تحریر: نمر بلوچ زرمبش مضمون

تاریخ میں کچھ زمینیں ایسی ہوتی ہیں جو ظاہری طور پر بےآب و گیاہ نظر آتی ہیں، مگر درحقیقت وہ غیرت، آزادی اور مزاحمت کے خزانے سے مالا مال ہوتی ہیں۔ بلوچستان ایسی ہی ایک سرزمین ہے۔ پہاڑوں سے ڈھکا، صحراؤں میں لپٹا، اور سمندر سے جڑا یہ خطہ صدیوں سے سامراجی طاقتوں کی آنکھ میں کھٹکتا رہا ہے۔ مگر ہر بار، تاریخ کی عدالت میں فیصلہ بلوچ قوم کے حق میں آیا ہے۔
پرتگیزی آئے—تو ان کے جنگی جہاز، بارود اور صلیبی غرور گوادر اور پسنی کی سرزمین سے ٹکرا کر خاک میں مل گئے۔ بلوچوں نے انہیں سمندر میں ایسا دھکیلا کہ وہ دوبارہ ان ساحلوں کا رُخ نہ کر سکے۔
عرب آئے—اسلام کے ساتھ، طاقت کے نشے میں۔ بلوچوں نے دین کو خندہ پیشانی سے قبول کیا، مگر عرب حکمرانی کو ہمیشہ چیلنج کیا۔ خلیفہ عمر بن خطابؓ تک کو کہنا پڑا: “یہ زمین نہ لشکر کے لائق ہے، نہ پانی کے، نہ زراعت کے”۔ ایک خلافت، جو دنیا کو فتح کرتی جا رہی تھی، بلوچ سرزمین کے سامنے رک گئی۔
پھر مغل آئے، اپنے جاہ و جلال اور سلطنت کے غرور کے ساتھ۔ مگر رند و لاشار، براھوی و مری، اور ہزاروں بے نام بلوچ سپاہی کبھی ان کے آگے نہ جھکے۔ پہاڑوں میں رہنے والے ان بلوچوں کے سامنے مغلوں کی تلواریں ماند پڑ گئیں۔
اب بات اُس حملہ آور کی، جس کا نام سنتے ہی کئی تہذیبیں لرز اٹھتی ہیں—چنگیز خان۔ وہ فاتحِ بغداد، مسمارگرِ خراسان، اور جلادِ ماوراالنہر تھا۔ لیکن بلوچ سرزمین کی طرف بڑھنے والے اس کے دستے بلوچوں کی گھاتوں، پہاڑی جنگی چالوں، اور مقامی مزاحمت کے آگے نہ ٹھہر سکے۔ اگرچہ تاریخ میں بلوچوں اور چنگیزی افواج کے ٹکراؤ کی تفصیلات کم ہیں، مگر ایرانی و وسط ایشیائی ذرائع اس بات پر متفق ہیں کہ چنگیز کے بعد مکران اور بلوچستان کا راستہ مسدود ہو گیا۔ تاتاری عروج کے باوجود، بلوچ پہاڑوں کی گھاٹیوں میں نہ گھس سکے۔ بلوچ نہ فقط زندہ رہے، بلکہ اپنی سرزمین کو محفوظ رکھنے میں کامیاب ہوئے۔
پھر آئے انگریز، جو مکاری، معاہدے اور بندوق ساتھ لائے۔ میر محراب خان کی شہادت کے باوجود بلوچوں کی مزاحمت ختم نہ ہوئی۔ قلات کی ریاست نے انگریزوں سے برابری کی سطح پر معاہدہ کیا، جو بلوچوں کی سیاسی بصیرت اور خودداری کا ثبوت ہے۔
اور آج؟
آج پھر وہی تاریخ دہرائی جا رہی ہے۔ چینی سرمایہ کاری، گوادر پورٹ، سی پیک اور عالمی طاقتوں کی نظریں ایک بار پھر اس زمین پر جمی ہوئی ہیں۔ ترقی کے نعروں میں لپٹی یہ مداخلت، بلوچوں کے لیے ایک نئی نوآبادیاتی شکل اختیار کر چکی ہے۔ وسائل وہ لے جا رہے ہیں، روزگار باہر سے آ رہا ہے، اور مقامی بلوچ صرف تماشائی بنایا جا رہا ہے۔
مگر کیا بلوچ قوم خاموش رہے گی؟
نہیں۔ کیونکہ بلوچ کا ماضی اس کے حال سے جدا نہیں، بلکہ اس کا آئینہ ہے۔ وہ قوم جس نے چنگیز خان کو روکا، پرتگالیوں کو بھگایا، عربوں کو روکا، مغلوں کو للکارا، اور انگریزوں کے ساتھ معاہدہ میز پر بیٹھ کر کیا—وہ آج بھی اپنی سرزمین کے لیے سینہ تان کر کھڑی ہے۔
بلوچستان کی پہاڑیاں محض چٹانیں نہیں، یہ مزاحمت کی بلندیاں ہیں۔ یہاں کی خاموش فضاؤں میں قربانیوں کی صدائیں گونجتی ہیں۔ اور تاریخ، بے شک، گواہی دیتی ہے کہ یہ وہ سرزمین ہے جہاں ہر حملہ آور ہارا، اور بلوچ جیتا۔