
بارکھان میں گزشتہ ہفتے پاکستانی فوج اور سرکاری حمایت یافتہ مسلح گروہ (ڈیتھ اسکواڈ) کے کارندوں کے ساتھ شدید جھڑپ میں جاں بحق بلوچ سرمچاروں کی لاشوں کو لواحقین کے حوالے نہ کرنے کے خلاف، لواحقین نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ مورخہ 6 جون 2025 کو ہمیں میڈیا کے توسط سے پتہ چلا کہ سیکیورٹی اداروں نے اپنے جاری کردہ ایک بیان میں بلوچستان کے مختلف علاقوں میں سیکیورٹی آپریشن کرنے کا اعلان کیا تھا، جن میں بارکھان، بولان، دشت، مستونگ اور اسپلنجی کے علاقے شامل ہیں۔ ان بیانات کے مطابق اس دن سیکیورٹی اداروں کے ساتھ مسلح جھڑپ میں 4 افراد مارے گئے تھے، جبکہ 12، اسپلنجی میں تین افراد، بولان میں مارے گئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ یہ مذکورہ افراد کس طرح اور کس وجہ سے مارے گئے، اس کا ہمیں لواحقین کو کوئی علم نہیں اور یہ سب ہمیں میڈیا کے توسط سے پتہ چلا۔ لہٰذا مورخہ 7 جون 2025 کو ہمیں پتہ چلا کہ لاشیں ڈسٹرکٹ ہسپتال بارکھان میں رکھی گئی ہیں۔ تو ہم اس روز ورثاء کی حیثیت سے بارکھان چلے گئے تاکہ نہ صرف لاشوں کی شناخت کر سکیں، بلکہ شناخت ہونے پر لاشوں کو لواحقین اپنے ساتھ لے جا کر ان کی تدفین اور جنازے کے حوالے سے مذہبی رسومات ادا کر سکیں۔
پریس کانفرنس کرتے ہوئے لواحقین نے کہا کہ بارکھان پہنچنے پر سول ہسپتال انتظامیہ نے ہمیں بتایا کہ اس طرح کی 4 لاشیں یہاں ضرور لائی گئی تھیں، مگر سرد خانے کی سہولت کی عدم دستیابی کے باعث انہیں سنڈیمن سول ہسپتال کے سرد خانے میں شفٹ کیا گیا ہے۔ جس کے بعد ہم لواحقین دوبارہ کوئٹہ آئے، ہمارے ساتھ باقی لاشوں کے لواحقین موجود تھے۔ سنڈیمن ہسپتال انتظامیہ سے ملنے کے بعد انہوں نے لاشوں کو ہسپتال کے سرد خانے میں لانے کا اعتراف کرتے ہوئے ہمیں ہمارے رشتے داروں کی لاشیں بھی دکھائیں، جن کی تصاویر ہمارے پاس موجود ہیں۔ ہسپتال انتظامیہ نے ہمیں مزید کہا کہ جب تک ہمیں حکومتی یا عدالت کی طرف سے کوئی حکم نامہ نہیں آتا، اس وقت تک وہ یہ لاشیں ہمارے حوالے نہیں کر سکتے۔
انہوں نے کہا کہ مورخہ 11 جون 2025 کو ہم نے کوئٹہ کے مجسٹریٹ نمبر 12 کے سامنے ایک درخواست دی کہ عدالتی حکم کے ذریعے ہماری لاشیں ہمارے حوالے کر دی جائیں، جس پر معزز جج نے ہماری درخواست پر رپورٹ لکھتے ہوئے CTD کوئٹہ سے جواب طلب کیا۔ اسی روز CTD کوئٹہ نے عدالت کے سامنے 2 متضاد تحریری جوابات جمع کیے۔ اول جواب میں انہوں نے یہ بات مانی کہ انہوں نے یہ لاشیں اپنی تحویل میں لے کر سنڈیمن سول ہسپتال کے سرد خانے میں رکھی ہیں، اور عدالتی یا حکومتی احکامات پر وہ لاشیں لواحقین کو دینے پر تیار ہیں۔ پھر اسی روز انہوں نے عدالت میں ایک اور رپورٹ جمع کی، جس میں انہوں نے موقف بدلتے ہوئے کہا کہ وہ لاشیں ضرور لائے ہیں، مگر یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ وہ لاشیں کس کی تھیں۔
لواحقین کا کہنا تھا کہ لہٰذا نامعلوم سمجھ کر انہیں ایدھی سینٹر کے حوالے کر دیا گیا، جو انہوں نے ایدھی قبرستان دشت مستونگ میں دفن کر دی ہیں۔ جس کے بعد عدالت نے ہمیں ایک آرڈر کے ذریعے بتایا کہ انتظامی حساب سے یہ کیس مجسٹریٹ نمبر 10 کا ہے۔ 12 تاریخ کو ہم نے مجسٹریٹ 10 کے سامنے ایک اور درخواست دائر کی، عدالت نے دوبارہ فریقین سے رپورٹ طلب کی، جس کے جواب میں سول لائن تھانہ کے ذریعے ہسپتال انتظامیہ نے موقف دیتے ہوئے اپنا جواب جمع کیا کہ وہ ہسپتال کے سرد خانے میں 2 سے زیادہ لاشیں نہیں رکھ سکتے اور انہیں دفنا دیا جاتا ہے۔
ان تمام رپورٹس اور بیانات کے بعد، مجسٹریٹ 10 نے مورخہ 18 جون 2025 کو ایک اور حکم نامہ جاری کرتے ہوئے ہمیں یہ کہہ کر دوبارہ عدالت نمبر 12 یا پھر دشت کے مجسٹریٹ کے پاس جانے کو کہا کہ یہ کیس ان کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔
پریس کانفرنس میں مزید کہا گیا کہ ہم نے ملک کے آئین اور قانون کے مطابق عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائے، مگر کوئی بھی عدالت ہمیں سننے اور انصاف کرنے کو تیار نہیں۔ لہٰذا اس سب کے باوجود ہم نے آج بلوچستان کی عدالتِ عالیہ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے کہ آئین، قانون اور اسلامی قوانین کے تحت لاشیں ہمارے حوالے کی جائیں، تاکہ ہم اپنی رسومات ادا کر سکیں۔
پریس کانفرنس کے آخر میں کہا گیا کہ ہم لواحقین اپنا دکھ آپ لوگوں کی بھی عدالت میں لائے ہیں کہ ہمارا ساتھ دیں اور ہمارا سہارا بن کر عدالتِ عالیہ اور انسانی حقوق کے اداروں تک ہماری آواز پہنچائیں، تاکہ ہمیں انصاف مل سکے۔