایت سے محروم کر دیتی ہے۔ استعماری قوتوں نے اپنی حکمرانی کی بنیاد صرف عسکری طاقت پر نہیں رکھی، بلکہ انہوں نے زبان، ادب، تاریخ، اور مذہب کے ذریعے ایک ایسا بیانیہ ترتیب دیا جو مقامی اقوام کو اپنی ہی تہذیب اور روایت سے اجنبی کر دے۔ یہی وجہ ہے کہ اچیبے کے فکری تناظر میں "بیانیہ” بذاتِ خود ایک سیاسی ہتھیار بن جاتا ہے—ایسا ہتھیار جو تلوار سے زیادہ کاٹ دار اور گہرا اثر رکھتا ہے۔

اچیبے کی فکری بصیرت اس بات کا ادراک کراتی ہے کہ جب کوئی قوم اپنی زبان، تاریخ اور اقدار کو پرائے بیانیے کے آئینے میں دیکھنے لگے تو وہ غلامی کے ایک ایسے دائرے میں داخل ہو جاتی ہے جہاں جسمانی آزادی بھی اس کی فکری اسیری کو ختم نہیں کر سکتی۔ "Things Fall Apart” میں اُوکنوو کا کردار محض ایک شخصی المیہ نہیں، بلکہ ایک تہذیب کے انہدام کی علامت بن کر ابھرتا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب ایک مستحکم سماج اپنی ہی بنیادوں سے متزلزل ہو جاتا ہے کیونکہ اس کی فکری زمین پر کسی اور کے تصورات نے قبضہ جما لیا ہوتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

بولان اور جھاؤ میں پاکستانی فورسز پر حملہ، دو اہلکار زخمی، کوئٹہ میں فائرنگ سے ایک شخص ہلاک

جمعرات جون 26 , 2025
بلوچستان کے ضلع کچھی کے علاقے ڈھاڈر میں یوسف پٹرول پمپ کے قریب پاکستانی فورسز کے قافلے میں شامل ایک گاڑی کو آئی ای ڈی دھماکے کا نشانہ بنایا گیا۔ حکام نے حملے میں دو اہلکاروں کے زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے۔ دوسری جانب، ضلع آواران کے علاقے جھاؤ […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ