لالا لطیف

تحریر: کمال بلوچ
زرمبش مضمون

لالا لطیف بلوچ کا پورا نام عبدالطیف بلوچ تھا۔ وہ واجہ کہدہ جان محمد کے گھر پیدا ہوئے۔ اپنی ابتدائی تعلیم مشکے ہائی اسکول سے مکمل کی، اور اعلیٰ تعلیم کے لئے خضدار گئے۔ وہاں انہوں نے خضدار ڈگری کالج سے تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد انہوں نے صحافت کا شعبہ اختیار کیا اور روزنامہ انتخاب میں کام شروع کیا، جہاں وہ تیس سال تک قلم کی خدمت کرتے رہے۔

لطیف بلوچ کو پورے مشکے میں لوگ محبت سے لالا کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ وہ ایک مہربان اور انسان دوست شخصیت کے حامل تھے۔ لیکن یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھنی چاہیے کہ مشکے کی مٹی جدوجہد اور مزاحمت کا سبق دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سرزمین کا ہر باسی حق اور سچ کے لئے کھڑا رہا ہے۔ آج بھی مشکے میں کوئی ایسا گھر نہیں جس نے وطن کی محبت میں قربانی نہ دی ہو۔

جب ہم بی ایس او میں سرگرم تھے، لالا لطیف ہمیشہ ہمارے درمیان موجود ہوتے۔ مجھے یاد ہے جب میں مشکے زون کا صدر منتخب ہوا تھا، ہماری حلف برداری کی تقریب میں ڈاکٹر نسیم، ڈاکٹر منان جان، لالا لطیف اور دیگر ساتھی موجود تھے۔ حالانکہ یہ تقریب مشکے ہائی اسکول کے ہال میں منعقد ہو رہی تھی، وہ وہاں موجود تھے اور ہمیشہ ہماری حوصلہ افزائی کرتے تھے۔

لالا لطیف خوش مزاج، ملنسار اور ہمدرد انسان تھے۔ طالب علمی کے دور میں وہ بی ایس او مشکے کے صدر رہے۔ اسی دور میں وہ مشکے کے عوام کے دکھوں اور تکالیف سے بخوبی آگاہ ہوئے۔ طالب علمی کے بعد انہوں نے صحافت کا راستہ اپنایا اور لوگوں کی آواز بنے۔ انہوں نے ہمیشہ قلم کی طاقت سے حق اور سچ کی بات کی۔ اس جدوجہد کی پاداش میں انہیں دو بار قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں، تشدد سہنا پڑا، لیکن وہ حوصلے کے ساتھ اپنے مشن پر قائم رہے۔

لالا لطیف نے اپنے جوان بھائی راشد بلوچ کی لاش کو کندھا دیا، جنہیں کراچی جاتے ہوئے راستے میں پاکستانی فوج نے جبری طور پر گمشدہ کر کے بعد میں ان کی مسخ شدہ لاش پھینک دی۔ اس کے باوجود وہ پہاڑ کی طرح ثابت قدم رہے اور قلم کی طاقت سے حق اور سچ کا علم بلند رکھا۔ اپنی صلاحیتوں کی بدولت وہ مشکے پریس کلب کے صدر منتخب ہوئے اور نوجوانوں کو صحافت کی طرف راغب کیا۔

بدقسمتی سے، ان کے جوان سال بیٹے سیف جان کو بھی پاکستانی فوج نے دیگر رشتہ داروں کے ہمراہ جبری طور پر گمشدہ کیا اور بعد میں ان کی لاش بھی پھینک دی گئی۔ لیکن لالا لطیف نے ہار نہ مانی، وہ مسلسل بولتے اور لکھتے رہے۔

لالا لطیف نے فیصلہ کر لیا تھا کہ جو بھی ہوگا، اس کا سامنا کریں گے۔ وہ جانتے تھے کہ انہیں پہلے بھی دو بار جبری طور پر لاپتہ کیا جا چکا ہے اور ریاست کا رویہ کیسا ہے۔ جب فوج اور ڈیتھ اسکواڈ کے اہلکاروں نے انہیں اغوا کرنے کی کوشش کی تو لالا لطیف نے بہادری سے کہا:
“تم مجھے قتل کر سکتے ہو، مگر میں تمہارا ساتھ نہیں دوں گا۔”
انہیں معلوم تھا کہ ریاستی عقوبت خانوں میں ان کے ساتھ کیا سلوک ہوگا، اس لیے انہوں نے پہلے سے موت کو قبول کر لیا تھا۔

لالا لطیف جان! آپ کی کمی بہت محسوس ہوتی ہے۔ آپ کا غصہ ہو یا مہربانی، ہر پہلو میں آپ ہماری رہنمائی کرتے تھے۔ مگر لالا جان، آپ ایک بہادر انسان تھے۔
لالا ،منان جان، شہیک جان، راشد جان کو سلام کرنا۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

شہید لالہ لطیف بڑا ہی زندہ دل، ہنس مُکھ، باشعور اور سچا وطن دوست بلوچ تھا۔ رحیم بلوچ ایڈووکیٹ

اتوار مئی 25 , 2025
بلوچ آزادی پسند رہنما رحیم بلوچ ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ ‏پاکستانی فوج کے ہاتھوں بلوچستان کے ایک جانے پہچانے صحافی لالہ لطیف جان کے قتل کی خبر سن کر میرے دل پر بے چینی اور افسردگی کی کیفیت سی چھاگئی۔ یاد رہے اسی سال مارچ کے مہینے میں فوج […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ