
بلوچ انسانی حقوق کے سرگرم رہنما اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے نائب چیئرمین ماما قدیر بلوچ کی طبیعت انتہائی ناساز ہو گئی ہے، جس کے بعد انہیں کراچی کے ڈاکٹر ضیاء الدین اسپتال کے انتہائی نگہداشت وارڈ (ICU) میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ ان کی موجودہ حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے اور ڈاکٹروں نے انہیں آکسیجن پر رکھا ہوا ہے۔
اس سے قبل 16 مئی 2025 کو ماما قدیر بلوچ کو طبیعت کی خرابی کے باعث فوری طور پر اسپتال منتقل کیا گیا تھا۔ اس وقت وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نے اپنے آفیشل فیس بک پیج پر ایک ویڈیو جاری کی تھی، جس میں ماما قدیر کو اسپتال کے بستر پر آکسیجن ماسک کے ساتھ دیکھا گیا تھا۔ ان کی حالت اس وقت سے بدستور نازک ہے، اور اب انہیں آئی سی یو میں مکمل طبی نگرانی میں رکھا گیا ہے۔
ماما قدیر بلوچ گذشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے سراپا احتجاج ہیں۔ ان کی قیادت میں کوئٹہ پریس کلب کے سامنے روزانہ بھوک ہڑتالی کیمپ جاری ہے، جس میں وہ صبح 10 بجے سے شام 6 بجے تک خالی پیٹ گزارنے کی عملی مزاحمت کرتے آ رہے ہیں۔ ان کی مسلسل جسمانی مشقت، عمر اور صدمات نے ان کی صحت پر گہرے اثرات ڈالے ہیں۔
ماما قدیر نہ صرف ایک باحوصلہ سیاسی رہنما ہیں بلکہ وہ اپنے بیٹے جلیل ریکی بلوچ کی جبری گمشدگی اور حراست میں قتل کا غم بھی دل میں لیے مظلوموں کے لیے آواز بلند کرتے رہے ہیں۔ وہ بلوچ قومی تحریک میں ایک علامتی حیثیت رکھتے ہیں اور دنیا بھر میں انسانی حقوق کے علمبردار کے طور پر جانے جاتے ہیں۔
ان کی بگڑتی صحت پر انسانی حقوق کے حلقوں، کارکنوں، بلوچ قوم پرستوں اور دیگر ہمدردوں میں گہری تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ تمام افراد سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ ماما قدیر بلوچ کی جلد صحتیابی کے لیے دعا کریں۔