بلوچستان کی شاہراہوں سے اٹھنے والی بلوچ قوم کی مزاحمت

تحریر: سلطانہ بلوچ
زرمبش مضمون

بلوچستان دنیا کے نقشے میں ایک تاریخی سرزمین رہی ہے۔ یہ وہ سرزمین ہے جس میں بسنے والی قوم ہر دور میں اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے خلاف بغاوت کرتی آئی ہے۔
جب ہم بلوچستان کی زمین سے گزرنے والی خوبصورت شاہراہوں کی بات کرتے ہیں تو یہ وہ شاہراہیں ہیں جو آج پورے بلوچ قوم کے درد، اذیت اور آنسوؤں کو اپنے اندر جذب کیے ہوئے ہیں۔ جو تمام بلوچ قوم کے دکھ، درد اور اس پر ہونے والے ظلم کو اپنے کناروں سے سمیٹ کر چلتی ہیں۔ جب یہ تمام سڑکیں ایک جگہ ملتی ہیں تو پورا بلوچ قوم اسی چوک پر یکجا ہو کر اس ظالم قابض کے ظلم و تشدد کے خلاف مزاحمت کی راہ اختیار کرتی ہے۔

ماما قدیر بلوچ کا کیمپ منان چوک کے قریب ایک شاہراہ کے کنارے پر ہے، جسے ماما نے اپنا خوبصورت سا مسکن بنایا ہوا ہے، جو ایک تاریخ رقم کیے ہوئے ہے۔ بلوچ قوم، چاہے وہ ضعیف‌العمر ہو، نوجوان ہو یا اس قوم کی شیر زال، اس نے ہر دور میں اپنی قومی بقا، قومی شناخت کے لیے مزاحمت اور جدوجہد کا راستہ اپنایا ہے۔

ریڈ زون شال، بلوچستان یونیورسٹی، کسٹم، مستونگ میں نواب ہوٹل، میجر چوک، قلات کا مین بازار، منگچر سے قلات کا مین چوک، سوراب کا مین روڈ اور آگے خضدار، کیچ کا شہید فدا چوک — یہ سب بلوچستان کی تاریخ میں ایک خوبصورت اور مزاحمت کی مکمل داستان رکھتے ہیں۔ قوم اس چوک کو شہید فدا بلوچ کے نام سے یاد کرتی ہے۔ پورے بلوچستان میں بہت سی ایسی شاہراہیں ہیں جو بلوچ قوم کو آج بھی یکجا کر رہی ہیں۔
گوادر وہ سرزمین رہی ہے جو آج بھی ان شاہراہوں پر اپنے دکھوں کی داستانوں کو مزاحمت کا رنگ دے کر اپنے گیت گاتی ہے۔

بلوچستان کی شاہراہیں محض بلوچ قوم کے لیے سڑکیں نہیں ہیں؛ یہ وہ سڑکیں ہیں جن سے گزرنے والوں کو بلوچ قوم کی جدوجہد، ان کی مزاحمت، ان کے آنسوؤں، ان کی سسکیوں کے نغمے ساز و زیمل کے ساتھ سنائی دیتے ہیں۔ کیونکہ جب سڑکیں ایک ساتھ ملتی ہیں تو ایک چوک قائم ہوتا ہے، اور بلوچ اسی چوک پر اکٹھے ہوتے ہیں، وہیں پوری قوم ایک صف میں کھڑی ہو کر اپنے اوپر ہونے والے ظلم کو بیان کرتی ہے۔

یہ چوک جہاں سڑکیں یکجا ہوتی ہیں، وہی مقام ہے جہاں بلوچ قوم متحد ہو کر ایک سوچ، ایک فکر، ایک فلسفہ کی بنیاد رکھتی ہے۔ وہ فلسفہ جو ایک کارواں کو جنم دیتا ہے، اور وہ کارواں مزاحمت کی شکل اختیار کر کے بلوچ قوم کی تحریک کو تقویت دیتا ہے، جو آگے چل کر قوم کی تحریک کو مضبوط کرتا ہے۔

سی پیک، بلوچستان کی وہ شاہراہ ہے جہاں سے بلوچستان کے بہت سے وسائل، معدنیات، سونا، کوئلہ، گیس اور ہر قیمتی چیز اس شاہراہ سے گزرتی ہے اور پنجاب و دیگر بیرونی ممالک تک جاتی ہے۔
لیکن ہم وہ بدقسمت قوم ہیں جو انہی شاہراہوں پر اپنے بلوچ قوم کے نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشوں کو کاندھا دے کر انصاف کی بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں — کہ ہمارے پھول جیسے بچوں کا گناہ کیا ہے؟

23 نومبر 2023 کو بالاچ مولابخش کو جبری لاپتہ کیا گیا اور عدالت میں پیش کیا گیا وہ عدالت جہاں بلوچ کو نہ سنا جاتا ہے، نہ ہی وہ بلوچ کے لیے ہے، نہ ہی وہ اس ظالم ریاست کا آئین۔
اس عدالت سے نکلنے کے بعد بالاچ مولابخش کی مسخ شدہ لاش اس کے خاندان کے حوالے کی گئی۔
وہی بالاچ جس کی لاش کو شہید فدا چوک پر لا کر اس کے خاندان نے اس ظلم کے خلاف اپنی مزاحمت کا آغاز کیا۔
یہ مزاحمت صرف بالاچ کے لیے نہیں تھی؛ یہ مزاحمت ہر اُس جبری لاپتہ فرد کے لیے تھی جو اس ریاست کے ٹارچر سیلوں میں قید ہے۔ یہ ہر اس ظلم کے خلاف تھی جسے بلوچ کئی دہائیوں سے سہہ رہا ہے۔

یہ مزاحمت اس ریاست کے ہر اُس تشدد کے خلاف ہے جو بلوچ قوم کے نوجوانوں کو جبری لاپتہ کرنے کے بعد، ان کے ہاتھ باندھ کر، انہیں شہید کر کے، مقابلے کا نام دے کر خود کو بری الذمہ قرار دیتی ہے۔
لیکن بلوچ قوم کا نوجوان کہاں سے لاپتہ ہوا ہے، کس نے کیا ہے، کس کی آنکھوں کے سامنے ہوا ہے یہ سب یہ ظالم ریاست چھپا سکتی ہے، لیکن ایک بلوچ ماں کیسے بھول سکتی ہے؟ ایک بلوچ بہن کیسے نہ پہچان سکے گی اُس بزدل دشمن کو جو رات کی تاریکی میں بھیس بدل کر اُس کے بیٹے یا بھائی کو مارتا، پیٹتا اور گھسیٹتا ہوا اس کے منہ پر کالا کپڑا ڈال کر لے جاتا ہے؟

یہ ظلم، یہ تشدد، بلوچ قوم پر رات کی تاریکی میں چادر و چاردیواری کے تقدس کو پامال کر کے ان ماؤں کے بیٹوں، ان معصوم بہنوں کے بھائیوں کو لے جاتا ہے۔
پھر یہی بلوچ مائیں، بلوچ بہنیں، بلوچستان کی شاہراہوں کا رخ کرتی ہیں۔ اپنے اوپر ہونے والے ظلم و بربریت کے خلاف اپنی مزاحمت کو تیز کرتی ہیں۔
بلوچ قوم کے احتجاج ان سڑکوں پر محض ایک چیخ یا پکار نہیں ہیں۔
اس مزاحمت میں ایک شعور چھپا ہوا ہے؛ اس مزاحمت میں قومی جدوجہد کا ایک خوبصورت اور انقلابی پیغام چھپا ہے۔

یہ سڑکیں ماما قدیر بلوچ کے کیمپ سے شروع ہو کر پورے بلوچستان کو مکران سے ڈی جی خان، گوادر سے سیستان تک یکجا کرتی ہیں، اور پورے بلوچ قوم کو متحد کرتی ہیں۔
جہاں بلوچ قوم ایک دوسرے پر ہونے والے ظلم کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ، ایک دوسرے کے درد کو بانٹتے ہوئے اپنی قومی شناخت، قومی بقا، قومی تحریک اور قومی جدوجہد کو انہی شاہراہوں سے سیکھ رہے ہوتے ہیں۔

ان ہی شاہراہوں پر ہماری بلوچ قوم کی بیٹیوں کے سروں سے ان کی چادریں چھینی گئیں، انہیں مارا گیا، گھسیٹتے ہوئے پولیس گاڑی میں ڈالا گیا۔
بلوچ قوم نے اس ریاست کے ظلم، بربریت اور تشدد کو بلوچستان کے ریگستانوں، میدانوں اور پہاڑوں کے دامن میں پایا ہے، جہاں بلوچ فرزندوں کو جبری لاپتہ کر کے ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینک دی جاتی ہیں۔
لیکن ان مظلوموں کا درد، آہیں اور سسکیاں تمہیں بلوچستان کی سڑکوں پر سنائی دیں گی۔
بلوچ نے کبھی اس ظلم اور تشدد کے سامنے اپنا سر نہیں جھکایا۔
یہ شاہراہیں گواہ رہیں گی بلوچ قوم کی مزاحمت، قومی جدوجہد اور قومی تحریک کی۔
بلوچستان کی ہر شاہراہ بلوچ پر ہونے والے ظلم کے خلاف مزاحمت کو بیان کرتی ہے۔
شہید بانک کریمہ بلوچ سے لے کر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، سمی دین بلوچ، سائرہ بلوچ، صبیحہ بلوچ اور گل زادی بلوچ — ان تمام جہد کاروں کی پرورش ان سڑکوں پر ہوئی ہے۔
جنہوں نے اپنی قوم پر ہونے والے ظلم اور ریاستی تشدد کو بیان کرنے کی ہمت اور طاقت رکھی ہے۔

آج سیما بلوچ کی چھوٹی سی بیٹی شارل، جو صحیح طور پر بول نہیں سکتی، وہ بھی اسی مزاحمت کو، اپنی قومی جدوجہد اور ریاست کے ظلم کو ان شاہراہوں سے سیکھ رہی ہے اور اپنے توتلے الفاظ میں اس جبر کے خلاف مزاحمتی نعرے لگا رہی ہے۔
بلوچ قوم کے عظیم رہنما ہمیشہ اس ریاست کے تشدد کو بلوچستان کی سڑکوں پر آ کر اپنی قوم کو آگاہی دیتے رہے ہیں۔
بلوچ کے صرف دن نہیں، ان کی راتیں بھی کئی کئی مہینوں تک ان سڑکوں پر گزری ہیں۔ بھوکے، پیاسے، ننگے پاؤں، اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے خلاف اپنی آواز بلند کرتے رہے ہیں۔
ہمارے پڑھے لکھے نوجوانوں نے اپنا قومی فکر، قومی نظریہ کسی یونیورسٹی سے نہیں لیا ہے۔
ان بلوچ نوجوانوں نے اپنی کتابوں کے اسٹال کسی شاہراہ کے کنارے لگائے ہیں۔ انہی سڑکوں کے کناروں پر بیٹھ کر اپنی قومی شناخت پڑھی ہے، اپنی قومی تحریک اور قومی جہد کو یہی سے سیکھا ہے۔
انہی شاہراہوں سے آج بلوچ قوم کی تحریک کی انقلابی صدائیں گونج رہی ہیں۔
بلوچ قوم نے اپنی قومی ذمہ داریوں کا عہد یہیں سے کیا ہے۔
ان شاہراہوں سے اٹھنے والی تحریک بلوچ قوم کے نوجوانوں میں پختگی پیدا کر چکی ہے۔
وہ شعور کی بنیاد پر اپنا قومی سوال اٹھا رہے ہیں۔
آج بلوچ نوجوان جذباتی نہیں ہیں۔
وہ اپنی قوم کو پڑھنے، سمجھنے اور محسوس کرنے کے بعد اپنی قومی ذمہ داریوں کی طرف آگے بڑھ رہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

چمن: لیویز اہلکاروں پر فائرنگ سے ایک اہلکار ہلاک، دو زخمی

جمعرات جون 19 , 2025
بلوچستان کے علاقے چمن میں لیول کراسنگ کے قریب لیویز فورس پر مسلح افراد نے فائرنگ جس کے نتیجے میں ایک اہلکار ہلاک جبکہ دو اہلکار شدید زخمی ہو گئے۔ ذرائع کے مطابق لیویز اہلکار روغانی روڈ پر مشکوک افراد کی چیکنگ میں مصروف تھے کہ اس دوران موٹر سائیکل […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ