تحریر :میرک بلوچ ـ زرمبش مضمون

یہ زمین میری ہے، اور میں ہزاروں سالوں سے اس پر مقیم ہوں۔ تاریخ گواہ ہے کہ یہ سرزمین میری ہے۔ یہاں کے پتھر، پہاڑ، اور سمندر سب میرے ہیں۔ اس سرزمین کا اصل وارث میں ہوں۔ اُس قابض (پاکستان) کی کیا اوقات کہ وہ مجھ پر حکومت کرے؟
یقیناً میں اپنی جان دے دوں گا، لیکن اِس ریاست کی غلامی کبھی قبول نہیں کروں گا۔
قدرتی معدنیات اور وسائل سے مالا مال اس سرزمین پر اگر میری زندگی غلامی یا دربدری میں گزری ہے، تب بھی میں اپنی آنے والی نسلوں کے لیے وہ ماضی نہیں چھوڑ سکتا جو مجھے ورثے میں ملا۔
اے میری ماں! مجھے معاف کرنا۔ سرزمین کا فرض نبھاتے نبھاتے میں تمہارے حقائق اور تمہارے فرائض بھول گیا۔
میں ایک اچھا بیٹا بننے میں شاید ناکام رہا، لیکن یہ زمین گواہ ہے کہ میں نے اپنی طرف سے سرزمین کے قرض چکانے کی پوری کوشش کی۔ اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
اے ماں! مجھے معاف کرنا کہ غلامی کے خاتمے اور آزادی کے لیے لڑی جانے والی اس جنگ میں میں نے تمہاری طرف ایک بار بھی مُڑ کر نہیں دیکھا۔
جو کچھ سوچا، جو کچھ کیا، بس وطن اور آزادی کے لیے کیا۔
اور جب ایک دن نگاہ تم پر پڑی، تو وہ ماں دکھائی دی جو کبھی لوہے جیسی مضبوط تھی، لیکن اب اتنی ٹوٹ چکی تھی کہ شاید اب کچھ بھی ہو، جنگ ختم ہو جائے، اور تمہارے دونوں بیٹے تمہارے سامنے کھڑے ہوں—پھر بھی تم پہلے جیسی نہیں بن پاؤ گی۔
یقین مانو ماں! جب تمہیں اس حال میں دیکھا تو دل چور چور ہو گیا۔
لیکن میں نے ایک آنسو بھی نہیں بہایا، اور اس میں میرا کوئی قصور نہیں تھا۔
ساری مصیبت کی جڑ غلامی ہے۔
میں آج بھی اپنے فیصلے پر قائم ہوں۔
مجھ میں آج بھی قربانی دینے کا جذبہ وہی ہے، بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے۔
تمہارے حقوق تو ادا نہیں کر سکا، مگر قوم و زمین سے کیے گئے وعدے پر اب بھی ڈٹا ہوا ہوں۔
یہ زمین بھی میری ماں ہے، اور اکثر ماں سے بڑھ کر رہی ہے۔
میں نے اپنی ماں کو اس حال میں دیکھ کر بھی خود کو نہیں ٹوٹنے دیا،
لیکن اگر زمین کو بھی ماں جیسا بے بس اور لاچار دیکھوں،
تو شاید میں برداشت نہ کر سکوں، شاید میں ٹوٹ جاؤں،
شاید لڑنے کے قابل بھی نہ رہوں۔
اے میری سرزمین!
مجھے میری ماں میری جان سے بھی زیادہ پیاری ہے۔
میں تجھے روتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا،
دل اندر سے بکھر جاتا ہے۔
لیکن اے مادرِ وطن!
جب باری تیری آئے گی،
تو تیرے لیے ایسی ہزاروں مائیں قربان کر دوں گا۔
تیرے لیے ہزار بار تڑپنا برداشت کر سکتا ہوں۔
یقین مانو، اے مادرِ وطن!
تیرا یہ نالائق بیٹا کبھی کمزور نہیں ہوگا،
اور کبھی بھی جدوجہدِ آزادی سے دستبردار نہیں ہوگا۔
میں تجھ سے، تیری قسم کھا کر کہتا ہوں
کہ میں ایسی ہزاروں تکالیف کو گلے لگا کر،
برداشت کرتا رہوں گا۔
اپنی آخری سانس، خون کے آخری قطرے،
اور آخری گولی تک تیرا دفاع کرتا رہوں گا۔
جب تک میرے جسم کا ایک بھی ذرّہ باقی رہے گا،
وہ تیرے لیے قربانی دیتا رہے گا،
وہ دشمن پر قہر بن کر ٹوٹے گا۔
اور اگر واقعی روح کا کوئی وجود ہے
تو میں اپنی روح بھی تیرے نام وقف کر کے فنا ہونا پسند کروں گا۔
تجھ میں سما جانا
میری پہلی اور آخری خواہش ہے۔
اے مادرِ وطن!
میرا وجود تجھ سے جُڑا ہوا ہے۔
اگر تو ہے تو میں ہوں،
اور اگر تو نہیں،
تو پھر کچھ بھی نہیں۔
میرے لیے اب میری ماں، باپ، سب کچھ تُو ہے
اور میں تجھ پر سب کچھ قربان کر جاؤں گا۔
بس، مجھے بطورِ قربانی قبول کر لینا
بس یہی دعا ہے کہ میں ضائع نہ ہو جاؤں،
بس تیرے لیے قربان ہو جاؤں۔
تیرے اس نالائق بیٹے کی بس یہی ایک خواہش ہے۔