
تحریر: بالوو بلوچ
زرمبش مضمون
عالمی تناؤ، علاقائی اثرات
ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اسرائیل پس منظر میں جنگی تیاریوں میں مصروف ہے، اور مشرقِ وسطیٰ ایک ممکنہ تصادم کے دہانے پر کھڑا ہے۔
ایسے میں پاکستان کے جنوب مغرب میں واقع بلوچستان، جو بظاہر اس کشیدگی سے دور دکھائی دیتا ہے، درحقیقت عالمی سیاست کا اگلا متاثرہ محاذ بن سکتا ہے۔
یہ صرف ایک جغرافیائی خطہ نہیں یہ وہ زمین ہے جہاں اکثر جنگیں باہر لڑی جاتیں، مگر ان کے اثرات اندر تک تباہی لاتے ہیں۔
بلوچستان: تاریخ کے آئینے میں ایک بار پھر نرغے میں؟
بلوچستان کی تاریخ گواہ ہے کہ ہر بڑی عالمی لڑائی کے دوران یہاں کے عوام، زمین اور تحریک کو استعمال کیا گیا کبھی نظر انداز، کبھی بدنام، اور اکثر کچلا گیا۔
ماضی قریب میں پاکستان نے افغانستان جنگ کے دوران امریکہ کو اڈے فراہم کیے، اور بدلے میں بلوچ مزاحمتی تحریکوں کو عالمی سطح پر دہشتگرد قرار دلوانے میں کامیابی حاصل کی۔
یہی وہ وقت تھا جب کئی بلوچ گروہوں کی آواز دب گئی، اور ریاستی آپریشنز کو کھلی چھوٹ مل گئی۔
آج تاریخ ایک بار پھر خود کو دہرا رہی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کردار بدلے ہیں، مکالمہ وہی ہے۔
جنگ کے پیچھے کی سچائی
بین الاقوامی تعلقات میں ایک اصول بالکل واضح ہے:
ریاستیں اصولوں سے نہیں، مفادات سے فیصلے کرتی ہیں۔
اگر پاکستان ایران کے خلاف کسی عالمی یا علاقائی اتحاد کا حصہ بنتا ہے، تو اس کے بدلے میں اسے کچھ نہ کچھ حاصل کرنا ہوگا
اور یہ "کچھ” بلوچستان پر ریاستی بیانیے کو آگے بڑھانے کی شکل میں سامنے آ سکتا ہے۔
ممکنہ ریاستی اقدامات:
بلوچ تحریک کو ایران سے جوڑ کر پراکسی قرار دینا
عالمی میڈیا میں بلوچ قیادت کو بدنام کرنا
اور تحریک کو علاقائی امن کے لیے خطرہ بنا کر پیش کرنا
ایسا بیانیہ عالمی طاقتوں کو "قابل قبول” لگ سکتا ہے خصوصاً اگر ان کے مفادات اس میں ہوں۔
جو آج ہو رہا ہے، کل بھی ہو چکا ہے
الجزائر میں فرانسیسی سامراج نے تحریکِ آزادی کو دہشتگردی کہا آج وہی لوگ قومی ہیرو مانے جاتے ہیں۔
کرد تحریک کو ریاستوں نے کئی بار مٹانے کی کوشش کی مگر وہ آج بھی زندہ ہے۔
یمن میں قبائل کو ایران سے جوڑ کر ختم کرنے کی کوشش کی گئی — مگر شناخت کو مٹانا ممکن نہیں۔
بلوچ تحریک بھی اسی عالمی بیانیے کی زد میں آ سکتی ہے اگر ہم نے بروقت تیاری نہ کی۔
تین بنیادی سچائیاں جو بلوچ عوام کو سمجھنی ہوں گی
- جنگ ہو یا نہ ہو، بیانیہ ضرور بدلا جائے گا
- ریاست خود جو نہیں کر سکی، اب وہ کام عالمی طاقتوں سے کروائے گی
- اگر بلوچ تحریک نے خود کو بیانیے کی جنگ کے لیے منظم نہ کیا، تو الفاظ بندوق سے زیادہ نقصان دیں گے
بلوچ حکمتِ عملی پانچ قدم جو اب اٹھانے ہوں گے
- ڈیجیٹل محاذ پر تیاری
سوشل میڈیا اب صرف اظہار کا ذریعہ نہیں رہا یہ بیانیہ بنانے کا پلیٹ فارم ہے۔
ہر بلوچ نوجوان کو ریاستی پروپیگنڈے کا توڑ سیکھنا ہوگا۔
- بین الاقوامی زبان میں مؤقف
"ہم مظلوم ہیں” کہنا کافی نہیں
ثبوت، تاریخی تناظر، اخلاقی دلیل اور عالمی سیاسی اصولوں کے مطابق بات کرنا ضروری ہے۔
- عالمی اداروں سے تعلق
انسانی حقوق کی تنظیمیں اور میڈیا تب ہی متحرک ہوتے ہیں جب انہیں مستقل مواد، دستاویزات اور رابطے دیے جائیں۔
- کسی بھی علاقائی ریاست سے فاصلہ
تحریک کو "پراکسی” قرار دینے سے روکنے کا واحد طریقہ عملی خودمختاری ہے۔
- علم کو بطور ہتھیار استعمال کریں
بندوق وقتی اثر ڈالتی ہے، مگر نیرٹیو (Narrative) دائمی طاقت بناتا ہے۔
دنیا ان سے ڈرتی ہے جو لفظوں سے سچ بولتے ہیں۔
مزاحمت اب دلیل سے ہو گی
بلوچستان وہ سرزمین ہے جہاں اکثر آفت باہر سے آتی ہے، مگر مزاحمت اندر سے جنم لیتی ہے۔
وقت آ گیا ہے کہ ہم ایک بار پھر اپنی شناخت، تحریک اور حق کے لیے کھڑے ہوں مگر اس بار صرف جذبات سے نہیں، بلکہ علم، حکمت، اور دلیل کے ساتھ۔
یہ ایک نیا دور ہے جہاں جنگیں میدانوں میں نہیں، بیانیوں میں لڑی جاتی ہیں۔
اور جو اپنی کہانی خود نہ سنائے، وہ دوسروں کی کہانی میں مجرم بنا دیا جاتا ہے۔