قلم کا کفن: لطیف بلوچ کی شہادت”

تحریر: رامین بلوچ
زرمبش مضمون

بلوچ سرزمین ایک بار پھر لہو رنگ ہوئی لیکن یہ کوئی نئی خبر نہیں۔ یہ اس خونچکاں داستان کی ایک اور المناک قسط ہے جو دہائیوں سے مسلسل تحریر کی جا رہی ہے۔

مشکے کے مقام پر معروف بلوچ صحافی اور روزنامہ انتخاب کے نمائندے لطیف بلوچ کو ان کے گھر میں رات کی خاموشی میں ریاستی اہلکاروں نے شہید کر دیا۔ ان کا بہایا گیا خون ہر باشعور انسان کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے۔ وہ صرف ایک صحافی نہ تھے، وہ انسان دوست، وطن دوست، اور سچ کے علمبردار تھے جنہوں نے خوف اور خاموشی کے اس ماحول میں آواز بلند کرنے کی ہمت کی۔

لطیف بلوچ کی شہادت کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ بلوچ صحافیوں اور فرزندوں کے لہو سے بلوچستان کے ریگستان، دشت سنگلاخ اور ریتھلی پہاڑ پہلے ہی سیراب ہو چکے ہیں۔ یہ وہ سرزمین ہے جہاں ریاستی جبر کے سائے میں سچ بولنا خودکشی کے مترادف بن چکا ہے۔ ان صحافیوں کی فہرست طویل ہے جنہوں نے اپنے قلم کو نوآبادیاتی صحافت کے منڈی میں بیچنے سے انکار کیا اور اسے اپنے لہو سے روشن کیا۔ ان کی لاشیں تو دفن ہو گئیں، مگر ان کی تحریریں، ان کے سوالات، اور ان کا احتجاج آج بھی بلوچ وطن کے آسمان پر گونج رہا ہے۔

صحافت—جو دنیا بھر میں حقائق کی تلاش، انصاف کی آواز، اور عوامی ضمیر کی ترجمانی کا معتبر پیشہ سمجھی جاتی ہے—بلوچستان میں جرم بن چکی ہے۔ یہاں سوال اٹھانا، رپورٹنگ کرنا، یا بلوچ نسل کشی کے شکار افراد کے اعداد و شمار جمع کرنا "ریاستی مفاد کے خلاف سرگرمی” شمار کیا جاتا ہے۔ لطیف بلوچ کا جرم بھی شاید یہی تھا: ان کا قلم سچ کی روشنائی سے تر اور احتجاج کی صدا سے معمور تھا۔

بلوچستان—وہ سرزمین جہاں تاریخ اور تقدیر ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں، جہاں زبانیں خاموش نہیں ہوتیں بلکہ خاموش کرا دی جاتی ہیں۔ یہاں صحافت ایک پیشہ نہیں، ایک مزاحمت ہے۔ یہاں قلم بموں سے زیادہ خطرناک سمجھا جاتا ہے، اور ایک سچ بولنے والے صحافی کا جرم محض اس کا کیمرہ یا قلم بن جاتا ہے۔

بلوچ وطن میں پنجابی نوآبادیاتی ریاست کے انسدادِ دہشت گردی قوانین، نیکٹا، اور "فورتھ شیڈول” جیسے ریاستی ہتھیار، بالخصوص انسداد دہشت گردی ایکٹ کی شق "ای ون” اور "ای ٹو”، سیاسی کارکنوں، صحافیوں، دانشوروں اور لکھاریوں کے خلاف استعمال ہو رہے ہیں۔ ان قوانین کا واحد مقصد اختلافِ رائے کو مٹانا اور سچ کو دفن کرنا ہے۔

"فورتھ شیڈول” بلوچستان میں ہر اس شخص کے خلاف ایک حربہ بن چکا ہے جو جبری گمشدگیوں کے خلاف آواز بلند کرتا ہے، انسانی حقوق کی پامالی پر سوال اٹھاتا ہے، یا بلوچ قومی وقار اور قومی آزادی کی بات کرتا ہے۔ "ای ون” فہرست میں کسی فرد کا اندراج دراصل اس کی ہر نقل و حرکت کی نگرانی، اس کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر پہرہ، اور اس کی فکری، سماجی اور معاشی سرگرمیوں کی کڑی نگرانی کا اعلان ہوتا ہے۔ جبکہ "ای ٹو” ایک ایسی صلیب ہے جسے اٹھا کر وہ شخص نہ کسی عوامی اجتماع میں شریک ہو سکتا ہے، نہ کسی پلیٹ فارم پر بات کر سکتا ہے۔ یوں اسے زندہ لاش میں بدل دیا جاتا ہے—نہ مرنے کی اجازت، نہ جینے کا حق۔

لطیف بلوچ — ایک سادہ مزاج، قلم دوست، اور اپنی دھرتی سے بے پناہ محبت کرنے والے صحافی — کو مشکے کی تاریک رات میں خاموش کر دیا گیا۔ وہ سو رہے تھے، شاید کسی نئی رپورٹ کے خیال میں گم یا کسی کالم کے ابتدائی جملے ترتیب دے رہے تھے۔ مگر ان کی نیند کو ہمیشہ کے لیے خوابِ ابدی میں بدل دیا گیا۔ اب ان کی لاش ہمارے سامنے ایک سوال کی صورت کھڑی ہے:
کیا قلم کے وار سے خوف زدہ ریاست بلوچ قوم کو دس نسلوں کی دھمکی دے کر در اصل اپنی نفسیاتی، اخلاقی اور فوجی شکست کا اعتراف نہیں کررہی ہیں ۔

لطیف بلوچ کی شہادت کوئی انوکھا واقعہ نہیں۔ اس سے قبل بھی درجنوں بلوچ صحافی، دانشور، اور ادیب ریاستی اداروں کی جارحیت کا نشانہ بن چکے ہیں۔ مگر ان کی قبروں کی تختیوں پر وہی سوال کندہ ہے، اور ان کی تحریریں آج بھی زندہ ہیں۔
کیا ریاست یہ سمجھتی ہے کہ لاشوں سے خیالات دفن کیے جا سکتے ہیں؟ آدرشوں کو گولیوں سے مٹایا جا سکتا ہے؟
اگر ایسا ہوتا تو بلوچ مزاحمت دو نیم دہائیوں سے جاری اپنی تسلسل قائم رکھ سکتا ۔

بلوچستان گزشتہ دو دہائیوں سے ایک ایسے میڈیا بلیک آؤٹ کا شکار ہے جس کی مثال دنیا بھر میں کم ہی ملتی ہے۔ پاکستانی میڈیا، جو خود کو "آزاد صحافت” کا علمبردار کہتا ہے، بلوچ نسل کشی، جبری گمشدگیوں، اور ماورائے عدالت قتل جیسے جرائم پر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ وہ صحافت نہیں کر رہے، بلکہ ریاستی بیانیے کے ترجمان بنے ہوئے ہیں۔

ان کے قلم لفافوں میں بکتے ہیں، اور ان کی صحافت ریاستی چکلوں میں اپنی ضمیر بیچ چکی ہے۔ وہ آزادیِ صحافت کی بات تو کرتے ہیں، مگر اندر طلب بیڑیاں پہنے ہوئے غلام ہیں۔
بلوچوں کا لہو، مسخ شدہ لاشیں، اجتماعی قبریں، جبری گمشدگیاں، اور انسانی حقوق کی پامالی ان کی نظر سے اوجھل ہے —
کیونکہ ان کے لیے صحافت نہیں، دلالی سکوپ ہے۔

بلوچستان کی سرزمین میں آدرش ابھی مرے نہیں، خیالات دفن نہیں ہوئے، اور امید کی کلیاں اب بھی کھل رہی ہیں۔ اگرچہ اس ریتلی مٹی میں لاشیں بوئی جا رہی ہیں، مگر وہیں سے سوال اُگ رہے ہیں؛ وہیں سے خواب، مزاحمت اور آدرش جنم لے رہے ہیں۔ بلوچ سماج ایک ایسی تاریخی صداقت کی طرف بڑھ رہا ہے، جسے نہ گولی روک سکتی ہے، نہ فورتھ شیڈول، نہ پیکا، اور نہ جنگی جرائم کی زنجیریں۔

حالیہ برسوں میں پیکا ایکٹ (PECA)، جو بظاہر سائبر جرائم کی روک تھام کے لیے بنایا گیا تھا، بلوچستان میں ایک نیا استعماری ہتھیار بن چکا ہے۔ لیکن حقیقت میں اسے ان آوازوں کو دبانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے جو سوشل میڈیا پر ریاستی بیانیے سے اختلاف کرتے ہیں۔ حالیہ مہینوں میں متعدد بلوچ صحافیوں کو پیکا کے تحت گرفتار کیا گیا، ان کے آن لائن اکاؤنٹس بند کیے گئے، اور ان پر بغاوت، نفرت انگیزی، اور ملک دشمنی جیسے الزامات عائد کیے گئے۔ یہ کارروائیاں کسی جرم کے خلاف نہیں، بلکہ صرف آزادی اظہار کے خلاف ہیں۔ قانون کا اصل ہدف وہ آوازیں ہیں جو سوشل میڈیا کے توسط سے ظلم و جبر کو بے نقاب کرتی ہیں۔ تنقید، اختلاف اور سچائی کی ہر جھلک کو ریاست دشمنی قرار دے کر کچلا جا رہا ہے۔ لطیف بلوچ جیسے صحافی، جو زمینی حقیقتوں کو دنیا کے سامنے لا رہے تھے، اُن کی آواز کو بندوق سے خاموش کر دیا گیا،

یہ محض صحافت کا قتل نہیں، بلکہ اظہارِ رائے، دانش، اور انسان دوست بیانیے پر حملہ ہے۔ بلوچستان — وہ خطہ جو دہائیوں سے ریاستی جبر، فوجی آپریشنز، جبری گمشدگیوں اور منظم نسل کشی کا شکار ہے — آج میڈیا بلیک آؤٹ کی تاریکی میں دفن کر دیا گیا ہے۔ یہاں انسانی حقوق کی پامالی ایک روزمرہ حقیقت ہے، اور سچائی کو دفن کرنے کے لیے پورا ریاستی ڈھانچہ ایک مصنوعی صحافتی نقاب اوڑھ کر متحرک ہے۔

پاکستانی مین اسٹریم صحافت، جو خود کو آزادیٔ اظہار کی علمبردار کہتی ہے، دراصل ریاستی اشرافیہ کا نظریاتی و عسکری آلہ بن چکی ہے۔ اس کے کالم، ٹاک شوز اور تجزیے بلوچستان کے حوالے سے نوآبادیاتی تکبر کے مظہر ہیں۔ ان کے قلم ستم زدہ ماؤں کے زخموں پر روشنی نہیں ڈالتے، نہ جبری گمشدگیوں پر سوال اٹھاتے ہیں، اور نہ اجتماعی قتلِ عام پر آواز بلند کرتے ہیں۔ یہ خاموشی محض خوف کا نتیجہ نہیں، بلکہ ایک نظریاتی وفاداری ہے جو صحافی کو ریاستی بیانیے کا وفادار ترجمان بنا دیتی ہے۔

یہ صحافی اب صحافی نہیں رہے؛ یہ دراصل ریاست کے نظریاتی اور عسکری ایجنڈے کے دلال بن چکے ہیں۔ ان کے پاس زبان ہے مگر سچ بولنے کا حوصلہ نہیں؛ قلم ہے مگر وہ جبر کا بیانیہ لکھتے ہیں، مزاحمت کا نہیں۔ ان کے الفاظ ریاستی اجازت کے تابع ہیں، اور ان کا فریضہ جبر کی تشہیر ہے، سچائی کی نہیں۔

بلوچستان میں میڈیا بلیک آؤٹ محض تکنیکی مسئلہ نہیں بلکہ ایک سیاسی جرم ہے۔ بین الاقوامی صحافتی اصولوں کے مطابق صحافت کا اولین فرض یہ ہے کہ وہ کالونیئل طاقتوں کو بے نقاب کرے، مظلوموں کی آواز بنے، اور سچائی کا پرچم بلند رکھے۔ مگر پاکستان میں صحافت کالونئل طاقتوں کے قدموں میں جھکی ہوئی، ریاستی ظلم کو قومی سلامتی کا لبادہ پہنا کر پیش کرنے والی مشینری بن چکی ہے۔ یہ سچ کو غداری میں لپیٹ کر دفن کرتی ہے، اور جھوٹ کو حب الوطنی کا درجہ دیتی ہے۔

اسی لیے بلوچستان کے وہ عوام، جو اپنے حقِ آزادی اور انسانی وقار کے لیے لڑ رہے ہیں، ریاستی لغت میں "غدار”، "دہشتگرد” اور "شرپسند” قرار پاتے ہیں — اور یہ الفاظ وہی صحافی استعمال کرتے ہیں جو خود کو آزاد کہلوانا پسند کرتے ہیں۔ یہ صحافت نہیں بلکہ ایک فکری و اخلاقی دیوالیہ پن ہے؛ ایسا زوال جو سچ کو جرم اور جھوٹ کو ادارہ جاتی سچائی بنا دیتا ہے۔

اب وقت ہے کہ عالمی ضمیر بیدار ہو۔ اقوامِ متحدہ، انسانی حقوق کے عالمی ادارے، اور صحافتی تنظیمیں اس مجرمانہ خاموشی کا نوٹس لیں۔ کیا انسانی حقوق کی جنگ صرف مخصوص خطوں تک محدود ہے؟ یا دنیا صرف اس وقت بولے گی جب اس کے مفادات کو ٹھیس پہنچے؟کیا انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں صرف جغرافیائی یا مفاداتی پیمانوں سے ناپی جائیں گی؟ یا بلوچ صحافیوں، دانشوروں، اور سیاسی کارکنوں کی قربانیوں کو بھی ایک مکمل انسانی المیہ تسلیم کیا جائے گا؟

لطیف بلوچ کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ یہ لہو جو کاغذ پر نہیں، بلکہ خاکِ وطن پر گرا ہے، محض ایک صحافی کا قتل نہیں، بلکہ سچائی، مزاحمت اور شعور کی آواز کو دبانے کی ایک اور نااہل کوشش ہے۔ ۔ مگر تاریخ ایسے خون سے لکھی جاتی ہے جو وقت کی سیاہی کو جلا بخشتا ہے۔ لطیف بلوچ کا قلم خاموش ضرور خاموش کردیا گیا ، مگر اس کی سچائی زندہ ہے۔ یہ لہو تاریخ کے صفحات پر وہ باب لکھ رہا ہے جو نہ مٹے گا، نہ جھٹلایا جا سکے گا۔

یہ وطن، یہ سرزمین بانجھ نہیں؛ یہاں ہر ذرّہ گواہ ہے کہ لطیف بلوچ سمیت درجنوں بلوچ فرزندانِ زمین نے صحافت، شعور، علم و ادب کو فقط پیشہ نہیں بلکہ ایک مزاحمتی فریضہ بنایا۔ انہوں نے حرف کو ہتھیار، سچ کو صدا، اور خاموشی کو تحریر میں بدل کر لکھا۔ لطیف بلوچ کی شہادت کوئی اختتام نہیں، کوئی ابتداء بھی نہیں، بلکہ اس تاریخی جدوجہد کی بازگشت ہے جو ہر بلوچ قلم کار کی سانسوں میں، ہر نوجوان کے ذہن میں، اور ہر ماں کی آہوں میں زندہ ہے۔

اور جو ایوان، جو ادارے اس لہو کو معمول سمجھتے ہیں، وہ یاد رکھیں: تاریخ کے آئینے میں یہی لہو کل ان کی وحشت کا مقدمہ بنے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

اگر پاکستان کے ادارے اتنے باصلاحیت ہیں تو اب تک میرے خلاف کوئی ثبوت کیوں پیش نہیں کیا گیا؟، ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا جیل سے ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان پر ردِعمل

اتوار مئی 25 , 2025
3 ایم پی او کے تحت کئی ماہ سے جیل میں قید بی وائی سی کی مرکزی آرگنائزر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے گزشتہ دنوں آئی ایس پی آر کی جانب سے میڈیا کو دیے گئے بیان پر ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ روز انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (ڈی […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ