یومِ آسروخ:،”بارود میں دفن فطرت کی چیخ "

تحریر: رامین بلوچ زرمبش مضمون

28 مئی بلوچ قومی تاریخ میں محض کیلنڈر کا عدد نہیں ، بلکہ ایک ایسا قومی زخم ہے جو ہر سال "یومِ آسروخ” کے طور پر بلوچ سرزمین، قوم، اور شعور پر مسلط کیے گئے ایٹمی مظالم کی تلخ یاد دہانی بن کر ابھرتا ہے۔ 1998ء میں چاغی کے پہاڑوں میں پاکستانی ریاست نے بلوچ قوم کی مرضی و منشاء کے خلاف زبردستی ایٹمی تجربات کر کے نہ صرف راسکوہ کے کوکھ میں بارود کا زہر بھر دیا، بلکہ ایک مقبوضہ اور جنگ زدہ قوم کی حیات، ثقافت، فطرت اور مستقبل کو زہریلا کر دیا۔ یہ ایک مجرمانہ اور نوآبادیاتی اقدام تھا۔

جب بلوچ گلزمین کے پہاڑی سلسلے راسکوہ میں ایٹمی تجربہ کیا گیا، وہ دن بلوچ تاریخ کے سیاہ ترین ابواب میں سے ایک بن گیا۔ مگر پاکستانی ریاست، بالخصوص پنجابی اسٹیبلشمنٹ، اسے "یومِ تکبیر” کے طور پر منا کر اپنے تکبر، غرور، اور فاشزم کا جشن مناتی ہے—بغیر کسی شرمندگی کے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان محض ایک نوآبادیاتی ریاست نہیں، بلکہ اس کے اندر فاشزم اور ہٹلر ازم کی تمام مکروہ خصوصیات بدرجۂ اتم موجود ہیں۔

بلوچ مملکت کے جنوب مغرب میں واقع راسکوہ کا پہاڑی سلسلہ ہزاروں سالوں سے بلوچ سرزمین کی فطری اور تہذیبی وحدت کا جزوِ لاینفک رہا ہے۔ یہ خطہ نہ صرف جغرافیائی لحاظ سے اہم ہے بلکہ یہاں کی فطرت، آب و ہوا، آسمان اور ان کے دامن میں بسنے والی بلوچ آبادی ایک طویل قدرتی ہم آہنگی کے ساتھ زندگی گزارتی آئی ہے۔ راسکوہ محض ایک خطۂ زمین نہیں، بلکہ بلوچ اجتماعی حافظے میں ایک قدرتی اور متبرک مقام ہے.
ایک ایسا مقام جہاں انسان، مٹی، اور آسمان کے درمیان ایک فطری، روحانی اور تہذیبی رشتہ ہزاروں برسوں سے قائم تھا۔

مگر 28 مئی 1998ء کو اس سرزمین کی فطرت، تاریخ، اور زندگی کو بارود کی نذر کر دیا گیا۔ یہ دن پاکستانی ریاست کے لیے اگرچہ "قومی فخر” اور "وقار” کی علامت کے طور پر یاد کیا جاتا ہے، مگر بلوچ عوام کے لیے یہ دن ایک عظیم المیے، ناانصافی، اور نوآبادیاتی تجربے کی تاریخ میں ایک خونی باب ہے۔

راسکوہ کے سینے میں کیا گیا ایٹمی تجربہ محض ایک سائنسی عمل نہ تھا، بلکہ یہ نوآبادیاتی ریاستی جبر کی ایک انتہائی سفاک شکل تھی—ایسی واردات جس میں فطرت، انسان، اور تہذیب کو دائمی زہریلے سانحات کے سپرد کر دیا گیا۔

یہاں بسنے والی بلوچ آبادی، اگرچہ 1948ء کے بعد سے غلامانہ نوآبادیاتی زندگی کا نشانہ بنی ہوئی تھی، لیکن 1998ء کے ایٹمی تجربات سے قبل تک وہ کسی نہ کسی طرح اپنی فطرت اور سرزمین کے ساتھ ہم آہنگ زندگی گزار رہی تھی۔ مگر اس دن کے بعد ان کی زندگی اور تقدیر میں بارود، زہر، اور بیماریوں کا وہ سلسلہ شامل ہو گیا جو آج بھی جاری ہے۔

ایٹمی تجربات کے فوراً بعد نہ صرف فضاء میں تابکار مواد پھیل گیا بلکہ زمین، پانی اور ہوا میں بھی مہلک تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ مقامی افراد میں جلدی بیماریوں، پھیپھڑوں کے عارضوں، پیدائشی معذوریوں اور سرطان جیسے مہلک امراض کی شرح میں تشویشناک اضافہ دیکھنے میں آیا۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ بین الاقوامی ایٹمی اداروں نے آج تک نہ کوئی آزاد تحقیق کی، نہ ہی کسی طبی امدادی مہم کا آغاز کیا۔ راسکوہ اور اس کے گردونواح کے باسی آہستہ آہستہ ایک زندہ قبرستان میں تبدیل ہوتے گئے، جہاں انسانی چیخیں بھی عالمی بیانیے کی گونگی دیواروں کو چیرنے سے قاصر رہیں۔

پاکستان نے ان تجربات کو "یومِ تکبیر” کا نام دیا، جو اس امر کی علامت ہے کہ قابض ریاست نے ایک نام نہاد عسکری فخر کو انسانی حیات پر ترجیح دے کر نہ صرف پہلے سے جاری ریاستی جبر کو مزید زہریلا بنا دیا بلکہ انسانی وقار، بنیادی حقوق اور فطری ماحول کی صریح پامالی بھی کی۔

سوال یہ ہے کہ اگر ریاستی طاقت اور نام نہاد عسکری عظمت کا اظہار کسی قوم، زمین یا فطرت کی قیمت پر ہو، تو کیا اسے واقعی فخر کا دن کہا جا سکتا ہے؟ کیا یہ محض ایک ایٹمی دھماکہ تھا، یا ایک سست رفتار زہر کی صورت میں بلوچ نسل کشی کا آغاز؟

پاکستانی میڈیا منڈی نے ہمیشہ راسکوہ کے دھماکوں کو ایک سائنسی کامیابی اور "عزت کے دن” کے طور پر پیش کیا، مگر کبھی کسی نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ وہاں کے انسانوں، چرند پرند، درختوں، ہواؤں اور پانی پر کیا بیت گئی؟ بلوچ قوم دوست جماعتوں اور باشعور لکھاریوں نے بارہا اس انسانی المیے کو اجاگر کرنے کی کوشش کی، مگر ان کی آوازیں ہمیشہ دبا دی گئیں۔ ان کے بیانیے اور قلم کو "پاکستان دشمنی” کے الزامات کی نذر کر کے بلوچ نکتہ نظر کو منظم طریقے سے نظرانداز کیا گیا۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ 28 مئی 1998 کو راسکوہ کو محض ایک تجربہ گاہ نہیں، بلکہ ایک زندہ قبرستان میں تبدیل کر دیا گیا۔ پنجابی ریاست نے بجائے پنجاب کے، اس مقبوضہ خطے کو اپنی ایٹمی قوت کی علامت کے طور پر چُن کر، بلوچ نسل کش پالیسیوں کو عملی شکل دی۔ یہ تجربات چاغی کی وادیوں میں ایک ایسی تابکاری لہر لے کر آئے جو آج بھی وہاں کے باسیوں کی سانسوں میں زہر بن کر گھل رہی ہے۔

بے وقت مرنے والے انسان، معذور بچوں کی پیدائش، ناقابلِ کاشت زمینیں، اور پھیلتا ہوا سرطان — یہ سب اس "نام نہاد قومی فخر” کی قیمت ہیں، جسے پنجابی ریاست نے "ایمانی جرأت” کا نام دے کر اپنے فاشزم کے شیطانی چہرے کو چھپانے کی کوشش کی۔

پھر دیکھیے کہ اس جنونی ریاست نے ایٹمی تجربات کو ’’یومِ تکبیر‘‘ کے نام سے ایک مذہبی اور عسکری بیانیے میں ملفوف کر کے پیش کیا، تاکہ اسے اسلامیت سے جوڑ کر اپنی عسکری قوت کی توثیق کی جا سکے۔ یہ عمل فرانز فینن کی نوآبادیاتی تھیوری کے عین مطابق ہے، جس کے مطابق نوآبادیاتی قوتیں صرف زمین یا وسائل پر قبضہ نہیں کرتیں، بلکہ مقبوضہ اقوام کی یادداشت، شناخت اور شعور کو مسخ کر کے انہیں اپنی حاکمیت کے لیے موزوں رعایا میں تبدیل کرتی ہیں۔

پاکستان کی ریاستی شناخت اُس نام نہاد "دو قومی نظریے” پر استوار ہے جس کا نہ کوئی منطقی جواز ہے، نہ جدلیاتی بنیاد، اور نہ ہی کوئی تاریخی تسلسل۔ یہ نظریہ محض ایک مذہبی عقیدے کی بنیاد پر گھڑا گیا، جسے ریاست نے اپنی شناخت اور وجود کا مرکزی ستون بنا لیا۔ یہی وہ نظریاتی فریب ہے جس نے ریاست کو آغاز ہی سے ایک مصنوعی مذہبی شناخت کے حصار میں جکڑ دیا، اور وقت گزرنے کے ساتھ اس شناخت کو عسکری و مذہبی شدت پسندی کے ذریعے مزید تقویت دی گئی۔

ایٹمی دھماکوں کے وقت ریاست نے اس مصنوعی مذہبی شناخت کو اور زیادہ شدت سے اجاگر کیا۔ ان دھماکوں کو "یومِ تکبیر” کا نام دینا دراصل اسلامی جذبے کو عسکری طاقت کے ساتھ جوڑنے کی کوشش تھی۔ یہ اصطلاح بذاتِ خود اُس مذہبی عسکریت پسندی کی علامت ہے جسے پاکستانی ریاست نے ہمیشہ جہادی بیانیے کو جواز دینے کے لیے استعمال کیا ہے۔ پنجابی ریاست کی جانب سے ان ایٹمی تجربات کو "اسلامی بم” قرار دینے کا رجحان اسی فکری ذہنیت کا مظہر ہے—گویا مذہب کے نام پر کیمیائی تباہی بھی جائز ہو سکتی ہے۔

"تکبیر” جیسا مقدس مذہبی شعار، جو بندگی، عاجزی اور خدا کی کبریائی کا اظہار ہے، جب ایٹمی بم جیسے مہلک ہتھیار سے جوڑا جاتا ہے تو یہ نہ صرف اسلامی اصولوں سے متصادم ہو جاتا ہے بلکہ یہ عقیدے کو عسکریت کی غلامی میں تبدیل کرنے کا ایک خطرناک ماڈل بھی پیش کرتا ہے۔ ریاستی بیانیے میں عقیدے اور عسکری طاقت کا یہ امتزاج درحقیقت مذہبی فاشزم کی ایک صورت ہے، جو ریاستی پنجابی عسکری اشرافیہ کے ذہن میں گہرائی سے پیوست ہے۔

یہ وہی فکری فریب ہے جس نے لوگوں کو مذہب کے نام پر عسکریت کے تابع کر دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا کسی مذہب کی بنیاد پر کیمیائی تباہی کو جائز قرار دیا جا سکتا ہے؟ کیا "امت” کے دفاع کے نام پر لاکھوں انسانوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنا کوئی دینی خدمت ہے یا سامراجی جنون؟

پاکستانی ریاست نے ہمیشہ مذہب کو نہ صرف اپنے وجود کے جواز کے طور پر استعمال کیا، بلکہ داخلی جبر اور بیرونی جارحیت کے لیے بھی۔ افغان جہاد ہو یا کشمیر، ریاستی ادارے مذہب کے نام پر عسکریت کو نہ صرف جائز قرار دیتے آئے ہیں، بلکہ اسے "مقدس فریضہ” بنا کر پیش کیا گیا۔

یہی مذہبی عسکری بیانیہ خطے میں مذہبی شدت پسندی کو فروغ دینے کا اصل محرک ہے، اور لشکرِ طیبہ، داعش اور دیگر انتہا پسند تنظیموں کی افزائش کا ذریعہ بھی۔ جب ایک ریاست اپنے نوآبادیاتی جنگی جرائم کو مذہبی تقدیس عطا کرے، تو ہر انتہا پسند تنظیم کو یہی پیغام ملتا ہے کہ وہ "مقدس جنگ” لڑ رہی ہے۔

اس ریاستی نفسیات کو سمجھنے کے لیے پنجابی عسکری اسٹیبلشمنٹ کا کردار جاننا ضروری ہے، جس نے ہمیشہ مذہب اور فوج کو ایک وحدت کے طور پر پیش کیا۔ ’’اسلام خطرے میں ہے‘‘ کا نعرہ اپنے فوجی بجٹ میں اضافے، قومی آزادیوں کو کچلنے اور مظلوم اقوام کی مزاحمتی تحریکوں کو کچلنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ بلوچستان، سندھ، اور خیبر پختونخوا کی قومی آزادی کی تحریکوں کو اسی غیر فطری مذہبی بیانیے کے ذریعے سبوتاژ کرنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔

یومِ تکبیر کو کسی پنجابی فتح یا قومی کامیابی کا دن قرار دینا تاریخی اور اخلاقی طور پر گمراہ کن ہے۔ درحقیقت، یہ دن پاکستانی ریاست کی نفسیاتی جنونیت اور اخلاقی شکست کی علامت ہے۔ یہ اس امر کا اظہار ہے کہ ریاستِ پاکستان اپنے وجود کو قائم رکھنے کے لیے مذہب اور عسکریت کے امتزاج کو بیانیہ بنا کر، اپنی "شہ رگ” پر لگی چھری سے بچنے کی ناکام کوشش کر رہی ہے۔

راسکوہ کی تابکار فضا کو اگر ہیروشیما یا ناگاساکی سے تشبیہ دی جائے تو یہ ہرگز مبالغہ نہیں ہوگا۔ فرق کچھ نہیں وہاں بھی یہ بیرونی حملہ آوروں کی کارستانی تھی ، اور یہاں بھی غیر ملکی حملہ آور ایک مقبوضہ خطے”بلوچستان”میں ایٹمی دھماکہ کر کے سامراجی جارحیت کا مظاہرہ کیا۔ اس عمل میں نہ صرف انسانی زندگی بلکہ فطرت اور زمین تک کو قربانی بنا دیا گیا۔

المیہ یہ ہے کہ اٹھائیس سال گزرنے کے باوجود بلوچ قوم کو اب تک یہ جاننے کا بنیادی حق نہیں دیا گیا کہ ان کی سرزمین پر درحقیقت کیا ہوا، کس شدت کا ہوا، اور اس کے کیا ماحولیاتی اور طبی اثرات مرتب ہوئے۔ نہ تو انہیں کسی قسم کی ماحولیاتی رپورٹ فراہم کی گئی، نہ ہی طبی سہولیات مہیا کی گئیں۔ اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر اور بین الاقوامی ماحولیاتی قوانین کے مطابق یہ اقدام ماحولیاتی نسل کشی (Ecocide) کے زمرے میں آتا ہے۔ عالمی اداروں کو چاہیے کہ وہ اس معاملے کی غیر جانبدار تحقیقات کے لیے ایک آزاد کمیشن قائم کریں۔

بین الاقوامی سائنسی جرائد، جیسے The Lancet، ScienceDirect اور Human Rights Watch Reports، اس امر کی نشاندہی کر چکے ہیں کہ زیرِ زمین ایٹمی دھماکے دہائیوں تک مقامی آبادیوں میں کینسر، بانجھ پن، معذوری، جلدی امراض اور جینیاتی بگاڑ کا سبب بنتے ہیں۔ لیکن بلوچ سرزمین پر آج تک کسی بین الاقوامی ادارے کو، بلوچ قوم کے بارہا مطالبات کے باوجود، نہ آزاد تحقیق کی اجازت دی گئی اور نہ میڈیکل مانیٹرنگ کی۔

اس کے برعکس، ریاستِ پاکستان نے راسکوہ کے گرد بسنے والے انسانوں کو محض "قربانی” کا حصہ سمجھ کر ان کی زندگیاں تابکاری کے حوالے کر دیں۔ راسکوہ کی اس خاک پر، جہاں ایٹمی بارود دفن کیا گیا، آج ایک نئی بلوچ نسل اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہی ہے۔ بطور لکھنے والے، ہم اس ایٹمی تجربے کو صرف ماحولیاتی جرم نہیں، بلکہ ایک وجودی جارحیت (Existential Aggression) تصور کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ مجرمانہ عمل دراصل یہ پیغام دیتا ہے کہ ہماری زمین، ہمارے خواب، ہماری قوم—سب ریاست کے عسکری تجربات کے لیے قابل قربانی ہیں۔

یہ جنگ اب فطرت اور بارود کے درمیان لڑی جانے والی ایک ایسی جنگ بن چکی ہے، جو قومی آزادی کی جغرافیائی، فکری اور اخلاقی بنیادوں پر استوار ہے—بلوچ اور پنجابی ریاست کے درمیان، مقبوضہ اور قابض کے مابین۔

یومِ آسروخ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ریاستی جنگی جارحیت صرف ہتھیاروں اور گولیوں سے نہیں لڑی جاتی، بلکہ "سلو پوائزننگ” یعنی خاموش زہریلے تباہ کن تجربات کے ذریعے بھی جاری ہے۔ راسکوہ کے پہاڑ، معذور پیدا ہونے والے بچے، بنجر ہوتی زمین، اور وہ انسان جو بظاہر طبعی موت مرتے ہیں—ان سب کی روحیں آج بھی ایٹمی دھماکوں کی گونج سے لرزتی ہیں۔

راسکوہ کے تجربات صرف بلوچ قوم پر ایک سائنسی ظلم کے طور پر یاد نہیں رکھے جائیں گے، بلکہ یہ جنوبی ایشیا کی ایٹمی سیاست کے غیر انسانی چہرے کو بھی ہمیشہ کے لیے بے نقاب کرتے ہیں۔ یہ دھماکے محض فوجی کامیابی نہیں، بلکہ بلوچ نسل کشی کے ایک منظم منصوبے کا حصہ تھے—ایسا منصوبہ جس میں بلوچستان کو "عسکری فخر” کی بھینٹ چڑھایا گیا۔

اب بھی وقت ہے کہ بین الاقوامی ادارے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اپنی مصالحانہ خاموشی کو توڑیں۔ راسکوہ میں ہونے والے ایٹمی تجربات اور تابکاری اثرات پر ایک مکمل، آزاد، غیر جانب دار اور شفاف تحقیق کی جائے۔ متاثرہ علاقوں کی طبی، ماحولیاتی، اور سماجی بحالی کے لیے عملی اور جامع اقدامات کیے جائیں۔ اور سب سے اہم بات، پاکستانی ریاست کو عالمی سطح پر جواب دہ بنایا جائے، تاکہ بلوچ بیانیے کی سچائی تسلیم کی جا سکے۔

بلوچوں کی سرزمین کو میزائلوں کے تجربات کے لیے سونمیانی، اور ایٹمی دھماکوں کے لیے راسکوہ جیسے علاقوں میں استعمال کرنا کوئی اتفاق نہیں بلکہ ایک استعماری منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔ سیندک اور ریکوڈک کے ٹریلین ڈالرز کے وسائل کی لوٹ مار ہو، گوادر کی بندرگاہ ہو، یا ریت اور پتھر تک کا استحصال—یہ سب بلوچ قومی وجود کے خلاف ایک مسلسل جارحیت کا حصہ ہیں۔

یاد رکھا جائے، بلوچ وطن لاوارث نہیں! یہ خطہ، جسے دنیا ایک "ارضیاتی زون” کے طور پر جانتی ہے، ایک دن ایک آزاد مملکت کے طور پر اپنا وجود منوائے گا۔ آج بلوچستان ایک فدائیانہ جنگ لڑ رہا ہے، جو محض عسکری نہیں بلکہ فکری اور انسانی بنیادوں پر استوار ہے۔

چاہے وہ راسکوہ کے بارودی پہاڑ ہوں، یا ہربوئی، چلتن، بولان، تلار، اور کوہِ سلیمان کی سرزمین—ہر پتھر اور ہر ذرے میں مزاحمت کی روح زندہ ہے۔ کیا اب ریاست، داعش یا نام نہاد "ڈیتھ اسکواڈز” کے ذریعے بلوچ کو خوفزدہ کر پائے گی؟ نہیں، ہرگز نہیں۔

راسکوہ کی سفید رنگت اب ہزاروں ٹن بارود کی کالک سے سیاہ ہو چکی ہے، لیکن اس سیاہی میں چھپی داستان اب صرف زہر نہیں، بلکہ شعور کی روشنی بھی ہے۔ آج فدائیانہ بلوچوں کی لاشیں تاریخ کا ایسا باب بن چکی ہیں جسے کوئی ریاستی بیانیہ، کوئی میڈیا مہم، کوئی پروپیگنڈا دھندلا نہیں سکتا۔

راسکوہ صرف ایک پہاڑ نہیں، بلکہ ایک چیخ ہے—زمین، انسان، اور فطرت کی چیخ—جو آج بھی انصاف، اعتراف، اور ازالے کی منتظر ہے۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

خاران میں پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کی دو گاڑیوں کو حملے میں نشانہ بناکر دو اہلکاروں کو ہلاک کیا۔ بی ایل ایف

جمعرات مئی 29 , 2025
بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ترجمان میجر گہرام بلوچ نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ سرمچاروں نے تنظیم کے انٹلیجنس ونگ کی اطلاع پر اٹھائیس مئی کی رات نو بجے منصوبہ کے تحت خاران شہر کے حساس ریڈ زون میں ایک کمین حملہ کامیابی سے انجام دیا۔ کارروائی دشمن […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ