“آپریشن سندور” اور بلوچ وطن میں جاری پاکستانی ریاستی بربریت

زرمبش اداریہ

منگل اور بدھ کی درمیانی شب جب بہاولپور، مظفرآباد، فیصل آباد اور کھوٹلی کی فضاؤں میں دھماکوں کی گونج سنائی دی تو یہ محض پاکستان کی مصنوعی اور غیر فطری جغرافیائی سرحدوں پر پڑنے والے دھچکے نہیں تھے، بلکہ نوآبادیاتی ریاست کے عسکریاتی فریب اور خطے میں دہشت گردی کے ذریعے طاقت کے توازن کو بگاڑنے والی پالیسیوں پر پہلا کھلا بین الاقوامی چیلنج بھی تھا۔ ’’آپریشن سندور‘‘ کے تحت بھارت نے پاکستان کے ان مقامات کو نشانہ بنایا جنہیں اس نے دہشت گردی کے مراکز قرار دیا وہی مراکز جو برسوں سے کشمیر میں دہشت گردی اور بلوچ سرزمین پر قتلِ عام، جبری گمشدگیوں، مسخ شدہ لاشوں، اجتماعی قبروں، اور آبادیاتی یلغار کے پس پردہ موجود ہیں۔

یہ حملے خطے میں محض ایک علاقائی کشیدگی کا اظہار نہیں بلکہ بلوچ قومی تحریک کے لیے ایک علامتی لمحہ ہیں۔ وہ عسکری گروہ، جنہیں پاکستانی ریاست نے بلوچ تحریکِ آزادی کو کچلنے کے لیے استعمال کیا جیش محمد، لشکرِ طیبہ، اور دیگر پرائیویٹ ملیشیاء ہیں ،وہی اب بھارتی نشانے پر ہیں۔ بہاولپور اور مظفرآباد جیسے مراکز برسوں سے خطے کے امن کو تہ و بالا کرنے اور بلوچ تحریک کے خلاف "ریاستی پراکسی دہشت گردی” کی نرسریاں رہے ہیں، جن کی پشت پناہی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور دیگر ادارے کرتے رہے ہیں۔

بلوچ سرزمین پر جہاں انسانی حقوق کی کوئی گنجائش نہیں، وہاں ان ملیشیاؤں نے ریاستی سرپرستی میں ایسے جرائم کا ارتکاب کیا جن پر عالمی خاموشی ایک مجرمانہ چشم پوشی کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ یہ کاروائیاں اس حقیقت کو مزید واضح کرتی ہیں کہ بلوچ سرزمین پر جو کچھ ہو رہا ہے، وہ داخلی سیکیورٹی مسئلہ نہیں بلکہ ایک مکمل نوآبادیاتی جبر ہے—جہاں قابض ریاست اپنی کمزوری چھپانے کے لیے مذہبی دہشت گردی کو ہتھیار بناتی ہے۔

ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ بلوچ مزاحمت کے معمار بابا مری نے کہا تھا:
"کمزور پر غصہ ٹھنڈا نہیں ہوتا اور طاقتور کو دیکھ کر غصہ نہیں آتا”۔

یہ جملہ آج کے حالات پر حرف بہ حرف صادق آتا ہے۔ پاکستانی ریاست کا سارا غصہ بلوچ عوام پر نکلتا ہے، کیونکہ وہ جانتی ہے کہ بلوچ نہتے ضرور ہیں، مگر نظریاتی اور سیاسی لحاظ سے ناقابلِ شکست ہیں۔ اور اسی لیے ریاست اپنے پراکسی دستوں کے ذریعے خوف، قتل اور جبر کو بلوچ سرزمین پر مسلط کرتی ہے۔

آج جب انہی پرائیویٹ عسکری مراکز کو بھارت سے جواب ملا ہے تو سوال یہ نہیں کہ پاکستان کی سو کالڈ خودمختاری پر ضرب لگی، بلکہ سوال یہ ہے کہ بلوچ خودمختاری، بلوچ انسانی وقار، اور بلوچ سرزمین کی حرمت پر جو چوٹیں برسوں سے لگ رہی ہیں، کیا وہ کسی عالمی جواب کی مستحق نہیں؟

یہ وقت ہے کہ عالمی ضمیر بیدار ہو، اور اس خونی نوآبادیاتی کھیل کا پردہ چاک کرے۔ بلوچ سرزمین پر انسانی حقوق کی پامالی، نسلی صفایا، جبری گمشدگیاں اور نام نہاد ترقیاتی منصوبوں کے پیچھے چھپے فوجی عزائم اب کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ "آپریشن سندور” اگرچہ بھارتی کی جنگی حکمت عملی کا حصہ ہے، لیکن یہ بلوچ قومی سوال کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے کا ایک موقع بھی بن سکتا ہے اگر بلوچ دانشور، مزاحمت کار، اور عالمی برادری اس حقیقت کو پوری شدت سے بیان کریں کہ ریاستی دہشت گردی کا سب سے پہلا اور مستقل ہدف بلوچ قوم رہی ہے۔
بلوچ قوم کی آزادی تک نہ خطہ پر امن ہوگا، نہ ہی یہ جنگی کاروائیاں ختم ہوں گی۔

یہ وقت ہے کہ عالمی دنیا بلوچ قومی تحریک کو ایک جائز، انسانی قومی اور سیاسی جدوجہد کے طور پر تسلیم کرکے ریاستی بربریت کے ان مراکز کو ، عالمی ضمیر سے بھی نشانہ بنایا جائے۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

‏جبری لاپتہ اسداللہ مینگل اور بشیراحمد مینگل کے کوائف لواحقین نے تنظیم کو فراہم کردیے، وی بی ایم پی

بدھ مئی 7 , 2025
وائس فار بلوچ مسنگ پرسن نے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ محمد سلیمان نے تنظیم سے شکایت کی کہ انکے بیٹا اسداللہ مینگل سکنہ سبی، پولی ٹیکنک کالج کوئٹہ کا طالب علم ہے، جنہیں اسکے دوست خان گشکوری کے ہمراہ فورسز نے چار ستمبر 2024 کو ایس پی […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ