
بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان جیئند بلوچ نے میڈیا کو بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ سرمچاروں نے گوادر کے علاقے جیونی میں قابض پاکستانی فوج کو ایک ریموٹ کنٹرول آئی ای ڈی حملے میں نشانہ بنایا، جبکہ نوشکی اور قلات میں قابض فوج کے دو زیرِ حراست آلہ کاروں ،سمیع سرپرہ اور نظام کرد کو اعترافِ جرم کے بعد سزائے موت دے دی گئی۔
ترجمان نے کہا کہ آج گوادر کے جیونی علاقے میں بلوچ لبریشن آرمی کے سرمچاروں نے ریموٹ کنٹرول بم دھماکے کے ذریعے ان اہلکاروں کو نشانہ بنایا جو سڑک پر ناکہ لگا کر گاڑیوں سے بھتہ وصول کر رہے تھے۔ حملے کے نتیجے میں قابض فوج کا ایک اہلکار، اللّٰہ داد، موقع پر ہلاک جبکہ دوسرا شدید زخمی ہوا۔
بیان میں کہا گیا کہ دھماکے کے بعد حواس باختہ قابض فوج نے اندھا دھند فائرنگ کی، جس سے متعدد عام شہری زخمی ہوئے، اور اپنی جارحیت جاری رکھتے ہوئے کئی افراد کو جبری طور پر لاپتہ کر دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچ لبریشن آرمی کے سرمچاروں نے 13 جون کو گرگینہ کے علاقے سے سمیع سرپرہ ولد فتح محمد سرپرہ سکنہ نوشکی کو شناخت کے بعد حراست میں لیا گیا۔ تفتیش کے دوران اس نے اعتراف کیا کہ وہ اختر بادینی کے ذریعے آئی ایس آئی سے منسلک ہوا اور 2014 سے قابض پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کے لیے بطور آلہ کار کام کر رہا تھا۔
بی ایل اے نے اپنے بیان میں کہا کہ سمیع سرپرہ نے بتایا کہ وہ 2014 میں عامر جمالدینی کو جبری طور پر لاپتہ کرنے میں ملوث تھا، جس کے بعد اس کی مسخ شدہ لاش پھینک دی گئی۔ اس نے نوشکی اور گردونواح میں گھروں پر چھاپوں، خواتین و بزرگوں کی تذلیل، اور نوجوانوں کی جبری گمشدگیوں میں فوج کی براہِ راست سہولت کاری کی۔ یاسر جمالدینی کو سرینڈر کروانے اور بعد ازاں انٹیلیجنس اداروں کے لیے کام پر آمادہ کرنے میں بھی وہ ملوث رہا۔
ترجمان نے کہا کہ مزید برآں، سمیع سرپرہ نے کئی افراد کو فوج کے لیے بطور مخبر اور ڈیتھ اسکواڈ کے رکن بھرتی کروایا، اور اپنے ساتھیوں سمیت دیگر افراد کے نام بھی افشا کیے جو قابض فوج کے لیے کام کرتے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچ قومی عدالت نے قومی غداری اور ان جرائم کی پاداش میں سمیع سرپرہ کو سزائے موت سنائی، جس پر 23 جون کو لجے کے مقام پر عمل درآمد کیا گیا۔
ترجمان نے کہا کہ اسی طرح، مستونگ کے علاقے اسپلنجی مَرو سے نظام کرد ولد ٹکری نورالدین سکنہ خلی کو حراست میں لیا گیا، جس نے دورانِ تفتیش اعتراف کیا کہ وہ گزشتہ پانچ سال سے قابض فوج کا آلہ کار تھا۔ اس نے بتایا کہ وہ اسپلنجی، کولپور اور کوئٹہ کے فوجی کیمپوں میں فوج کے کہنے پر جسم فروش خواتین لے جایا کرتا تھا۔ اس دوران وہ خود بھی جنسی استحصال کا شکار ہوتا رہا، جس کے بدلے اسے پیسے دیے جاتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ نظام کرد نے مزید اعتراف کیا کہ وہ گوکرت، مچھ، اور مستونگ میں قابض فوج کی جارحانہ کارروائیوں میں شریک رہا، اور متعدد مرتبہ فوج کے ساتھ گوادر تک بھی گیا۔
انہوں نے آخر میں کہا کہ بلوچ قومی عدالت نے اعترافِ جرم کے بعد نظام کرد کو بھی سزائے موت سنائی، جس پر گذشتہ روز سرمچاروں نے عمل درآمد کیا۔