ہماری سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ ہم نے پاکستانی فوج کو ذہنی اور نفسیاتی طور پر شکست دے دی ہے۔ بی ایل ایف کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نزر بلوچ کا خصوصی انٹرویو

بلوچ رہنما کا یہ انٹرویو بی ایل ایف کے جانب سے شائع ہونے والے ماہانہ مگزین ’اسپر‘ میں شائع ہوا تھا، زرمبش اپنے قارئین کے لیے اسے زرمبش اردو میں پیش کر رہا ہے۔

سوال 1: پاکستان کے خلاف آپ کی دہائیوں سے جاری جنگ کی سیاسی وجوہات کیا ہیں؟

جواب: بلوچ ایک تاریخی ریاست کے مالک تھے اور ہمیشہ خودمختار حکمران رہے ہیں۔ جب برطانوی یہاں آئے، تو انہوں نے بلوچوں کے ساتھ معاہدے کیے اور بلوچستان پر حکومت کی، مگر پاکستان نے ان معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے طاقت کے زور پر اس پر قبضہ کر لیا۔ بلوچستان ایک آزاد ریاست تھی جہاں کا سربراہ خان تھا اور محمد علی جناح خود بلوچ ریاست کے قانونی مشیر رہے تھے۔ نیپال اور دیگر نوابی ریاستوں کی طرح، بلوچستان بھی آزاد تھا اور مکمل طور پر برطانوی کنٹرول میں نہیں تھا۔ جب برطانیہ نے برصغیر سے واپسی اختیار کی، تو بلوچ ریاست نے نو ماہ تک اپنی آزادی برقرار رکھی۔ اس کی اپنی پارلیمنٹ تھی، جس میں ایوانِ بالا اور ایوانِ زیریں شامل تھے۔ دونوں ایوانوں نے متفقہ طور پر بلوچستان کو آزاد رکھنے کا فیصلہ کیا، مگر پاکستان نے طاقت کے ذریعے اس پر قبضہ جما لیا۔

بلوچ سرزمین قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اور اپنی جغرافیائی حیثیت کے باعث انتہائی اہم مقام رکھتی ہے۔ پاکستان کے دیگر خطے، جیسے پنجاب اور سندھ، اس قدر اہمیت کے حامل نہیں جتنی بلوچستان کی سرزمین ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی نظریں بلوچ سمندر، سیندک، ریکوڈک، اور دیگر قیمتی وسائل پر ہیں اور وہ ان کا بے دریغ استحصال کرنا چاہتا ہے۔ ہماری مسلح جدوجہد محض ایک جنگ نہیں بلکہ ایک نظریاتی اور سیاسی جدوجہد ہے، جو آزادی کے اصول پر استوار ہے۔ بلوچ نسل کشی اس وقت تک جاری رہے گی جب تک ہم اس ظلم کے خلاف کھڑے نہیں ہوتے۔ ہمیں عالمی سطح پر اپنی جدوجہد کو تسلیم کرانے کی ضرورت ہے، کیونکہ ہماری تحریک سے کئی مقامی اور عالمی طاقتیں متاثر ہو رہی ہیں۔ ہمیں ان کی حمایت حاصل کرنی ہوگی تاکہ ہم اپنی جنگِ آزادی میں کامیابی حاصل کر سکیں۔

سوال 2: آپ کے جنگجو اتنے طویل عرصے سے بغیر کسی بیرونی مدد کے لڑنے کی ہمت کہاں سے حاصل کرتے ہیں؟

جواب: ہم نے اپنی آنکھوں سے بلوچستان کے عوام کی غربت اور بے بسی دیکھی ہے۔ ہم نے اپنی زمین پر فوجی جبر کی داستانیں سنی ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ جیوانی کے رہائشیوں کو صرف پانی مانگنے پر گولیوں کا نشانہ بنایا گیا، مشکے کے باسیوں کو خوراک کے لیے احتجاج کرنے پر شہید کر دیا گیا، سوراب میں لوگوں کو بجلی کی مانگ پر خون میں نہلا دیا گیا، اور شال کے واقعات بھی اسی ظلم کی ایک کڑی ہیں۔ ان تمام مظالم نے ہمیں یہ باور کرایا کہ ریاست کو بلوچ عوام سے کوئی دلچسپی نہیں، بلکہ وہ صرف اس سرزمین کے وسائل ہڑپ کرنا چاہتی ہے۔

بلوچ نسل کشی کا سلسلہ ایک عرصے سے جاری ہے۔ جب میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) میں تھا، تو میں نے بلوچستان کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا اور اپنی قوم کے لوگوں کی حالت زار اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ ہمیں یقین ہو چکا تھا کہ پاکستان کبھی بھی بلوچ عوام کا خیرخواہ نہیں ہو سکتا۔ انہی حالات نے ہمیں آزادی کی جدوجہد کے لیے متحرک کیا۔ 1995 میں ہم نے ایک منظم تحریک کی بنیاد رکھی تاکہ بلوچ کاز کو آگے بڑھایا جا سکے۔ ہماری تحریک کسی بیرونی طاقت پر منحصر نہیں بلکہ یہ خالصتاً ایک مقامی اور عوامی جدوجہد ہے۔ بلوچستان کے اندر اور باہر بسنے والے بلوچ سب ہماری آزادی کی جنگ کے حامی ہیں۔ ہماری تحریک کی جڑیں عوام میں مضبوطی سے پیوست ہیں، اور بلوچ عوام اسے اپنی بقا کی جنگ سمجھ کر اس کا ساتھ دے رہے ہیں۔

ہماری جدوجہد نے ہمیں اپنی زبان اور ثقافت کی حفاظت کا حوصلہ دیا ہے۔ ہماری سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ ہم نے پاکستانی فوج کو ذہنی اور نفسیاتی طور پر شکست دی ہے، اور آج وہ خود شدید مالی بحران کا شکار ہے۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ ہم اپنی ایک آزاد اور خودمختار بلوچ ریاست کے قیام میں ضرور کامیاب ہوں گے۔

سوال 3: وہ تاریخی واقعات کون سے ہیں جنہوں نے بلوچ قوم کی سیاسی تحریک کو مسلح مزاحمت کی طرف موڑ دیا؟

جواب 3: بلوچ مزاحمت کوئی نئی بات نہیں بلکہ ہر دور میں بلوچوں نے اپنی سرزمین پر حملہ آور قوتوں کے خلاف مزاحمت کی ہے۔ چاہے وہ مغل ہوں، ترک ہوں یا افغان، بلوچوں نے کبھی غلامی کو قبول نہیں کیا۔ اگر ہم برطانوی دور کی تاریخ دیکھیں تو برصغیر میں سب سے زیادہ مزاحمت بلوچوں نے کی۔ بلوچ تاریخ میں ایسے ادوار بھی آئے جب ہم نے غلامی کی زندگی گزاری، اور آج بھی کچھ سیاسی اور قبائلی عناصر ذاتی مفادات کی خاطر قابض قوتوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود آزادی کی خواہش بلوچوں کے ذہنوں میں گہری جڑیں پکڑ چکی ہے۔ بلوچوں نے کبھی غلامی کو تسلیم نہیں کیا اور اپنی آزادی کے لیے جنگ جاری رکھی۔

پچھلے پچاس برسوں میں پاکستان نے کئی بار بلوچ جنگ کو ختم کرنے میں کامیابی حاصل کی، لیکن موجودہ مرحلے میں یہ تحریک پوری قوت سے جاری ہے، اور پاکستان اسے طاقت کے ذریعے دبانے میں ناکام رہا ہے۔ بلوچ جنگ کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ پچیس سال گزرنے کے باوجود یہ مسلسل آگے بڑھ رہی ہے۔ بلوچوں نے دنیا کو یہ باور کرا دیا ہے کہ وہ اپنی قومی طاقت کے بل بوتے پر اپنی جنگ آزادی کو آگے لے کر جائیں گے۔

سوال 4: اپنے سیاسی اور عسکری مقاصد کے حصول کے لیے آپ کون سی حکمت عملی اپنا رہے ہیں؟

جواب 4: ہم بلوچ سیاسی تحریک کے لیے تمام ذرائع کو حکمت عملی اور تدبر کے ساتھ استعمال کریں گے۔ ہماری جنگ ایک سیاسی جنگ ہے، اور ہم اسے سیکولر بنیادوں پر جاری رکھیں گے۔ ہماری جنگ کا واحد مقصد بلوچ قوم کی آزادی ہے۔ ہم دیگر اقوام اور ریاستوں کے معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے۔ ایک آزاد بلوچ ریاست جوہری اور حیاتیاتی ہتھیاروں کے خلاف جدوجہد کرے گی۔ ہماری خارجہ پالیسی غیر جانبدار ہوگی، اور ہماری ریاست دنیا کے لیے ایک بفر اسٹیٹ (Buffer State) کا کردار ادا کرے گی، جو بلوچ سمندر سے وسطی ایشیا اور روس تک ایک شاندار اقتصادی راہداری بنے گی۔

چاہے دنیا ہماری تحریک کو تسلیم کرے یا نہ کرے، بالآخر وہ اپنے مفادات کے باعث اس کے اثر میں آ ہی جائے گی۔ چین نے بلوچ سرزمین پر بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی، لیکن مسلسل جنگ کی وجہ سے اس کی تمام کوششیں رائیگاں گئیں۔ پاکستان نے جبر کے باوجود گوادر ایئرپورٹ کو فعال کرنے میں ناکامی کا سامنا کیا۔ چین صرف اسلام آباد تک محدود ہو کر رہ گیا ہے اور اس کے 45 ارب ڈالر ضائع ہو چکے ہیں۔ پاکستان کی حیثیت دنیا کے لیے ایک پراکسی (Proxy) سے زیادہ کچھ نہیں، کیونکہ عالمی طاقتیں ابھی تک اسے اپنے مفادات کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔ لیکن بلوچ جدوجہد نے چین-پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے منصوبے کو ناکام بنا دیا ہے۔

بلوچ جنگ عالمی قوانین کے مطابق لڑی جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کا چارٹر تمام اقوام کو خودارادیت اور علیحدگی کا حق دیتا ہے، اور بلوچ اپنی جدوجہد میں انہی اصولوں کی پاسداری کر رہے ہیں۔

سوال 5: آپ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے مسلح جدوجہد کو کس طرح جائز قرار دیتے ہیں؟

جواب: ہماری مسلح جدوجہد بین الاقوامی قوانین کے دائرے میں رہ کر کی جا رہی ہے۔ ہم ایک آزاد ریاست رکھتے تھے، ہمارے دنیا کے ساتھ معاہدے تھے، اور پاکستان کے قیام سے پہلے ہم مکمل طور پر خودمختار تھے۔ ہماری اپنی پارلیمنٹ تھی اور ہم ایک خودمختار ریاست کے طور پر تسلیم شدہ تھے۔ ہم اپنی آزادی کی بحالی کے لیے جنیوا کنونشنز کے تحت اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جیسے دوسری اقوام کو مسلح جدوجہد کا حق حاصل ہے، ویسے ہی یہ حق بلوچوں سے بھی نہیں چھینا جا سکتا۔ اگر پاکستان یہ کہتا ہے کہ کشمیر کے لیے مسلح جدوجہد جائز ہے، تو پھر بلوچستان کے لیے کیوں نہیں؟

آزاد بلوچستان کے قیام کے لیے سیاسی اور مسلح دونوں محاذ ضروری ہیں۔ ہمارا مسلح محاذ مضبوط ہے کیونکہ یہ سیاسی بنیادوں پر استوار ہے۔ جیسے جیسے ہماری تحریک آگے بڑھ رہی ہے، ہمیں اس کی کامیابی کے آثار واضح نظر آ رہے ہیں۔ آج کا جدید بلوچ نوجوان سیاسی طور پر باشعور ہو چکا ہے۔ ہماری موجودہ اور آنے والی نسلیں آزادی کی جنگ لڑنے کے لیے تیار ہیں۔ ایک مظلوم قوم کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے اوپر مسلط جبر کو ختم کرنے کے لیے ہر ممکن جنگ لڑے۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ ہمیں اس حق کے حصول میں مدد فراہم کرے۔

سوال 6: آپ کو کس حد تک یقین ہے کہ بلوچ عوام کی اکثریت آپ کے مقصد کی حمایت کرتی ہے؟

جواب: جب ہم نے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن-آزاد (BSO-Azad) قائم کی اور آزادی کی تحریک کا آغاز کیا، تو لوگوں نے ہمیں کچھ جذباتی نوجوان سمجھا۔ لیکن آج انہی نوجوانوں کی جدوجہد کی بدولت لاکھوں لوگ اس تحریک کا حصہ بن چکے ہیں۔ اس وقت ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل کر ریاستی جبر کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں۔ مقامی بلوچ عوام اس تحریک میں جاری بلوچ نسل کشی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور اس کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں۔ میں تمام سیاسی کارکنوں، لکھاریوں اور تنظیموں کو سراہتا ہوں جو اس تحریک کو آگے لے کر جا رہے ہیں۔ تاریخ ان کے کردار کو ضرور یاد رکھے گی۔

سوال 7: اتنے طویل عرصے سے جاری بلوچ تحریک کو کسی بھی ملک کی طرف سے قابلِ ذکر عسکری اور سیاسی حمایت کیوں نہیں ملی؟

جواب: دیکھیں، پہلے دنیا دو قطبی (Bipolar) تھی، لیکن سوویت یونین کے زوال کے بعد یہ یک قطبی (Unipolar) ہو گئی۔ ہماری جنگ تب شروع ہوئی۔ آج دنیا ایک کثیرالقطبی (Multi-centric) نظام میں تبدیل ہو چکی ہے۔ ہماری جدوجہد اس حد تک کامیاب رہی ہے کہ اسے عالمی قوتوں تک پہنچا دیا گیا ہے۔

بین الاقوامی نظام مخصوص اصولوں کے تحت کام کرتا ہے۔ پاکستان امریکہ اور چین کا ایک پراکسی ہے۔ اس کی فوج پہلے برطانیہ میں تربیت حاصل کرتی تھی اور اب امریکہ اسے ٹریننگ دیتا ہے۔ دنیا میں جہاں بھی کوئی قومی آزادی کی تحریک اٹھتی ہے، وہاں قابض فوج کو بالآخر نکلنا ہی پڑتا ہے، جیسے ویتنام میں امریکی فوج کو جانا پڑا۔ ہم بھی پنجاب کو یہی پیغام دیتے ہیں کہ مزید نقصانات سے بچنے کے لیے بلوچستان سے نکل جائے۔

بلوچ جنگ کو عوامی حمایت حاصل ہے۔ ریاستی جبر، نسل کشی، جبری گمشدگیوں اور ظلم و ستم کے باوجود بلوچ اپنی مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بلوچ سرمچار (آزادی کے جنگجو) اور سیاسی کارکنوں کا عزم ہے کہ ہم کامیاب ہوں گے۔ دنیا کے 140 سے زیادہ سفارت خانے پاکستان میں موجود ہیں، جو بلوچستان میں ہونے والے واقعات کا مشاہدہ کر رہے ہیں اور اپنی پالیسیوں کو اسی کے مطابق ترتیب دے رہے ہیں۔

حال ہی میں جب بیلاروس کا ایک وفد پاکستان میں اقتصادی معاہدے کے لیے آیا تو اس نے دیکھا کہ اسلام آباد کنٹینرز سے گھرا ہوا ہے۔ انہیں اندازہ ہو گیا کہ پاکستان میں سرمایہ کاری محفوظ نہیں۔ جب کسی ملک میں بین الاقوامی کرکٹ ٹیم کھیلنے کو تیار نہ ہو، تو وہاں کوئی سرمایہ کار کیسے سرمایہ کاری کرے گا؟ اسی تناظر میں، ہم ان ممالک سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ بلوچستان میں اپنی سرمایہ کاری ترک کر دیں کیونکہ وہ غیر محفوظ ہے۔ ایک آزاد بلوچ ریاست میں ہم غیر ملکی سرمایہ کاروں کا خیرمقدم کریں گے، لیکن فی الحال ان کے مفادات یہاں غیر محفوظ ہیں۔

سوال 8: کیا آپ پاکستان کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات کے لیے تیار ہیں؟ اگر ہاں، تو کن شرائط پر؟

جواب: ہر جنگ کا اختتام مذاکرات پر ہوتا ہے۔ ہم اقوام متحدہ کی موجودگی میں پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ ہمارا مؤقف بالکل واضح ہے کہ پاکستان کو بلوچستان سے مکمل انخلا کرنا ہوگا اور اپنی فوج واپس بلانی ہوگی۔ عارضی طور پر، اقوام متحدہ کی امن فوج یہاں تعینات کی جائے، تاکہ ایک منصفانہ اور شفاف عمل کے ذریعے بلوچستان کے معاملات طے کیے جا سکیں۔ اس کے بعد، بلوچ اپنی آزاد ریاست کے طور پر پاکستان کے ساتھ ایک ہمسایہ ملک کی حیثیت سے معاملات طے کریں گے۔

سوال 9: پاکستانی میڈیا میں اکثر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ بلوچ ایک آزاد ریاست کو سنبھالنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، اور اگر آزادی ملی تو یہ جنوبی سوڈان کی طرح ایک ناکام ریاست بن جائے گی۔ اس بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟

جواب: پہلے ہمیں آزادی ملنے دیں، پھر دیکھیں کہ ہم اپنی ریاست کیسے چلاتے ہیں۔ ہمارے پاس بہترین انسانی وسائل موجود ہیں، اور ہماری زمین معدنیات سے مالا مال ہے۔ یہ بالکل بے بنیاد اور لغو پروپیگنڈا ہے کہ بلوچ اپنی آزادی برقرار نہیں رکھ سکتے۔ یہ درحقیقت پنجابی دانشوروں کا ایک جھوٹا بیانیہ ہے، جو محض بلوچ عوام کو بدنام کرنے کے لیے پھیلایا جا رہا ہے۔

سوال 10: اگر بلوچستان ایک آزاد ملک بن گیا، تو آپ کی جماعت کس قسم کی حکومت قائم کرنا چاہتی ہے؟

جواب: آزاد بلوچستان میں ایک سیکولر ریاست قائم کی جائے گی، جہاں ہر شخص کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کا مکمل حق حاصل ہوگا۔ ہر قوم کو اپنی زبان اور ثقافت کو فروغ دینے کا حق دیا جائے گا۔ بلوچ ریاست میں تمام شہریوں کو آزادی اور اظہارِ رائے کا مکمل حق حاصل ہوگا۔ قومی وسائل کو مساوی طور پر تقسیم کیا جائے گا اور خارجہ پالیسی غیر جانبدار ہوگی۔ ہم جوہری اور حیاتیاتی ہتھیاروں کے خلاف ہوں گے۔ ایک آزاد بلوچ ریاست فلاحی ریاست ہوگی، جہاں عوام کی فلاح و بہبود اولین ترجیح ہوگی۔

سوال 11: آپ کی طویل جدوجہد کے کیا کامیاب نتائج حاصل ہوئے ہیں؟

جواب: ہاں، ہماری جنگ طویل ضرور ہے، لیکن کسی قوم کے لیے 25 سال کا عرصہ کچھ زیادہ نہیں ہوتا۔ تاہم، اس جدوجہد سے ہمیں بہت سے فوائد حاصل ہوئے ہیں۔ ہم نے اپنی زبان اور ثقافت کو محفوظ بنایا ہے۔ ہماری سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ ہم نے اپنی نئی نسل کو آزادی کی جدوجہد کے لیے تیار کر لیا ہے۔

قومی جنگ میں قربانیاں دینا لازمی ہوتا ہے، کیونکہ آزادی مفت میں نہیں ملتی۔ ان قربانیوں کے نتیجے میں ہماری قوم میں شعور بیدار ہوا ہے، اور ہم نے دنیا کو باور کرا دیا ہے کہ ہم ایک قومی بنیاد پر آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ یہی ہماری سب سے بڑی کامیابی ہے۔

سوال 12: آپ کا عالمی اور علاقائی قوتوں کے لیے کیا پیغام ہے؟

جواب: میں عالمی اور علاقائی طاقتوں سے اپیل کرتا ہوں کہ بلوچستان صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ چین بھی یہاں اپنی فوجی مداخلت کر رہا ہے۔ کسی ملک کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی اور ملک میں جا کر آزادی کی تحریکوں کو دبائے، لیکن چین یہاں آ کر بلوچ آزادی پسندوں کے خلاف سرگرم ہے۔

ہم امریکہ، برطانیہ اور یورپ سے اپیل کرتے ہیں کہ آپ انسانی حقوق کی بنیاد پر اپنی حمایت فراہم کرتے ہیں، لیکن بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے باوجود آپ پاکستان سے تجارتی معاہدے کر رہے ہیں۔ ہم خطے کے ممالک—ایران، افغانستان اور بھارت—سے بھی درخواست کرتے ہیں کہ وہ ہماری حمایت کریں۔ پاکستان کا وجود اس خطے میں امن کے لیے خطرہ ہے، اور دنیا کو بین الاقوامی قوانین کے تحت بلوچوں کی آزادی کی حمایت کرنی چاہیے۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

تربت: فورتھ شیڈول میں شامل سماجی کارکن وسیم سفر کے خلاف غیر حاضری پر سی ٹی ڈی نے ایف آئی آر درج کرلی

بدھ مئی 14 , 2025
تربت: متحرک سماجی کارکن وسیم سفر کو سی ٹی ڈی نے غیرحاضری پر ایف آئی آر درج کرکے قانونی کارروائی کا نشانہ بنایا ہے۔ وہ کئی ماہ سے فورتھ شیڈول میں شامل تھے۔ اس حوالے سے وسیم سفر نے کہا ہے کہ بلوچستان میں ریاستی مقتدرہ قوتوں نے ملکی بین […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ