دی پروفیسر

تحریر: دل مراد بلوچ زرمبش مضمون


کل تربت کے گلیاروں میں ایک ڈرون دو سائیکل سواروں کا پیچھا کر رہا تھا۔ ڈرون فوٹیج میں صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ سائیکل سوار تیزی سے کبھی ایک گلی میں، کبھی دوسری گلی میں داخل ہو رہے ہیں۔ دوسری جانب پاکستانی فوج کی گاڑی بھی اسی سمت بڑھ رہی ہے، جس طرف وہ سائیکل سوار جا رہے ہیں۔ آخرکار ایک تنگ گلی میں سائیکل سوار نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں، اور پاکستانی فوج کی گاڑی بھی اسی جگہ کا رخ کرتی ہے۔

بظاہر یہ ایک چھوٹی سی فلم لگتی ہے، لیکن اس فلم کے اختتام پر کسی ہندی فلم کی طرح ہیرو کی فتح اور ولن کی شکست فلم بند نہیں ہوتی، بلکہ کیچ اپنے دو بیٹے گنوا بیٹھتا ہے۔ ان میں ایک امجد بشام ہے اور دوسرا صبراللہ۔ صبراللہ کے بارے میں میری معلومات ناقص ہیں، لیکن امجد بشام۔۔۔ امجد بشام کی موت سے میری آنکھیں تو اپنی جگہ، یوں محسوس ہوتا ہے جیسے انگلیوں کی پوروں سے آنسو چھلک پڑیں گے۔

امجد بشام ایک ذہین طالبعلم، ایک نظریاتی سیاسی کارکن، جدید تعلیم سے آراستہ اور بی این ایم کا ایک قیمتی اثاثہ تھا۔ جب 2017 میں پاکستانی فوج نے اسے اٹھایا اور ایک سال کے شدید جسمانی و ذہنی تشدد کے بعد فوج نے اسے چھوڑ دیا تو میرا  گمان ہوا کہ امجد اب پہلے جیسا نہیں رہ سکے گا۔ اتنے شدید تشدد کے بعد کسی بھی نوجوان کے لیے معمول کی زندگی میں واپس آنا اور نارمل انسان کی طرح کام کرنا، نہایت کٹھن ہوتا ہے۔

لیکن امجد کے باب میں میری یہ بدگمانی مجھ پر تھپڑ بن کر آ پڑی کیونکہ وہ پہلے سے بھی زیادہ متحرک اور باحوصلہ ہو چکا تھا۔ تاہم شہری زندگی میں مسلسل فوجی افسروں کی فون کالز، نگرانی اور تعاقب جیسے حالات ایک جینئس انسان کے لیے سہنا نہایت دشوار ہوتا ہے۔ یہی اسباب امجد کے لیے محاذ کی رخ کرنے کا سبب بن گئے۔ محاذ کے بعد ان سے روابط کم ہی ہوا لیکن دوستوں سے اکثر ان کی بہادری، خلوص اور دوستوں کی خیال داری و پیار کے قصے پرواز کرکے مجھ ناچیز تک آں پہنچتے۔ لیکن افسوس کہ کیچ کے دلبند تربت کی گلیوں میں کل کے دن ان قصوں نے آخری اڑان بھری اور ہمیشہ کے بلوچستان کے آنسو بھرے فضاؤں میں تحلیل ہوگئے۔

امجد اعلیٰ درجے کا پڑھا لکھا اور انتھک محنتی ساتھی تھے۔ تمام دوست ان کی بے حد قدر کرتے تھے۔ ہمارے لیے وہ صرف استاد نہیں تھا، وہ ایک نظریہ تھا جو پڑھتا تھا، پڑھاتا تھا، سکھاتا تھا، سوال کرتا تھا اور لڑتا تھا۔

شہید امجد بشام بلوچ صرف ایک شخص نہیں، ایک شعوری حوالہ تھے۔ وہ جس کلاس روم میں پڑھاتے تھے، وہیں سے انقلابی شعور کی کرنیں پھوٹتی تھیں۔ ان کے طلبہ صرف نصابی سبق، زبان یا کمپیوٹر نہیں سیکھتے تھے، وہ سوچنے کا سلیقہ، سوال اٹھانے کا حوصلہ اور سچ کی پہچان کا ہنر بھی سیکھتے تھے۔

وہ تعلیم کو روزگار کا ذریعہ نہیں، قوم کی آزادی کا راستہ سمجھتے تھے۔ وہ اس پایہ کے طالبعلم تھے کہ ایک روشن، پُرسکون اور کامیاب زندگی ان کا انتظار کر رہی تھی۔ مگر انہوں نے اس زندگی کو مادرِ وطن کی پکار پر قربان کر دیا۔

میں نہیں جانتا کہ بلوچ سیاسی تاریخ انہیں کس نام سے یاد کرے گی، لیکن میرے وہ پروفیسر ہیں، "دی پروفیسر” محض ایک لقب نہیں۔۔۔ یہ ان کی شعور، تربیت، اور مزاحمت کا استعارہ ہے جس نے امجد بشام کو ایک فرد سے ایک فکر میں بدل دیا۔ وہ قلم سے بھی لڑتے تھے، زبان سے بھی اور جب وقت آیا تو بندوق تھام کر دشمن کے سامنے سینہ سپر ہو گئے۔

آج جب ہم انہیں الوداع کر رہے ہیں تو ایک استاد، ایک رہنما، ایک سپاہی۔۔۔ تینوں کی شبیہ ایک ساتھ ہم سے دور جا رہی ہے، بس ایک نام، ایک یاد رہ جاتی ہے، ایک پہچان باقی رہ جاتی ہے۔

"دی پروفیسر”

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

بلیدہ: تعمیراتی کمپنی کی سیکیورٹی پر مامور لیویز اہلکاروں کا اسلحہ قبضے میں لے لیا۔ بی ایل ایف

اتوار مئی 18 , 2025
بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ترجمان میجر گہرام بلوچ نے میڈیا کو بیان جاری کرتے کہا ہے کہ سترہ مئی 2025 کو، بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سرمچاروں نے صبح 9:30 بجے بلیدہ کے علاقے سلو میں ایک تعمیراتی کمپنی کی سیکیورٹی پر مامور سات لیویز اہلکاروں کو گھیر لیا اور ان […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ