تحریر: رامین بلوچ – زرمبش مضمون

بلوچ قومی تحریکِ آزادی تاریخ کے دبیز اوراق میں ایک ایسے ناگزیر باب کی حیثیت رکھتی ہے، جو محدود وسائل اور طاقت کے باوجود پنجابی نوآبادیاتی قوت کے خلاف لافانی جدوجہد کی علمبردار ہے۔ ایک طرف وہ ریاست ہے جو عسکری برتری، جنگی جرائم، اور میڈیا کنٹرول جیسے نوآبادیاتی ہتھکنڈوں کے ذریعے بلوچ مزاحمت کو کچلنے کی کوشش کر رہی ہے؛ تو دوسری جانب بلوچ مزاحمتی قوت ہے، جو قلیل فوجی، مالی اور تزویراتی وسائل کے باوجود آزادی، وقار، شناخت اور بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ یہ جدوجہد ایک منظم، طویل المدت اور نظریاتی تحریک کی درخشاں مثال ہے۔
یہ صرف عسکری محاذ آرائی نہیں، بلکہ سیاسی و تاریخی ناانصافی، نوآبادیاتی قبضے، اور ریاستی جبر کے خلاف ایک فکری اور نظریاتی جنگ ہے، جو آج کے عالمی فوجی اتحادوں کے بیچ اپنی الگ منطق، اصول، اور استدلال کے ساتھ موجود ہے۔
بلوچستان میں جاری مزاحمت کو محض عسکری طاقت یا عددی قوت کے پیمانوں سے جانچنا، اس تحریک کی روح اور فکری بنیادوں سے غفلت برتنا ہے۔ یہ ایک جدلیاتی تصادم ہے —طاقت، نظریہ، اور تاریخ کے درمیان—جس کی جڑیں انسانی آزادی، استعمار کی نفی، اور قومی آزادی جیسے موقف میں پیوست ہیں۔
اگر اس جدوجہد کو عالمی عسکری سیاق میں دیکھا جائے تو اس کی معنویت اور بھی نمایاں ہو جاتی ہے۔ ایک طرف جدید ترین اسلحے، اربوں ڈالر کے بجٹ، اور لاکھوں کی منظم افواج رکھنے والی ریاستیں ہیں —مثلاً بھارت، جو دنیا کا تیسرا بڑا دفاعی بجٹ رکھتا ہے اور 36 لاکھ سے زائد افواج کا حامل ہے؛ اور پاکستان، جس کے آٹھ لاکھ سے زائد فوجی بلوچ سرزمین پر قابض ہیں۔ ان کے مقابل بلوچ مزاحمت نہ تو جدید اسلحہ رکھتی ہے، نہ کوئی باضابطہ ریاستی ڈھانچہ، اور نہ ہی کسی عالمی طاقت کی پشت پناہی۔ اس کے باوجود یہ تحریک ایک طویل، منظم اور اصولی جنگ لڑ رہی ہے جو غیر روایتی جنگوں (Warfare) Asymmetric)کی ایک منفرد اور مؤثر مثال بن چکی ہے۔
یہ جنگ اس بنیادی سچ کو اجاگر کرتی ہے کہ حتمی طاقت نہ صرف بارود سے بلکہ شعور، نظریے، اور اجتماعی ارادے سے جنم لیتی ہے۔ بلوچ مزاحمت ان تمام جدوجہدوں کا تسلسل ہے جو تاریخ میں مقبوضہ اقوام نے سامراجی قوتوں کے خلاف لڑی ہیں۔ یہ صرف بارود سے نہیں، بلکہ فکری بلوغت، قربانی، اور نظریاتی پختگی سے پروان چڑھتی ہے —اور یہی شعور طاقت کے توازن کو بدلنے کی اصل قوت ہے۔
بھارت بلاشبہ ایک علاقائی سپر پاور ہے۔ اس کی افواج بری، بحری اور فضائی محاذوں پر فعال ہیں، اور اس کا دفاعی بجٹ 80 بلین ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔ دوسری طرف پاکستان ہے —ایک "ملٹری اسٹیٹ”—جو برصغیر کی غیر فطری نوآبادیاتی تقسیم کے نتیجے میں ایک مذہبی بیانیے کی بنیاد پر قائم ہوا۔ اس کی ریاستی ساخت، "دو قومی نظریہ”، درحقیقت برصغیر کے ثقافتی، قومی اور تاریخی تنوع کی نفی ہے، جس نے مختلف اقوام کو ایک مرکزی، عسکری و مذہبی ریاستی نظام میں جذب کرنے کی کوشش کی۔ یہی نظام آج بلوچستان، سندھ، گلگت بلتستان اور خیبرپختونخوا جیسے مقبوضہ خطوں پر طاقت کے بل پر حکمرانی کر رہا ہے۔
بلوچستان پر پاکستان نے 27 مارچ 1948 کو عسکری جارحیت کے ذریعے قبضہ کیا۔ بلوچ قوم نے اس دن سے آج تک اس قبضے کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔ اس قبضے کے خلاف مزاحمت ہر دور میں جاری رہی ہے —عسکری، سیاسی، فکری اور سفارتی محاذوں پر۔ گزشتہ پچیس برسوں میں یہ مزاحمت مزید منظم، باشعور اور نظریاتی طور پر مستحکم ہو چکی ہے۔
یہ مزاحمت اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک ایسی قوم، جسے جبری گمشدگیوں، مسخ شدہ لاشوں اور میڈیا بلیک آؤٹ جیسے حربوں سے خاموش کر دینے کی کوشش کی گئی، وہ آج بھی اپنی آزادی کی جنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔ پاکستان کی ریاست ہمیشہ اپنی شکست کا بوجھ بیرونی "سازشوں ” پر ڈال کر حقیقت سے فرار اختیار کرتی ہے۔ بلوچ تحریک کو دہائیوں سے بھارت کی "پراکسی وار” قرار دیا جاتا رہا، لیکن جب خود بھارت حالیہ دنوں میں ایک محدود جھڑپ کے بعد محض تین روز میں جنگ بندی پر آمادہ ہو جاتا ہے، تو یہ بیانیہ خود ہی اپنی موت مر جاتا ہے۔ اگر وہ قوت، جس پر بلوچ تحریک کی پشت پناہی کا الزام ہے، اپنے دفاع میں بھی تسلسل قائم نہیں رکھ سکتی، تو وہ بلوچوں کی دہائیوں پر محیط گوریلا جنگ کو کس طرح سہارا دے سکتی ہے؟
یہاں سوال بیرونی مداخلت کا نہیں، بلکہ تحریک کی داخلی ساخت، نظریاتی تسلسل، اور اجتماعی شعور کی قوت کا ہے۔ بلوچ قومی مزاحمت کی اصل توانائی وہ سیاسی، فکری اور نظریاتی بنیادیں ہیں جو قوم کی اجتماعی یادداشت اور تاریخی تجربے سے جڑی ہوئی ہیں۔ یہ جنگ ان رہنماؤں کے حوصلے سے توانائی لیتی ہے جو زندانوں میں قید ہیں، ان ماؤں کے صبر سے جن کے بیٹے لاپتہ ہیں، اور ان شہداء کے خون سے جو آزادی کے خواب کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ یہ قربانیاں کسی بیرونی ایجنڈے کا نتیجہ نہیں، بلکہ ایک شعوری اور نظریاتی فیصلہ ہیں جو ظلم و جبر کے خلاف مزاحمت کی علامت بن چکی ہیں۔
ریاستِ پاکستان جس عسکری، سیاسی اور نظریاتی برتری کا دعویٰ کرتی ہے، بلوچ مزاحمت نے اس کے ہر ستون کو چیلنج کیا ہے۔ صرف فوجی محاذ پر نہیں، بلکہ سیاسی سطح پر بھی ایک منظم، واضح اور متبادل بیانیہ تشکیل دے کر اسے دنیا کے سامنے بے نقاب کیا ہے۔ مزاحمتی تحریک کی سب سے بڑی دلیل اس کا تسلسل ہے —ایک جدوجہد جو کئی دہائیوں سے بغیر کسی وقفے کے جاری ہے۔ یہ تسلسل اس امر کا ناقابل تردید ثبوت ہے کہ یہ تحریک کسی خارجی امداد کی مرہونِ منت نہیں بلکہ ایک زندہ، باشعور اور نظریاتی قوم کی اپنی جنگ ہے۔
یہ محض ریاستی جھوٹ کی تردید نہیں، بلکہ ایک متبادل سچ، ایک قومی بیانیے، اور ایک انقلابی نظریے کا اثبات ہے۔ بلوچ مزاحمت—بیرونی حمایت پر منحصر ہوئے بغیر —اپنی داخلی قوت، قربانیوں، اور نظریاتی استقامت کے سہارے زندہ ہے اور دشمن کی تمام تر عسکری و نفسیاتی یلغار کے باوجود آگے بڑھ رہی ہے۔
اس کے برعکس، بلوچ قوم—جو نہ کسی باقاعدہ ریاستی فوج کی مالک ہے، نہ جدید ہتھیار، جنگی فضائی طاقت یا عالمی حمایت کی حامل ہے —نے ایک نظریاتی، عوامی اور گوریلا جنگ کے ذریعے ریاستی افواج کو اس نہج پر لا کھڑا کیا ہے کہ آج پاکستان اسٹریٹیجک، عسکری، مالی اور
سیاسی دیوالیہ پن کی کیفیت سے دوچار ہے۔ بلوچ مزاحمت نے ریاست کے اندر ایک مستقل، نفسیاتی اور اخلاقی خوف کو جنم دیا ہے۔
یہ وہی ریاست ہے جو دنیا کی ایک بڑی عسکری طاقت، بھارت، سے عسکری توازن قائم رکھنے کا دعویٰ کرتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر بلوچ قوم کے پاس بھارت جیسی عسکری صلاحیتیں، جنگی ہتھیار، مالی وسائل اور تکنیکی امداد میسر ہوتیں، تو کیا نتائج مختلف نہ ہوتے؟ یقیناً، دنیا یہ دیکھ لیتی کہ جنگیں نظریات، عزم، اور قربانی سے جیتی جاتی ہیں، نہ کہ صرف ہتھیاروں اور ساز و سامان کی کثرت سے۔
بلوچ مزاحمت نے دنیا کے سامنے یہ مثال قائم کی ہے کہ کمزور اور غیر منظم سمجھی جانے والی اقوام، اگر نظریاتی طور پر بیدار ہوں، تو وہ عسکری اعتبار سے طاقتور ریاستوں کو بھی پچھاڑ سکتی ہیں۔
بلوچ، جن کے پاس نہ فضائیہ ہے، نہ ٹینک، اور نہ ہی کوئی عالمی پشت پناہی، وہ اپنے جسموں کو ڈھال بنا کر اور محدود وسائل کے ساتھ اس جنگ کو مسلسل جاری رکھے ہوئے ہیں۔یہ مزاحمت صرف ایک قومی جنگ نہیں بلکہ انسانی آزادی کے فطری حق کی جنگ ہے۔ بلوچ مزاحمت نے دنیا کو یہ سبق دیا ہے کہ ایک نظریاتی قوم، اگر خود پر ایمان رکھتی ہو، تو وہ عالمی عسکری توازن کو بھی بدل سکتی ہے۔
آج جبکہ پاکستان عسکری، معاشی اور سفارتی سطح پر سنگین بحران کا شکار ہے، یہ سوال ایک فکری چیلنج کی صورت اختیار کرتا ہے۔اگر بلوچ قومی تحریک کو بھارت جیسی عسکری قوت، جدید جنگی ٹیکنالوجی، مالی سرمایہ، اورحمایت حاصل ہوتی، تو کیا یہ جنگ اب بھی جاری رہتی؟
غالب امکان یہی ہے کہ یہ تحریک عالمی سیاسی منظرنامے پر ایک فیصلہ کن اور مختصر مزاحمتی ماڈل کے طور پر ابھرتی، کیونکہ بلوچ مزاحمت نے جو کچھ حاصل کیا ہے، وہ کسی عالمی امداد یا دفاعی اتحاد کے سہارے نہیں بلکہ نظریاتی تربیت، عوامی وابستگی، اور تنظیمی حکمتِ عملی کے ذریعے ممکن ہوا ہے۔
بلوچ قوم نے نہ کبھی کسی سپر پاور کی مدد سے اپنی جنگ لڑی، نہ نیٹو جیسے اتحادوں کی پشت پناہی حاصل کی، اور نہ ہی ان کے پاس اربوں ڈالر کے دفاعی بجٹ یا فضائی جنگی صلاحیت موجود تھی۔اس کے باوجود، گزشتہ پچیس برسوں سے بلوچ مزاحمت ایک منظم عسکری حکمتِ عملی، علاقائی فہم، اور بے مثال قربانیوں کے جذبے کے ساتھ آزادی کی جنگ لڑ رہی ہے۔
بلوچ مزاحمت نے جس پیمانے پر پاکستان کو سیاسی، اقتصادی اور اسٹریٹیجک سطح پر نقصان پہنچایا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج پاکستان عسکری اعتبار سے منتشر، معاشی طور پر دیوالیہ، اور سفارتی سطح پر تنہائی کا شکار ہو چکا ہے۔
سی پیک جیسے منصوبے آج بلوچستان میں غیر محفوظ اور غیر یقینی صورتحال کا شکار ہیں۔جب ہم پاکستان کو IMF، چین اور خلیجی ریاستوں کے سامنے مالیاتی رحم کی اپیل کرتے دیکھتے ہیں، تو اس بحران کے پیچھے ایک اہم اور مؤثر عنصر بلوچ مزاحمت ہیں۔
یونانی فلسفی ارسطو کے نزدیک، جنگ اس وقت عقلی اور اخلاقی طور پر جائز ہوتی ہے جب وہ دفاع اور ظلم کے خلاف ہو۔
بلوچ مزاحمت بھی اسی اصول پر قائم ہے: جب ایک قوم کی بقا، اس کی ثقافت، اور اس کی آزادی خطرے میں ہو، تو مزاحمت ایک الٰہی اور اخلاقی فریضہ بن جاتی ہے۔
اس تناظر میں، بلوچ عسکری جدوجہد نے پاکستان جیسی نوآبادیاتی قوت کے پروپیگنڈے کے باوجود ایک جائز دفاعی جنگ کے طور پر اپنی
حیثیت منوائی ہے۔
تاریخ کو محض واقعات کا سلسلہ سمجھنا اس کی معنوی گہرائی کو کم کر دینا ہے۔ وہ نہ صرف وقت کا ریکارڈ ہے، بلکہ انسانی شعور، مزاحمت، تغیر، اور تشکیلِ نو کا مسلسل عمل ہے۔ ایک دانشورانہ بصیرت رکھنے والا ذہن جب تاریخ کے پیہم بہاؤ کا مشاہدہ کرتا ہے، تو اسے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے تاریخ کسی برفانی تودے کی لا امتنائی آہستگی سے سرک رہی ہو؛ خاموش، سرد، اور مسلسل۔ مگر پھر کبھی وہی تاریخ ایک تیز رفتار سیلابی موج بن کر آتی ہے، جو صدیوں پر محیط جمود کو لمحوں میں توڑ ڈالتی ہے۔
زیادہ تر ادوار میں تاریخ آہستہ، خاموش اور غیر محسوس انداز میں آگے بڑھتی ہے۔ یہ وہ لمحے ہوتے ہیں جب بظاہر کوئی بڑا واقعہ رونما نہیں ہو رہا ہوتا، لیکن تہوں کے نیچے سماجی، فکری، اور مزاحمتی قوتیں متحرک ہو رہی ہوتی ہیں۔ جن میں عوام کی سوچ بدلتی ہے، ادارے اندر سے متزلزل ہوتے ہیں، اور نئے خیالات روایات کی دراڑوں میں سرایت کرتے ہیں۔
یہی وہ لمحے ہوتے ہیں جب برفانی تودہ بظاہر ساکن ہوتا ہے، مگر اس کی گہرائیوں میں شدید دباؤ، ترکِ غلامی کی طاقت اور مزاحمت کی حرارت نشود نما پاتی ہے۔جو نوآبادیاتی سماجوں میں مزاحمت کے بیج کاشت کرتاہے، جس سے غلامی کے خلاف آزادی کا تصور جنم لیتا ہے۔پھر ایک لمحہ ایسا آتا ہے، جو صدیوں کا سفر مختصر کر دیتا ہے۔ وہ لمحہ جب بربریت، اور جبرکی شدت تاریخ کے ذخیرہ شدہ مادے کو تحلیل کر دیتی ہے، اور برفانی تودہ پگھل کر سیلابی موج بن جاتا ہے۔ یہی لمحہ انقلاب کا لمحہ ہوتا ہے انقلاب وہ تاریخی منطق ہے جو لمبے جمود کو رد کر کے انسانی ارادے کو قوتِ محرکہ عطا کرتی ہے۔ اسے کسی خارجی سازش یا اچانک واردات سے تعبیر کرنا حقیقت کی توہین ہے؛ یہ داخلی ارتقاء کا وہ نقطہئ انتہا ہے، جب تبدیلی ناگزیر ہو جاتی ہے۔
ہیگل کے مطابق تاریخ کی حرکت محض سطحی نہیں بلکہ داخلی تضادات کی پیداوار ہے۔ ان تضادات کو ہم روزمرہ کی زندگی میں، طاقت اور محنت کے درمیان، مرکز و حاشیہ کے درمیان، اور قابض و مقبوض کے درمیان دیکھ سکتے ہیں۔جب تضاد اپنی انتہاء کو پہنچتا ہے، تو برف پگھلتی ہے اور تاریخ سیلاب بن کر بہہ نکلتی ہے۔، جہاں شعور و عمل، فکر و مزاحمت، اور خواب و حقیقت ایک ہو جاتے ہیں۔
تاریخ نہ تو محض سرد تجزیہ ہے اور نہ ہی فقط جذباتی طوفان۔ وہ ایک دوہری فطرت کی حامل قوت ہے، جو کبھی دھیرے دھیرے سرکتی ہے اور کبھی طوفان بن جاتی ہے۔ اس کا یہ تضاد ہی اسے زندہ رکھتا ہے۔ جو
۔ بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد اس تاریخی عمل کا حصہ ہے جو کئی دہائیوں سے جاری ہے اور جو نہ صرف بلوچ وطن کے اندر بلکہ عالمی سطح پر اہمیت رکھتا ہے۔ بلوچ قوم کی آزادی کی جدوجہد کی فکری طاقت اس کی تاریخی، سماجی اور ثقافتی وراثت میں جڑی ہوئی ہے۔ بلوچ سماج میں آزادی اور خودمختارری کی قدریں ہمیشہ سے موجود رہی ہیں، اور یہ قومی روح کی ایک نمایاں خصوصیت بن چکی ہیں۔
جہاں تک عسکری حکمت عملی کا تعلق ہے، بلوچ مزاحمت کاروں نے میں کم تزویراتی فوجی وسائل اور مالی کمی باوجود یہ ثابت کیا ہے کہ عسکری کامیابی صرف طاقت کی برتری میں نہیں بلکہ حکمت عملی اور مقصد کے واضح ہونے میں پوشیدہ ہے۔ بلوچ گوریلا جنگ کی حکمت عملی، نے بلوچ مزاحمت کو اس قابل بنایا ہے کہ وہ کسی بھی طاقتور نوآبادیاتی بد معاش کا مقابلہ کر سکے۔
مزاحمت کی اس نوعیت میں، جہاں فوجی وسائل کم ہوں، وہاں اس کا انحصار زیادہ تر عوامی حمایت، تنظیمی مہارت اور غیر روایتی جنگی حکمتِ عملیوں پر ہوتا ہے۔ بلوچ مزاحمتی گروہوں نے اسی فلسفے کو اپنانا شروع کیا ہے جہاں اس جدوجہد کو محض طاقت کے ذریعے حل کرنے کی بجائے حکمتِ عملی، سیاسی سفارت کاری، اور عالمی سطح پر حمایت کے ذریعے آگے بڑھایا جا رہا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ وسائل کی کمی بلوچ مزاحمت کے لیے ایک چیلنج ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس جدوجہد کی فکری اور سیاسی طاقت نے بلوچ قوم کو اس مرحلے تک پہنچایا ہے۔ جو ایک واضح مثال ہے کہ حقیقی طاقت صرف مادیت میں نہیں بلکہ نظریہ، حوصلہ اور استقامت میں بھی پوشیدہ ہوتی ہے۔
جو بلوچ آزادی پسند سیاسی جماعتوں، رہبروں، کیڈروں، گوریلا جنگجوؤں، بلوچ سفارت کاروں، پناہ گزین دانشوروں، لکھاری اور ادیبوں کی روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکی ہے۔ یہ وہ شعور ہے جو ریاست کے جبر، میڈیا کی بلیک آؤٹ، اور عالمی خاموشی کے باوجود بلوچ مزاحمت کو ایک عظیم انسانی جدوجہد میں تبدیل کرچکاہے۔