
بی ایل ایف کے میڈیا سیل ‘آشوب’ کی جانب سے بلوچ قومی رہنما اور بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سربراہ، ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کا 30 منٹ پر مشتمل ویڈیو پیغام جاری کیا گیا ہے، جس میں ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ میں سننے والوں سے اس لئے اردو میں بات کررہا ہوں تاکہ جو عام آدمی ہے یا پنجابی دانشور اچھی طرح سمجھ لیں کہ آزادی کی جدوجہد کیا ہوتی ہے اور کالونیل پاور یا سامراجیت کیا ہوتی ہے لہذا بلوچ قوم اپنی کھوئی ہوئی آزادی یا چھینی ہوئی آزادی کے لئے جدوجہد کررہی ہیں اور تمام بین الاقوامی اصولوں کو بروئے کار لارہی ہے اگر کوئی منافقت نہ کریں خاص کر میں پنجابی اور بلوچ ففتھ کالمسٹ ہیں یا دانشور ہیں ان سے مخاطب ہوں۔
بلوچوں کی آزادی کی جدوجہد کو بین الاقوامی سطح پر جو پذیرائی اور قبولیت حاصل ہو رہی ہے، اس نے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ کیونکہ جب کوئی ریاست فاشزم، شاونزم، اور مظالم پر مبنی ہو جیسا کہ پاکستان تو وہ خود کو عالمی سطح پر بے نقاب ہوتے دیکھ کر گھبرا جاتی ہے۔
پاکستان نہ صرف ایک شاونسٹ ریاست ہے جس پر پنجاب کی بالادستی قائم ہے، بلکہ اسے دنیا کی تمام منفی اصطلاحات کا عملی نمونہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ "روگ اسٹیٹ” (rogue state)، "ڈیپ اسٹیٹ”، "آئبرڈ رجیم” یہ سب اصطلاحات پاکستان پر پوری اترتی ہیں۔ اس کی فوج دراصل ایک پراکسی فورس کے طور پر کام کرتی ہے، جو عوامی مفادات کی بجائے اپنے مخصوص مقاصد کے تحت سرگرم ہے۔
اسی بیانیے کو توڑنے کے لیے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اپنے گماشتوں کے ذریعے جھوٹا تاثر قائم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ ان میں سابق نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ شامل ہیں، جو تنخواہوں میں اضافے جیسے ذاتی مفادات کے لیے پیش پیش رہے، اور موجودہ وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی بھی، جنہیں عوام کی نہیں بلکہ جی ایچ کیو کی نمائندگی حاصل ہے۔
سرفراز بگٹی سے میرا بس اتنا کہنا ہے کہ غلام حسین مسوری بگٹی کی قبر آپ پر لعنت بھیج رہی ہے — وہ بگٹی، جس نے اپنے وطن کے لیے قربانی دی، اور آپ نے اسی وطن سے غداری کی۔ آپ بلوچ قومی جنگِ آزادی کے خلاف اس فاشسٹ سوچ کے پیروکار بن گئے ہیں، جو جنرل گریسی جیسے انگریز سامراجیوں کی باقیات ہے۔ آپ نے غلام حسین مسوری بگٹی کی قربانیوں کو روند ڈالا ہے۔
میں اس بحث کو یہاں نہیں بڑھاتا، لیکن تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ہر فاشسٹ ریاست جب اندرونی طور پر کمزور ہوتی ہے تو آزادی کی تحریکوں کو کچلنے کے لیے بے رحمانہ طریقے اختیار کرتی ہے۔ آج بلوچ جنگِ آزادی کے سرمچار، سوشل ایکٹیوسٹ، معصوم نوجوان جیلوں میں قید ہیں، صرف اس لیے کہ وہ اپنی شناخت اور حقِ آزادی کی بات کرتے ہیں۔
یہ ریاست ہر وقت اپنے لیے دشمن تراشتی ہے، کیونکہ وہ اندر سے کھوکھلی ہو چکی ہے اخلاقی طور پر شکست خوردہ ہے۔ اسی لیے غیر مہذب حرکتیں کی جا رہی ہیں، اور پوری قوم کو "بلوچ شاونسٹ” یا "بلوچ ایکسٹریمسٹ” کہہ کر بدنام کیا جا رہا ہے۔
لیکن سچ یہ ہے کہ: نہ بلوچ شاونسٹ ہیں، نہ انتہاپسند۔
ہم انسان دوست ہیں، آزادی پسند ہیں، اور اپنے حقِ خودارادیت کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
بلوچوں کے بیانیے کو جو حالیہ بین الاقوامی سطح پر پذیرائی ملی ہے، اُس سے گھبرا کر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے ایک نیا بیانیہ گھڑنے کی کوشش کی ہے — کہ گویا بلوچ پنجابیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ سات لاکھ فوج، اور اگر ریٹائرڈ اہلکاروں کو شامل کیا جائے تو بیس سے پچیس لاکھ افراد، بلوچ وسائل پر قابض ہیں اور انہی وسائل سے ہماری نسل کو کچلا جا رہا ہے۔
عام پنجابی سپاہی کسی جاگیردار یا سرمایہ دار کا بیٹا نہیں، وہ بھی ایک عام پنجابی ہے لیکن وہ ایک ایسے نظام کا آلہ کار بن چکا ہے جو نہ اسے بخشتا ہے، نہ ہمیں۔
لیکن پڑھے لکھے پنجابی کو بھی اس کا احساس نہیں ہے کہ بلوچ محکوم ہے، مظلوم ہے، ہم نے قبضہ کیا ہوا ہے لیکن ہم کو چاہئیے ہم اس بدمعاش ریاست کی بدمعاش آرمی کے ساتھ نہ رہیں۔
لیکن ہمیں دوستی نہیں ہے نفرت ہے اس بیانیہ سے جو یہ پنجابیوں کے قتل عام یا عام سویلین کی جو خود پنجاب کررہی ہے اسکے ہم مخالف ہیں کیونکہ ہمیں تاریخ میں اس کی مثال ملتی ہے لیاقت علی خان نے پاکستان بنایا، اس کو مار ڈالا، بھٹو نے کانسٹیٹول نام نہادی ایٹمی پاور دی اس کو قتل کردیا، بے نظیر کو خود ان لوگوں نے قتل کیا، لیاقت علی خان کے جو قاتل ہیں ان کو ابھی تک مراعات مل رہی ہیں جو انکے نواسے ہیں پوتے ہیں، پڑ پوتے ہیں کچھ کو باہر بھیجا گیا تو لہذا بلوچ جنگ آزادی کے خلاف اعلی اسکیلیشن آپریشن ہورہی ہے جہاں انکی فوج نفسیاتی طور پر شکست کھا چکی ہے تو ایک بیانیہ بنا رہے ہیں۔
میں یہ بات واضح کردوں کہ صرف ایران اور افغانستان میں بلوچوں کو نہیں مارا گیا ہے جیسے کہ اس کا سابقہ فوجی ڈکٹیٹر نے خود کہا کہ اب پرو ایکٹیو عمل کریں، دنیا میں جہاں بھی بلوچ ہیں مارے جائیں ، مثال کے طور پر کینیڈا میں بلوچ رہنماء لمہ کریمہ بلوچ بلوچ اور بلوچ دانشور ساجد حسین کو سوئیڈن میں مارا گیا۔
اور اپنے ہی پنجابی گورائیہ کو مارنے کیلئے برطانیہ سے لوگ بھیجے یہ دنیا کے سامنے سب سے بڑی واضح مثال ہے اور جو لندن کا جو واقعہ ہوا اس میں بھی پاکستان شامل ہے۔
دنیا میں جدھر بھی بلوچ ریفیوجیز ہیں ہم اقوام متحدہ سے یہ اپیل کرتے ہیں اور ان ممالک سے یورپی یونین سے ، امریکہ سے، کینیڈا سے، عرب ممالک جو ہمسایہ ممالک ہیں سب سے اپیل کرتے ہیں کہ یہ جو پالیسی ہے آپ کا اخلاقی اور انسانی فرض بنتا ہے کہ آپ بلوچوں کی حفاظت کریں جو ہمارے پاس انفارمیشن ہیں جو ہمارے مہاجرین یا ڈائسپورا کو جو تھریٹس مل رہے ہیں وہ خواہ کسی بھی تنظیم سے تعلق رکھتے ہوں لیکن بحیثیت قوم یہ ہمارا فرض بنتا ہے کہ پوری دنیا سے اپیل کریں کہ جی اس بدمعاش آئی ایس آئی کو لگام دینا اور اسے دہشت گرد ڈکلیر کریں تاکہ دنیا ایک ایسے ناسور سے بچ جائے جو کینسر کی شکل اختیار کر چکا ہے ۔
برطانیہ بھی کہہ رہا ہے، یورپی یونین بھی کہہ رہا ہے، امریکہ بھی کہہ رہا ہے، افغانستان بھی کہہ رہا ہے تو لہذا اس پر پابندی لگا دیا جائے اور بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اسکے وزیر دفاع کہتا ہے کہ جی تیس سال سے ہم نے پراکسی کی وار لڑی ہے لہذا یہ کرایہ کی فوج ہے کیونکہ عاصم منیر یہ کہتا ہے کہ جی یہ کلمے کی بنیاد پر بنا ہے جی آپ کا پیش روح جنرل ضیاءالحق نے اردن میں دو دن میں دس ہزار فلسطینی کو مار دیا تو اسرائیل کہتا ہے کہ ہم نے اتنے 1948 سے اب تک لوگ نہیں مارے۔ جب یہ بریگیڈیئر تھا صرف دو دن میں پاکستان آرمی نے اردن میں فلسطینی مہاجرین کو مار دیا۔ یہ ہے ان کا سب سے بڑی کرتوت جو خود کو کہتا ہے کہ ہم کلمے کی بنیاد پر بنے ہیں۔
یہ کہتے ہیں ہم بیت المقدس کے حامی ہیں لیکن بیت المقدس کے باسیوں کو جتنا اسرائیل نے نہیں مارا اتنا انہوں نے دو دن میں مارا ہے باقیوں کو آپ چھوڑدیں۔
یہ ان کا واضح مثال ہے اسلام دوستی کا ، لیکن یہ خود کو نام نہاد مسلمان کہتے ہیں۔
اگر یہ مخلص ہوتے تو محمود عباس سب سے پہلے پاکستان آتا ،انڈیا نہیں چلا جاتا تو یہ ان کے کرتوت ہے،
بلوچ پر واضح ہوں، مظلوم سندھی پر بھی واضح ہوں۔ یہ کے پی کے پشتونخواہ اور افغانستان کو یہ اپنا پانچواں صوبہ مانتے ہیں تو نہ افغانستان نے پاکستان کو تسلیم کیا تھا اور نہ ڈیورنڈ لائن کو قبول کیا تھا تو اس لئے وہ اپنا بدلہ لینے کے لئے افغانستان میں بے گناہ لوگوں کو جلال آباد میں مارا، قندھار میں مارا ،ہلمند میں مارا ، اس نے کئی جگہوں پر بمبارمنٹ کی اور بارڈر مظلوم افغانوں کو مارا ہے۔
"جو افغان بھائی یہ کہتے ہیں کہ وہ بلوچوں کے چچا یا ماموں ہیں، تو یہ رشتے ہماری آنکھوں پر، ہم ان کی قدر کرتے ہیں۔
لیکن خیبر پختونخوا کے پشتون لیڈروں سے ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جب افغان فوج پنجابی حکمرانوں کے ساتھ مل کر حملے کرتی ہے، تو یہ بات ہمیں تکلیف دیتی ہے۔
اگر آپ واقعی ہمارے بھائی اور ہمسائے ہیں، تو میرے خیال میں آپ کو بھی یہ تکلیف محسوس ہونی چاہیے۔
ہمیں دکھ ہے کہ آپ اپنے لوگوں کو صحیح طریقے سے آگاہ کرنے میں ناکام رہے ہیں—شاید "ناکامی” سخت لفظ ہو، مگر حقیقت یہی ہے۔
آپ اپنے لوگوں کو ایجوکیٹ کریں کہ یہ مظلوم لوگ ہیں، انہیں اس لڑائی کا حصہ نہ بنائیں۔
جس طرح ہم نے عمان میں ظفاریوں کی جنگ کے وقت مخالفت کی تھی جب کچھ بلوچ وہاں لڑنے گئے تھے، حالانکہ وہ کہتے تھے کہ ہم وہاں کے رہائشی بلوچ ہیں۔
ہم نے بحیثیت قوم کہا تھا کہ بلوچ جہاں بھی ہو، وہ بلوچ ہے—وہ نسل، خون اور ہڈی کے رشتے سے بلوچ ہے، اور اسے ایسے تنازعات کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔”
جب یہ سب کچھ ناکام ہوگیا تو اس نے افغانستان میں آئی ایس آئی کو سرگرم کیا۔ ادھر اپنے لوگوں کو مار رہی ہے اور افغانیوں کو بھی مار رہی ہے۔ایک واقعہ مہرستان ایران میں بھی پیش آیا ۔ڈاکٹر حامد جب وہ پکڑا گیا تو وہ سارے ریکارڈ ہمارے پاس موجود ہے کہ جی آئی ایس آئی کیا کھیل کھیل رہی ہے کہ اپنے بندوں کو مارو اور نام بلوچوں کا دوں۔
تاکہ معصوم لوگوں کو مارو، اپنے لوگوں کو مارو کیونکہ یہ ایک تاریخی، آپ پانچ ہزار سالہ تاریخ میں دیکھیں کہ جدید قومی ریاست میں جہاں آمر، فاشسٹ ،روگ اسٹیٹ رہی ہے ان کا اصول یہی رہا ہے کہ اپنے بندوں کو مارو اور جو اپنی قومی آزادی اور حقوق کے لئے جدوجہد کررہے ہیں تو ان کو قومی اور بین الاقوامی حوالے سے بدنام کیا جائے،مہرستان مگس میں پتہ نہیں کتنے لوگوں کو مارا ہے یہ ان کی سب سے بڑی سازش ہے۔
تو لہذا ہم اقوام متحدہ سے اور اپنے ہمسایہ ممالک ایران اور افغانستان سے اپیل کرتے ہیں انڈیا جو ہمارے ہمسایہ ہے اس سے بھی اپیل کرتے ہیں یہ آپ لوگوں کا انسانی اور اخلاقی فرض بنتا ہیکہ آپ اس فاشسٹ ریاست کے خلاف مداخلت کریں اور انکی بدمعاشیوں کو پوری دنیا کو دکھائیں جہاں تک افغانستان کے نمائندے نے کہا کہ جی آئی ایس آئی ایس کو پاکستان ڈیولپمنٹ کررہی ہے اور امریکہ نے اس کی تصدیق بھی کردی ہے اور ہم ایران سے بھی یہی مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ بلوچوں کی حفاظت کریں۔
اور آپ اس حقائق کو سامنے لائیں کہ کس طرح بدمعاش ریاست کے ہمارے پاس ثبوت ہیں کہ بریگیڈیئر اور کرنل لیول کے جو لوگ ہیں جن کو ہم نے پکڑا ہے جنہوں نے خود تسلیم کیا ہے کہ جی ہمیں یہ ٹاسک دیا گیا ہے تاکہ بلوچوں کی آزادی کے بیانیے کو جو جائز ہے دنیا میں اس کو کمزور کیا جائے اور پنجاب کہتا ہے کہ انڈیا ان کو سپورٹ کررہا ہے ایران مدد کررہی ہے افغانستان مدد کررہی ہے۔ کاش ایران، افغانستان اور انڈیا ہمارے قریبی ہمسائے ہیں یہ ہمیں مدد کرتے۔
میں نے پہلے بھی کہا ہے اب بھی کہتا ہوں کہ ایران آپکا اخلاقی فرض بنتا ہے،افغانستان آپ کا اخلاقی فرض بنتا ہے اور انڈیا آپکا اخلاقی فرض بنتا ہے آپ ہماری مدد کریں ہم چشم آپ کی پوری دنیا کی مڈل ایسٹ اور یورپی یونین کی امریکہ کی اور دنیا کے تمام مہذب ممالک سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ جو روگ اسٹیٹ ہے وہ جو بیانیہ بنا رہی ہے کہ جی بلوچ عام پنجابی کو جیسا کہ انورالحق کاکڑ نے کہا تھا ایک بیانیے بنانے کے لیے کہ جی بلوچستان میں پنجابی خرگوش،کچھوا پتہ نہیں کیا سب کچھ حلال ہے ۔ جی نہیں
نشتر ہسپتال ملتان میں کس نے مارا اب پنجاب اور پنڈی سے جو ہمارے لوگ غائب ہو رہے ہیں ابھی جو ہماری سوشل ایکٹیوسٹ مارے جا رہے ہیں۔
ہمسائے ممالک میں جو آپکا کردار ہے ماشاءاللہ وہ آپ کو مبارک ہوں
اپنے بندوں کو مارو مہرستان میں مار دیا آپ نے، افغانستان میں اپنے لوگوں کو مار دیا۔ پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں اپنے لوگوں کو ماررہے ہیں۔
"لہٰذا ہم اپنی ففتھ کالمسٹ (فکری غداروں) اور پنجابی دانشوروں سے کوئی خاص توقع نہیں رکھتے۔ لیکن انہیں اپنی conscious guilt (باطنی شرمندگی) کا احساس ضرور ہونا چاہیے، کیونکہ یہ بلوچ قوم کی تین دہائیوں پر مشتمل جدوجہد ہے، اور اس میں کسی عام پنجابی کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔
جب ہم خود مظلوم ہیں، ہمیں مارا جا رہا ہے، اور ہمارے پاس اس کے ثبوت موجود ہیں — جیسے بلوچستان میں ہم نے کرنل سطح کے افسران کو گرفتار کیا۔
یہ واضح ثبوت ہیں کہ ریاستی ادارے خود اپنے لوگوں کو مرواتے ہیں اور پھر الزام بلوچوں پر ڈال دیا جاتا ہے۔
لیکن ہماری تاریخ، روایات، اخلاقی اقدار، قومی آزادی کی تحریک اور ہزاروں سال پرانی ثقافت ہمیں یہ اجازت نہیں دیتی کہ ہم کسی بے گناہ مزدور کو ماریں۔
ہاں، بعض واقعات میں جیسے پسنی میں، ہمارے دوستوں نے جسے مزدور سمجھ کر نشانہ بنایا، بعد میں معلوم ہوا کہ وہ ایم آئی (ملٹری انٹیلیجنس) کا افسر تھا — اور جسے بچانے کے لیے ہوائی جہاز بھی بھیجے گئے۔
صرف وہ چند مزدور جنہیں دکی میں نشانہ بنایا گیا، دراصل وہ بھی عام مزدور نہیں تھے — اور پھر ریاست خود انہیں لینے بھی نہیں آئی۔”
لیکن ہم پھر دوبارہ پنجابی دانشور اور عام پنجابی آپ کوکہتے ہیں جی آپ ہم سے محبت کی توقع نہ رکھیں جو آپ کے بچے کر رہے ہیں اس میں آپ کی مرضی شامل ہے آپ کے باقی بچے بھی پڑھ رہے ہیں اس کی تنخواہ سے وہ بھی ہمیں مارنے کیلئے۔
تو لہذا ہم بین الاقوامی اداروں سے توقع رکھتے ہیں کہ پاکستان کی اس مجرمانہ اعمال کی جہاں بلوچ مہاجرین ہیں جہاں جیسے کہ آپ لوگ جانتے ہیں کہ جی آئی ایس آئی بدمعاش روگ آرگنائزیشن ہے دنیا کی۔ ہم اقوام متحدہ سے اپیل کرتے ہیں کہ اس پر پابندی لگایا جائے اور جن معصوم لوگوں کو آئی ایس آئی نے قتل کیا ہے افغانستان میں قتل کیا ہے یا ایران مہرستان میں قتل کیا ہے ہم اسکی مذمت کرتے ہیں۔
اس لیے مذمت نہیں کرتے ہیں کہ ہمیں محبت ہے اس لیے ہم مذمت کرتے ہیں کہ یہ ہماری اخلاقی اقدار اور بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے ہماری ہمیشہ جنگ اگر پاکستان سگنیٹری ہے تو جنیوا کنونشن میں All Means of Struggle کی ہمیں اجازت ہے جیسا کہ اگر کشمیر کے لیے جائز ہے تو بلوچوں کے لیے بھی جائز ہے ۔
باقی میں اپنے تمام بلوچ آزادی پسندوں کو تمام بلوچ مظلوم محکوم قوم کو کہنا چاہتا ہوں نوجوانوں کو کہنا چاہتا ہوں ہر نوجوان ہر نیا آنے والا نسل پہلے سے زیادہ مضبوط، توانا اور زیادہ باعلم ہوتا ہے، میں ان سے اپیل کرتا ہوں کہ جی بےشک آپ پڑھ لیں لیکن اپنے جنگ آزادی میں بھی عملی شراکت کے لئے بندوق اٹھائیں، اس کے خلاف کیونکہ اس ناجائز ریاست کے خلاف مولانا فضل الرحمان کے والد مفتی محمود نے بھی مخالفت کی تھی۔
برصغیر کے سب سے بڑے مولانا عبدالکلام آزاد نے مخالفت کی تھی ، مودودی نے بھی مخالفت کی تھی۔
بلوچستان میں مولانا عرض محمد اور صالح محمد نے فتوی دیا تھا کہ جی یہ ناجائز ریاست ہے اس کے خلاف جنگ لڑو۔
مولانا عبدالحق صاحب تھے جماعت اسلامی کے میں اس کا بھی گواہ ہوں کہ اس نے کہا جنگ لڑو۔
لہذا جہاں ان مظلوموں کو آئی ایس آئی خود قتل کرتا ہے تو ہم اسکی بھرپور مذمت کرتے ہیں خواہ وہ ایران مہرستان کا واقعہ ہوں خواہ وہ افغانستان کا واقعہ ہوں خواہ وہ بلوچستان کے اندر ہوں ہم اسکی بھرپور مذمت کرتے ہیں اور ہم بار بار کہہ رہے ہیں کہ جی اگر پنجابی ہمیں مارنے کیلئے دنیا سے بھیک مانگتا ہے، بلوچستان قتل گاہ بن چکا ہے ایک مذبح خانہ بن چکا ہے تو میں پوری دنیا سے اپیل کرتا ہوں کہ بلوچوں کی مدد کریں اور خاص طور پر میں ہمسایہ ممالک سے انڈیا سے پرزور اپیل کرتا ہوں کہ جی آپ ہماری مدد کریں۔ آپ نہیں کررہے ہیں پھر بھی آپ پر الزام لگ رہا ہے، افغانستان سے بھی ہم اپیل کرتے ہیں کہ جی آپ مدد نہیں کر رہے ہیں آپ ہماری مہاجرین کا دفاع نہیں کرسکتے اور ایران سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ ہماری مہاجروں کی یہ تو بین الاقوامی قوانین کے تحت ہے کہ جو مجبوریاں ہیں آپ ان کو مدنظر رکھتے ہوئے انکا تحفظ کریں۔
ہم ایران اور افغانستان سے اپیل کرتے ہیں کہ جی نہ صرف ہمارے مہاجروں کو تحفظ دیں بلکہ آپ ہماری عملا مدد کریں۔
انڈیا سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ یہ جو لوگ الزام لگاتے ہیں کہ اگر ایران، انڈیا اور افغانستان بلوچوں کو مدد کرتے تو عاصم منیر صاحب کو لائن آف کنٹرول میں جانے کی ضرورت نہیں تھی ۔
آپ اگر پنجگور میں ہوتے، تربت میں ہوتے یا دالبندین میں ہوتے تو لہذا میں بار بار یہ کہتا آرہا ہوں اپنے بلوچ نوجوانوں کو اپنے مظلوم قوم کو پنجابی دانشوروں کو ساتھ ساتھ افغان بھائیوں کو اٹھو لڑو ابھی لڑنے کا وقت ہے سندھی بھائیوں سے کہوں گا کہ وڈیروں کے چنگل سے نکل جاؤ اور میں ان بلوچ کو کہوں گا کہ بلوچستان میں کوئی طبقہ نہیں ہے صرف دو طبقے ہیں ایک ظالم ہے ایک مظلوم ہے۔ ظالم جو مخبر ہوتا ہے وہ بھی پنجابی کے کھاتے میں چلا جاتا ہے اگر ظالم مظلوم قوم کی سردار ہے یا زردار ہے یا چرواہا ہے جو ریاست کے پاس رہتا ہے وہ ظالم کے حصے میں شمار ہوتا ہے۔
تو لہذا میں اپیل کرتا ہوں کہ یہ دشمنی زیادہ نہیں رہتی ہے بنگلا دیش میں آپ لوگوں نے حالت دیکھ لیا اور جو نسل کشی آپ لوگ کررہے ہیں جنرل ڈائر نے جلیانوالہ باغ میں جو خونریزی کی پھر برطانیہ کے وزیر اعظم نے جاکر وہاں معافی مانگا۔
جو ابھی ہے، آپ جا کر اپنی حالت دیکھ لیں۔ میں ایک بات واضح کرنا چاہتا ہوں: اگر انڈیا میں اتنی جرات ہے، تو وہ وہی 93 ہزار بندوقیں جو پاکستان سے ہتھیار ڈالنے کے وقت چھینی گئی تھیں، ہمیں دے دے — ہر بندوق کے ساتھ صرف دس گولیاں ہی دے دیں، پھر دیکھتے ہیں کہ پاکستان کیسے لڑتا ہے۔
نہ ہمیں ایٹمی بم کی ضرورت ہے، نہ میزائلوں کی۔ آپ ہمیں صرف وہی بندوقیں دے دیں۔
یہ تمام افواہیں، تمام پروپیگنڈے — جنہیں آج دنیا ‘بلیک پروپیگنڈہ’ کہتی ہے — یہ سب پاکستان کی بدمعاش ریاست کی پیدا کردہ ہیں۔ لیکن اب دنیا بدل چکی ہے؛ سوشل میڈیا ہے، انٹرنیٹ ہے، اور دنیا ان تمام بدمعاشیوں کو جان چکی ہے۔
میں بلوچ قوم سے ایک بار پھر گزارش کرتا ہوں کہ وہ بلوچ قومی جنگِ آزادی میں عملی طور پر شریک ہوں اور ان لوگوں سے دور رہیں جو اس جدوجہد کے خلاف ہیں۔”
بلوچستان زندگ بات
بلوچستان پائندگ بات
بلوچ راج آجو بات