امی زلیخا کے نام — میرا دل سے لکھا ہوا خط

تحریر: ذاکر بلوچ
زرمبش مضمون

امی جان…
آج دل بہت بےچین ہے۔ آپ کی یاد بہت شدت سے آ رہی ہے۔ حالانکہ آپ تو ہر لمحہ میرے دل میں موجود ہوتی ہیں، مگر کبھی کبھی یادیں اتنی گہری ہو جاتی ہیں کہ آنکھیں بھیگ جاتی ہیں اور زبان لڑکھڑانے لگتی ہے۔

امی، مجھے آج بھی آپ کی وہ آواز یاد ہے، جو اکثر میرے کانوں میں گونجتی ہے:
"ذاکر میرے بیٹے، تم بہت سمجھ دار ہو، میری ہر بات مان لیتے ہو…”

امی، آپ جانتی ہیں نا؟ میں آپ کی ہر بات اس لیے مانتا تھا کیونکہ آپ کی مسکراہٹ میرے لیے سب کچھ تھی۔ آپ کی ایک نظر، ایک دعا، ایک لمس — وہی میری دنیا تھی۔

اب جب آپ میرے ساتھ نہیں ہیں، تو یوں لگتا ہے جیسے دنیا تھم سی گئی ہو۔ جیسے ہر خوشی ادھوری ہو گئی ہو۔ جیسے ہر راہ سنسان ہو گئی ہو۔

لیکن امی، میں ہار نہیں مانتا۔ میں آج بھی وہی ذاکر ہوں، آپ کا بیٹا۔ میں آج بھی ہر دن آپ کے الفاظ کے سہارے جیتا ہوں۔
جب کبھی زندگی مشکل لگتی ہے، دل تھک جاتا ہے، تو آپ کی وہ بات میرے اندر گونجتی ہے:
"میرے بیٹے، تم بہادر ہو…”

امی، یہ جملہ میرے لیے روشنی کا چراغ ہے۔ یہ مجھے یاد دلاتا ہے کہ آپ نے ہمیشہ مجھ پر یقین رکھا۔ اور اب یہ میرا فرض ہے کہ آپ کے اُس یقین کو کبھی ٹوٹنے نہ دوں۔

میں ہر دعا میں آپ کو یاد کرتا ہوں۔ اور جب سجدے میں جاتا ہوں، تو دل سے صرف یہی عرض کرتا ہوں:

"یا اللہ، میری ماں کو جنت کی سب سے اونچی جگہ عطا فرما۔ جیسے اُس نے مجھے بےپناہ محبت دی، تُو اُسے اپنی بےپایاں رحمتوں سے بھر دے۔”

میری ماں کوئی عام عورت نہیں تھیں۔ وہ میرے لیے دنیا کی سب سے بڑی طاقت تھیں۔ اُن کے ایک اشارے سے میں بکھری دنیا کو سمیٹ لیتا تھا۔ اُن کی ایک مسکراہٹ میرے دل کی ساری تھکن اتار دیتی تھی۔
میں نے بچپن سے جوانی تک اُن کے سائے میں وہ سکون پایا جو شاید الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتا۔

امی کہا کرتی تھیں:
"ذاکر میرے بیٹے، تم بہت سمجھ دار ہو۔ تم میرے دل کی بات سمجھ لیتے ہو۔ تم میرے خواب ہو۔”

اور میں؟ میں صرف اُن کی آنکھوں میں اپنا عکس دیکھتا تھا۔ اُن کے دوپٹے کی خوشبو سے میری سانسیں جڑی تھیں۔
جب وہ رات کو میرے سر پر ہاتھ رکھ کر دعا دیتی تھیں، تو یوں لگتا جیسے آسمان سے رحمت اُتر رہی ہو۔

لیکن وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا…

ایک دن، خاموشی میرے گھر کی دیواروں میں اُتر آئی۔ میری ماں، جو ہر صبح میرے لیے پانی رکھتی تھیں، جو ہر رات میرے سونے سے پہلے دروازہ بند کرتی تھیں — اچانک خاموش ہو گئیں۔

پہلے پہل تو لگا، شاید ابھی اٹھیں گی… ابھی آواز دیں گی:
"ذاکر! میرے بیٹے…”
مگر وہ آواز دوبارہ کبھی نہ آئی۔

گھر وہی تھا، دیواریں وہی، لیکن روشنی نہیں تھی۔ ماں کی غیر موجودگی نے میرے اندر ایک ایسا خلا بھر دیا، جو کبھی مکمل نہیں ہو سکتا۔

اب جب کوئی مجھ سے کہتا ہے کہ میں "سمجھ دار” ہوں، تو دل چیخ کر کہتا ہے:
"امی کہتی تھیں، اس لیے مان لیتا ہوں… لیکن اُن کے بغیر، اب کچھ بھی مکمل نہیں لگتا۔”

کئی راتیں ایسی گزریں کہ میں جاگتا رہا۔ اُن کی یاد میں، اُن کے لفظوں میں۔ اُن کی مہکتی چادر کو سینے سے لگا کر رویا۔ خود سے سوال کیا:

"کیا میں واقعی ویسا ہی بیٹا تھا جیسا وہ چاہتی تھیں؟ کیا میں اُن کا فخر تھا؟”

پھر دل کے اندر سے ایک آہستہ سی صدا آئی —
"ہاں ذاکر، تُو اُن کا فخر تھا… اور آج بھی ہے۔”

اب ہر صبح میں اُن کی ایک تصویر کو دیکھ کر دن کا آغاز کرتا ہوں، اور اُن کی دعا کی کمی کو اُن کی یاد سے پورا کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اُن کے لیے سورۂ فاتحہ پڑھتا ہوں، اُن کے نام سے خیرات کرتا ہوں، اور اُن کی ہر بات دل میں محفوظ رکھتا ہوں۔

جب رات گہری ہو جاتی ہے، اور تنہائی زور پکڑ لیتی ہے — تو میں آسمان کی طرف دیکھتا ہوں اور کہتا ہوں:

"امی، جہاں بھی ہوں، میری آواز سنیے… میں اب بھی وہی ذاکر ہوں، جو آپ کی ہر بات مانتا ہے… اور مانتا رہے گا۔”

آپ کا بہادر بیٹا،
ذاکر بلوچ

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

آواران: پاکستانی فورسز کے اہلکاروں پر حملہ، جانی نقصان کی اطلاعات

ہفتہ مئی 17 , 2025
بلوچستان کے ضلع آواران میں مسلح افراد نے پاکستانی فورسز کے اہلکاروں کو حملے میں نشانہ بنایا ہے۔ ذرائع کے مطابق مسلح افراد نے آج صبح نو بجے آواران کے علاقہ جکرو میں پاکستانی فورسز کے اہلکاروں پر اس وقت حملہ کیا جب وہ اپنے مورچوں کی جانب جا رہے […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ