لالا لطیف کی یاد میں – "لالا برادر”

تحریر: ڈاکٹر نسیم بلوچ
زرمبش مضمون

24 مئی کی صبح سویرے، پاکستانی فورسز نے میرے کزن، میرے دوست، اور ایک صحافی، لطیف بلوچ کو بلوچستان کے علاقے مشکے میں قتل کر دیا۔ یہ محض ایک صحافی کا قتل نہیں تھا، بلکہ ہمارے لوگوں میں سے ایک نرم خُو، باہمت اور ثابت قدم روح کے چراغ کو بجھا دینے کے مترادف تھا۔

ہمارے علاقے میں انہیں محبت سے “لالا لطیف” کہا جاتا تھا — کیونکہ وہ اپنی عاجزی، مہربان دل، اور دوسروں کے لیے بے لوث خدمت کے جذبے کی بنا پر جانے جاتے تھے۔ وہ ایک ایسا شخص تھا جو سب سے گرمجوشی سے ملتا، بغیر کسی غرض کے مدد کرتا، اور کبھی آواز بلند کیے بغیر سچائی پر قائم رہتا۔ یہی وجہ ہے کہ مشکے کے لوگ انہیں عمر سے نہیں بلکہ روح سے "لالا” یعنی بڑا بھائی کہتے تھے۔

لطیف بلوچ وہ صحافی تھا جو سناٹے میں لکھتا تھا — مشکے جیسے علاقے سے، جہاں انٹرنیٹ ایک خواب ہے اور موبائل سگنل بھی بمشکل ملتا ہے۔ وہ خاموشی میں گونج پیدا کرتا تھا، روزمرہ بلوچ عوام کے دکھ درد کو لفظوں میں ڈھالتا تھا۔ اُسے معلوم تھا کہ یہ سب کرنا خطرناک ہے، لیکن وہ کبھی نہ رُکا۔

یہ پہلا سانحہ نہیں تھا جو اس خاندان پر گزرا ہو۔ رواں سال مارچ میں، اس کے بیٹے کو دیگر آٹھ قریبی رشتہ داروں سمیت اغوا کر کے قتل کر دیا گیا۔

اس کے بھائی، میرے کزن راشد بلوچ کو 2011 میں اغوا کر کے قتل کیا گیا، اور ان کی لاش ویرانے میں پھینک دی گئی۔ ایک اور چھوٹے بھائی خالد، جو بلوچی زبان کے استاد تھے، کو بھی اغوا کیا گیا؛ وہ کئی ماہ کی گمشدگی اور اذیت کے بعد واپس آئے۔ خود لطیف کو بھی ماضی میں دو بار اغوا کیا گیا، مگر وہ ہمیشہ واپس آیا — اور ہمیشہ اپنے کام پر لوٹ آیا۔

اس نے کبھی خوف کو اپنے حوصلے پر حاوی نہ ہونے دیا۔ اس کے لیے صحافت محض ایک پیشہ نہیں، بلکہ مزاحمت تھی۔

لیکن میری یادیں لالا لطیف سے بہت پہلے کی ہیں۔ 1990 کی دہائی کے اوائل میں، جب میں محض ایک اسکول کا طالب علم تھا، میں نے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (BSO) کا ترانہ اور انقلابی گیت پہلی بار سنے — ریڈیو یا جلسے میں نہیں، بلکہ گھر میں اُس کے ٹیپ ریکارڈر سے، پورے والیوم پر۔ انہی گیتوں سے میرے دل میں انقلابی موسیقی اور سیاست کی محبت نے جنم لیا۔ یہ میری پہلی فکری بیداری تھی، اور وہ بیداری لالا لطیف کی مرہونِ منت تھی۔

لطیف بلوچ، اختر ندیم، میاں نیاز اور میں نے مل کر مشکے میں پہلا موسیقی سیکھنے کا کلب قائم کیا۔ یہ ایک چھوٹا سا عملِ انکار تھا — ایک ثقافتی بغاوت، اُس سرزمین میں جہاں اظہارِ خیال جرم سمجھا جاتا تھا۔ اُس کلب کے ذریعے ہم نے اپنے خوابوں اور مزاحمت کو آواز دی، اور لالا لطیف اس تحریک کا مرکز تھا۔ ہمارے استاد، خیر جان بہمنی، اس کلب میں ہمارے موسیقی کے معلم تھے۔

وہ محض رشتہ دار نہیں، ایک بھائی، ایک رفیق، ایک نظریاتی ہمسفر تھا، جس نے میرے سیاسی شعور کی بنیاد رکھی۔

1990 کی دہائی میں جب بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اور کچھ مذہبی گروہوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں، لطیف بلوچ کو پولیس نے گرفتار کیا۔ اسی مقدمے میں ڈاکٹر دین جان اور ڈاکٹر وحید (جو ویٹرنری ڈاکٹر تھے) بھی قید میں تھے۔ ہم ان سب کے لیے گھر سے کھانا لے کر جایا کرتے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بچپن سے ہی جدوجہد کا حصہ تھا۔

آج جب ریاستی قوتوں نے اسے قتل کیا، تو وہ شاید یہ سمجھتے ہوں گے کہ ایک آواز کو خاموش کر دیا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے صرف اُس گونج کو اور زیادہ گہرا کر دیا ہے۔

اس کی میراث ہر اُس نوجوان صحافی میں زندہ ہے جو سچائی کا خطرہ مول لیتا ہے، ہر اُس بلوچ گیت میں جو مزاحمت کی علامت ہے، اور ہر اُس سرگوشی میں جو جبر کے خلاف اٹھتی ہے اور مرنے سے انکار کرتی ہے۔

آج بھی مشکے اُسے “لالا” کہتا ہے — وہ بھائی، جو ہم سب کا تھا۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

بارکھان میں فورسز کا جعلی مقابلہ، جبری لاپتہ تین افراد قتل

پیر مئی 26 , 2025
بلوچستان کے ضلع بارکھان کے علاقے تنگ کریر میں پاکستانی فورسز نے ایک جعلی مقابلے میں زیر حراست تین افراد کو قتل کر دیا، جن کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ وہ طویل عرصے سے جبری طور پر لاپتہ تھے۔ ذرائع کے مطابق آج صبح سی ٹی ڈی […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ