تحریر: دروشم بلوچ
زرمبش مضمون

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے نام سے بلوچ لاپتہ افراد کے لیے سب سے پہلے احتجاجی کیمپ 2009 میں قائم کیا گیا، جس کی قیادت معروف بزرگ رہنما ماما قدیر بلوچ نے کی، یہ کیمپ جلد ہی بلوچ عوام میں مقبولیت حاصل کرنے لگا۔ اس پلیٹ فارم سے ماما قدیر بلوچ، اسیر رہنما سنگت زاکر مجید بلوچ کی ہمشیرہ فرزانہ مجید بلوچ اور دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین نے آواز بلند کی۔
کیمپ کی مقبولیت کا ایک نمایاں مرحلہ کوئٹہ سے کراچی اور پھر اسلام آباد تک ہونے والا تاریخی پیدل لانگ مارچ تھا، جسے دنیا کا سب سے بڑا پرامن لانگ مارچ قرار دیا گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ کیمپ کو ماما قدیر، بانک حوران بلوچ، بی بی گل اور نصر اللہ بلوچ جیسے سرگرم رہنماؤں کی رہنمائی حاصل رہی۔
13 نومبر کو کیمپ میں یوم شہداء بلوچستان منایا جاتا ہے، جس کی روایت آج بھی جاری ہے اور یہ سلسلہ اب بلوچ شہداء کمیٹی کے نام سے جانا جاتا ہے۔
تاہم، وقت کے ساتھ ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ کیمپ اپنی عوامی مقبولیت اور فعال کردار کھوتا جا رہا ہے۔ کیمپ اب ایک محدود دائرے میں آ چکا ہے جو صرف ماما قدیر بلوچ کے کندھوں پر چل رہا ہے۔ دیگر افراد، چاہے وہ نصر اللہ بلوچ ہو یا کوئی اور، صرف نام کی حد تک سرگرم ہیں۔ نصر اللہ بلوچ جو کہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین ہیں، اب صرف کاغذی حیثیت رکھتے ہیں اور عوامی یا احتجاجی پروگراموں میں دکھائی نہیں دیتے۔
موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے مستقبل پر سوالیہ نشان ہے، جو بلوچ لاپتہ افراد کے اہل خانہ کے لیے ایک تشویشناک بات ہے۔
میری رائے میں اب وقت آ گیا ہے کہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی موجودہ ساخت پر نظر ثانی کی جائے۔ اس مقصد کے لیے ایک خصوصی کابینہ اجلاس بلایا جائے جس میں تمام بلوچ لاپتہ افراد کے اہل خانہ کو اس اجلاس میں شرکت کی دعوت دی جائے۔
اجتماعی مشاورت کے ذریعے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی ایک نئی فعال کابینہ تشکیل دی جائے۔
اس کابینہ میں قیادت و ذمہ داریاں ان اہل خانہ کو سونپی جائیں جو واقعی میدانِ عمل میں سرگرم ہیں، جیسے:
لاپتہ راشد حسین کے اہل خانہ
سنگت زاکر مجید
ڈاکٹر دین محمد بلوچ کے لواحقین
اور دیگر وہ خاندان جو روزانہ کی بنیاد پر کیمپ میں موجود رہتے ہیں۔
اس تبدیلی سے نہ صرف تنظیم میں نئی روح پیدا ہوگی بلکہ احتجاج کی مؤثر آواز بھی دوبارہ بلند ہو سکے گی، جو عالمی اور قومی سطح پر بلوچ لاپتہ افراد کا مقدمہ مزید مضبوطی سے پیش کرے گی۔