
بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے اپنی جاری کردہ بیان کہا ہے کہ نو آبادکار بدستور متعدد ہربوں سے نوآبادیاتی مزاحمت کو کچلنے کی کوشش کرتا چلا جارہا ہے جس سے یہ واضع ہوتا ہے کہ نوآبادکار ریاست بلوچ قومی مسائل کے حل کی جانب نہیں بلکہ مزید پیچیدگیوں کی جانب بڑھ رہی ہے جسکی واضع مثال ایک پرامن سیاسی کارکن کی سیاسی عمل کا گھیراؤ تنگ کرنا ہے، بی ایس او مستونگ زون کے ترجمان اورنگزیب بلوچ جمہوری سیاسی عمل سے وابستہ سیاسی کارکن ہیں، ان کی جبری گمشدگی ریاستی بربریت کا واضح عکس ہے۔
ترجمان نے کہا کہ ریاستی جبر و بربریت کے نتیجے میں جنم لینی والی عوامی تحاریک دھائیوں محیط وحشتوں کے نتیجے میں بیزاری کا اظہار ہیں، چونکہ پاکستان نے روز اول سے ہی مغربی سامراج کے آلہ کار کے طور پر اپنا وجود بطورِ سکیورٹی اسٹیٹ کے قائم رکھی ہے اس صورتحال کے پیش نظر پاکستانی مقتدر قوتیں ان بحرانات پر قابو پانے کے لیے زیادہ سے زیادہ طاقت کے استعمال کو درست حل کے طور پر دیکھ رہی ہیں، روزانہ کی بنیاد پر درجنوں مسخ شدہ لاشیں پھینکنے اور متعدد سیاسی کارکنان کی جبری گمشدگیاں ریاستی بوکھلاہٹ کی واضح عکاسی کرتی ہیں۔
ترجمان نے مزید کہا کہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اپنے ساتھی رہنما اورنگزیب بلوچ جنہیں یکم جون رات 2 بجے کے قریب ان گھر مستونگ کلی عزیز آباد سے سکیورٹی فورسز نے جبری طور پر لاپتہ کیا ہے کی نا صرف مذمت کرتی ہے بلکہ مقتدر قوتوں سے اورنگزیب بلوچ سمیت تمام لاپتہ افراد کی باحفاظت بازیابی کا مطالبہ کرتی ہے، نیز ساتھی رہنما اورنگزیب بلوچ کو با حفاظت بازیاب نہ کیا گیا تو تنظیم ہر جمہوری چارہ جوئیوں کا حق محفوظ رکھتی ہے۔