ایک اصل پہچان کا مالک: امجد بشام

تحریر: اجمیر بلوچ زرمبش مضمون

ایک ہفتے پہلے تربت سے ایک عجیب فلمی انداز میں دو نظریاتی قومی سپاہیوں کی داستان سامنے آئی۔ ان میں ایک امجد بشام ہے اور دوسرا صبراللہ۔ صبراللہ کے بارے میں میری معلومات محدود ہیں کیونکہ دورانِ تنظیم کاری میری اُن سے ملاقات نہیں ہوئی، لیکن امجد بشام میرا ایک قریبی، سنجیدہ اور نظریاتی دوست تھا۔

جب امجد بشام کی شہادت کی خبر ملی، اور میں نے اس کی ماں کو اپنے لختِ جگر کے سامنے بیٹھ کر یہ کہتے سنا کہ: "اپنے شہیدوں کو سلام کرو”, تو اُس لمحے مجھ پر کیا گزری، یہ میں جانتا ہوں اور خدا۔ اس بلوچ ماں کی دلیری کو میں سرخ سلام پیش کرتا ہوں۔ یہ وہی بہادری ہے جو بلوچ تاریخ کی ہزاروں ماؤں نے دکھائی ہے۔

دو ہزار تیرہ میں شہید امداد بجیر کی شہادت کے بعد، کیچ کی سرزمین ہمارے سیاسی کارکنوں کے لیے ایک تنگ و تاریک ویرانے میں تبدیل ہو چکی تھی۔ اُسی زمانے میں میرے ایک اور محبوب دوست، شہید منظور عرف علی جان کے ساتھ ہم نے کئی بار تنظیمی بحالی، بحث و مباحثہ اور ممبرشپ کی مہم پر کام کیا۔ نومبر 2013 میں، جب ہم نے نئی ممبرشپ کا اعلان کیا تو شہید امجد بشام اور شہید سلیمان (جنہوں نے پہلے ہی بی ایس او سے رکنیت ختم کر دی تھی) نے بھی بی آر ایس او سے علیحدگی اختیار کی۔ اُس کے بعد ہم نے دونوں کو بی این ایم کی پالیسی کے مطابق اپنے پلیٹ فارم سے جگہ دی۔

ان دونوں شہیدوں نے اپنے نام بھی بدل دیے۔ شہید سلیمان، "تلار بلوچ” اور شہید امجد، "رودین بلوچ” کے نام سے پہچانے جانے لگے۔ دونوں اپنے شعوری علم کے ساتھ پارٹی کام میں جُت گئے۔ اُن کے اندر نظریاتی پختگی تھی، اور میں نے خود یہ مشاہدہ کیا کہ وہ علم کے ذریعے غلامی سے نجات اور قوم کے بہتر مستقبل کے لیے جدوجہد کر رہے تھے۔ یہی علم کا اصل فلسفہ ہے کہ انسان اچھائی اور برائی میں فرق کرے، اور آگہی سے عمل تک کا راستہ طے کرے۔ ان دونوں شخصیات نے علم کی بلندیوں کو چھوا، اس پر عمل کیا، اور ایک مثالی معاشرے کی بنیاد رکھنے میں اپنا کردار ادا کیا۔

لیکن آج میرا موضوع خاص طور پر امجد بشام ہے۔ وہ محض ایک ذہین اور سنجیدہ طالبعلم ہی نہیں بلکہ ایک پختہ، نظریاتی، جدید تعلیم یافتہ اور بی این ایم کا نڈر سپاہی تھا۔ جب 2017 میں اس کی گرفتاری ہوئی، اُس وقت میں کسی اور شہر میں پارٹی کام میں مصروف تھا۔ مجھے اطلاع ملی کہ امجد پاکستانی عقوبت خانوں میں جسمانی اور ذہنی اذیتوں کا شکار ہے، لیکن مجھے پورا یقین تھا کہ وہ دشمن کے سامنے اپنے ساتھیوں کے راز کبھی فاش نہیں کرے گا۔

ان تمام اذیتوں کے باوجود وہ پارٹی مشن پر قائم رہا۔ جب وہ جیل سے واپس آیا تو اُس نے ایک دوست کے ذریعے یہ پیغام بھجوایا کہ: "کسی بھی صورت میں زیشان بلوچ سے ملو اور اسے کہنا کہ اپنا خیال رکھے، یہ بزدل دشمن اُسے بھی ڈھونڈ رہا ہے۔”

یہ پیغام سن کر میرے چہرے پر ہنسی بھی آئی اور بے چینی بھی۔ ہم نے کتنی بار گورکوپ کے میدانوں میں سفر کیا، وہ جولائی کی گرمی، جب موٹر سائیکل پنچر ہوا اور ہم پہاڑوں میں پھنسے۔ ایک ساتھی پمپ لانا بھول گیا تو میں غصے میں آ گیا۔ امجد نے مسکرا کر کہا:
"ایک سیاسی کارکن کا جذباتی ہونا درست نہیں، شاید ہم نظریاتی طور پر ابھی کمزور ہیں۔ یہ سفر سخت ہے، یہاں برداشت ضروری ہے، میری جان۔”

کتنی بار کولواہ میں، اور بیشتر اوقات کیچ کی انہی گلیوں میں، ہم نے وال چاکنگ کی، اپنا نظریہ پھیلایا۔ انہی گلیوں میں امجد بشام نے شہادت نوش کی۔ میں نے اپنی زندگی کی ڈائری میں یہ سارے لمحات محفوظ کر لیے ہیں۔ جب آخری بار اُس سے ملاقات ہوئی، تو ہم نے رات ایک جگہ ٹھہرنے کا فیصلہ کیا۔ اُس نے مسکراتے ہوئے کہا:
"شاید یہ میرا آخری دیدار ہے، لیکن اپنی دعاؤں میں ضرور یاد رکھنا۔”

یار امجد! آج تم نے مادرِ وطن کی پکار پر اپنی زندگی قربان کر دی۔ تمہاری بہادری اور شہری گوریلا بننے کی صلاحیت نے اُس تاریک رات دشمن کو پسپائی پر مجبور کیا۔ تم نے ثابت کیا کہ دشمن تمہارے حوصلے کے سامنے شکست کھا چکا ہے۔
ہم تمہیں کبھی الوداع نہیں کہیں گے، کیونکہ تم ایک زندہ نظریہ ہو، ایک گوریلا سپاہی، ایک ناقابلِ فراموش سیاسی کارکن۔

باتیں بہت ہیں، داستانیں بے شمار، لیکن میرا قلم کمزور ہے کہ تمہاری ہر بات کو تحریر میں لا سکے۔
آئیے! ہم امجد بشام کے قابلِ فخر جذبے کو سلام پیش کریں، اس کی مثال سے سیکھیں، اور عظیم مقاصد کی خاطر اپنا کردار ادا کریں۔ شہیدوں کی قربانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہم سب میں تبدیلی لانے کی طاقت ہے۔ ہم اجتماعی جدوجہد سے عظمت حاصل کر سکتے ہیں۔

بالآخر، ایک اصل پہچان باقی رہ جاتی ہے جیسے کہ آج امجد بشام کی ہے۔
امجد جان! ہم تمہیں اور تمام قومی سپاہیوں اور سیاسی کارکنوں کو دل سے یاد کرتے ہیں۔ تمہاری بہادری، وفاداری، اور قوم کے لیے بے لوث خدمت کو سرخ سلام۔
تمہاری قربانی ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گی، اور تم ہمارے لیے آزادی کا ایک روشن راستہ چھوڑ گئے ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

بی وائی سی کے رہنماؤں کی آئینی درخواست کو استغاثہ کی پیروی میں مسترد کرنا عدلیہ کی جانبداری واضح کرتی ہے۔ این ڈی پی

ہفتہ مئی 24 , 2025
نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی ترجمان نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ سمیت صبغت اللہ شاہ جی، بیبو بلوچ، گل زادی بلوچ، بیبرگ بلوچ و دیگر کو من گھڑت الزامات کے آڑ میں پابند سلاسل کرنا بنیادی طور پر نا صرف […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ