
بلوچ آزادی پسند رہنما رحیم بلوچ ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ پاکستانی فوج کے ہاتھوں بلوچستان کے ایک جانے پہچانے صحافی لالہ لطیف جان کے قتل کی خبر سن کر میرے دل پر بے چینی اور افسردگی کی کیفیت سی چھاگئی۔ یاد رہے اسی سال مارچ کے مہینے میں فوج نے شہید لالہ لطیف کے ایک فرزند اور بھانجے کو بھی مشکے میں ان کے گھر سے اٹھا کر قتل کرنے کے بعد ان کی مسخ لاشیں پھینک دیا تھا۔گزشتہ چند دہایئوں سے مقبوضہ بلوچستان میں پاکستانی ریاستی دہشتگردی میں جو شدت آئی ہے اور اس میں روز بہ روز جتنا اضافہ ہورہا ہے، اس کے باعث بلوچستان سے فوجی آپریشنز، جبری گمشدگیوں، مسخ لاشوں، ٹارگٹڈ قتل، اجتماعی قبروں کی دریافت اور بلوچستان کے قدرتی وسائل کی نیلامی کے اشتہارات و بولیوں کے سوا دوسری خبریں بہت کم پڑھنے اور سننے کو ملتی ہیں۔ شہید لاکہ لطیف کو میں 1990 سے جانتا ہوں جب میں بی ایس او کا مرکزی وائس چیئرمین تھا تو لالہ جان بی ایس او مشکے زون کے صدر تھے۔
انہوں نے کہا کہ تعلیم اور طلباء سیاست سے فراغت کے بعد میں نے وکالت کو پیشہ بنایا اور ساتھ ہی سیاست کے پُرخار سفر کو بھی جاری رکھا جبکہ لالہ جان صحافت کے راستے پر چل نکلے جو مقبوضہ بلوچستان جیسے جنگ زدہ خطہ میں ”آس و آف“ (آگ اور پانی) میں کودنے سے کم نہیں ہے۔ 1990 کی دہائی کے اواخر اور رواں صدی کے آغاز میں پارٹی کی تنظیمی پروگراموں میں شرکت کی غرض سے اکثر مشکے جانا پڑتا تھا جہاں لالہ جان سے ملاقاتیں ہوتیں۔ اس وقت مشکے میں روزنامہ انتخاب سمیت اخباروں کی اکثریت کا نمائندہ اور نامہ نگار لالہ جان ہی ہوتا تھا۔ بڑا ہی زندہ دل، ہنس مُکھ، باشعور اور سچا وطن دوست بلوچ تھا۔
بلوچ رہنما رحیم ایڈووکیٹ بلوچ نے کہا کہ مجھے یاد ہے لالہ لطیف جان سے ایک آدھ دہائی پہلے جب ملاقات ہوئی تو وہ لنگڑاتا تھا مگر اس وقت پاکستان کی فوج اور خفیہ اداروں کیلئے کسی بلوچ کو قتل یا قید کرنے کیلئے عمر، صنف، صحت کی کیفیت، اور پروفیشن کوئی معنیٰ نہیں رکھتے۔ کسی کا بلوچ اور باشعور ہونا اسے قابل گردن زنی ٹھہرانے کیلئے کافی ہے۔ قابض ریاست سمجھتی ہے کہ ریاستی دہشتگردی اور بلوچ نسل کشی کے ذریعے وہ بلوچ قومی تحریک آزادی کے آگے بند باندھ سکتی ہے۔ ایسا صرف پاکستان ہی نہیں سمجھتا بلکہ تاریخ گواہ ہے کہ ہر قابض اور استعمار کی سوچ یہی رہی ہے اور پھر شکست و دنیاکے نقشہ سے مٹ جانا بھی ان کا مقدر۔
ان کا کہنا تھا کہ میں شہید لالہ لطیف جان کے خاندان کے غم میں برابر کا شریک ہوں اور دعا کرتا ہوں اللّہ تعالیٰ جنت میں اسے اعلیٰ مقام عطاء کردے اور اس کے اہلخانہ کو یہ یہ غم سہنے کی برداشت عطاء فرمائے۔ آمین