تحریر: گیابان بلوچ
زرمبش مضمون

آج دوپہر کے وقت ہم سفر میں تھے۔ راستے میں ایک چھوٹے بچے سے ملاقات ہوئی۔ اُس نے مجھ سے کہا:
"بھائی، مجھے کھانے کو کچھ دے دیں، بھوک بہت لگی ہے۔”
میں نے فوراً اپنی تمام جیبیں ٹٹولیں، مگر میرے پاس کوئی ایسی چیز نہ تھی جو اس کی بھوک مٹا سکتی۔ میں نے اپنے ساتھی کو آواز دی اور پوچھا:
"کیا آپ کے پاس کچھ ہے جو ہم اس بچے کو دے سکیں؟ یہ بہت بھوکا ہے۔”
ساتھی نے کہا:
"ایک منٹ صبر کرو، میں دیکھتا ہوں۔”
اس نے اپنی جیبیں دیکھیں، پھر آواز دی:
"میرے پاس بسکٹ ہیں۔”
میں نے کہا:
"ٹھیک ہے، لاؤ، یہی کافی ہیں۔”
ساتھی نے بسکٹ لا کر بچے کو دے دیے۔ بچہ خوشی سے بسکٹ کھانے لگا۔
میں نے اُس سے پوچھا:
"کیا تم ہمیں پہچانتے ہو؟”
بچے نے جواب دیا:
"جی ہاں! آپ لوگ سرمچار ہیں۔”
میں نے پوچھا:
"یہ سرمچار کون ہوتے ہیں؟”
بچے نے بڑے پُرعزم لہجے میں جواب دیا:
"سرمچار وہ ہوتے ہیں جو اپنی زمین اور قوم کی آزادی کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرتے۔ وہ خوشی خوشی اپنی جانوں کا نذرانہ دیتے ہیں اور اُف تک نہیں کرتے۔ وہی ہوتے ہیں سرمچار، وہی قوم کے ہیرو۔”
پھر وہ بولا:
"میں بھی بڑا ہو کر سرمچار بنوں گا۔ اپنی زمین اور قوم کی آزادی کے لیے لڑوں گا۔”
میں نے پوچھا:
"کیوں جنگ لڑو گے؟ کیا زمین اور قوم کے لیے جنگ لڑنا ضروری ہے؟”
اس نے پُرعزم آواز میں جواب دیا:
"جی ہاں! زمین کے لیے جنگ لڑنا ضروری ہے، کیونکہ زمین ماں ہوتی ہے، اور ماں زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے۔ یہ ہر اولاد پر فرض ہے کہ ماں کو آزادی دلانے کے لیے جنگ کرے۔ یہ ہر اولاد کی ذمہ داری ہے کہ ماں کی آہوں اور فریاد کو محسوس کرے۔ جو اولاد اپنی ذمہ داری نہ نبھا سکے، اُسے ماں کی گود میں سونے کا کوئی حق نہیں۔”
"ہم پر جبراً قبضہ کیا گیا ہے اور ہمیں غلام بنایا گیا ہے۔ یہ ہم پر فرض ہے کہ ہم نکلیں اور اس غلامی کے خلاف جنگ کریں۔ یہ ہم پر واجب ہے کہ ہم اپنی شناخت، اپنی بقا، اور اپنی ننگ و ناموس کی حفاظت کے لیے لڑیں۔ اگر آج ہم نے اس غلامی کے خلاف جنگ نہ لڑی، تو ہماری آنے والی نسلیں بھی اسی طرح غلامی اور ذلت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گی۔ ہماری ننگ و ناموس پامال کی جائے گی، اور ہمارے وسائل اسی بے دردی سے لوٹے جائیں گے۔ ہماری آنے والی نسلیں بھوک سے مریں گی، اور دنیا میں ہماری شناخت مٹ جائے گی۔”
بچے کی باتیں سُن کر مجھے جتنی حیرت ہوئی، اُس سے دوگنی خوشی ہوئی۔ حیرت اس بات پر کہ پہاڑوں میں رہنے والا ایک چھوٹا سا بچہ اتنا باشعور اور پختہ فکر رکھتا ہے۔ اور خوشی اس بات پر کہ میری قوم کا ایک بچہ اپنی زمین سے اس قدر محبت کرتا ہے اور اس کے لیے جان دینے کو تیار ہے۔
میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ میرے منہ سے بے اختیار آواز نکلی:
"اے ماں (زمین)، میں تیرے نام پر ہزار بار قربان جاؤں، کہ تُو نے ایسے شیر دل بچے پیدا کیے ہیں، جنہوں نے اس کمسنی میں ہی تیرے لیے سر پر کفن باندھ لیا ہے۔ تُو نے ایسے بچے پالے ہیں، تُو کبھی غلام نہیں رہ سکتی۔”
اُس لمحے مجھے کپٹن جان کی وہ بات یاد آ گئی، جو وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے:
"جب ہماری قوم کا ہر بچہ اس قدر باشعور ہو جائے کہ اُسے اپنی ذمہ داریوں کا ادراک ہو، تو ہماری آزادی قریب ہے۔”
میں نے دل میں کہا:
"کاش کپٹن جان، آپ اس وقت ہمارے ساتھ ہوتے۔ اگر آپ اس بچے کی باتیں اپنے کانوں سے سنتے تو ضرور خوش ہوتے اور بلند آواز میں کہتے: ‘اب ہماری منزل قریب ہے، اب ہماری جنگ کامیاب ہو گئی ہے۔ اب وہ دن دور نہیں جب ہم غلامی کی زنجیروں کو توڑ کر آزاد ہوں گے۔'”
کپٹن جان! آج آپ کا خواب پورا ہو گیا ہے۔
آپ لوگوں کی دی گئی قربانیوں کی بدولت، آج ہماری قوم کا ہر فرد شعور سے لیس ہے۔ اُسے اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہو چکا ہے، اور وہ اپنی فرض نبھانے کے لیے تیار ہے۔ اب وہ دن دور نہیں جب ہم آزاد ہوں گے!