تحریر: رامین بلوچ

بلوچ گل زمین صدیوں سے نوآبادیاتی ریاست کی سنگدلی اور استعماری تشدد کا میدان بنی ہوئی ہے۔ ایک بار پھر ایک بلوچ انقلابی خاتون سنگت بیبو بلوچ کو جیل میں نوآبادیاتی ریاست کی وحشت، بدترین جبر، اذیت اور تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
سنگت بیبو بلوچ، جو بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما، انسانی حقوق کی کارکن، اور بلوچ قومی جدوجہد کی ایک فعال آواز ہیں، آج زندان کی سلاخوں کے پیچھے صرف اس "جرم” کی سزا کاٹ رہی ہیں کہ وہ جبری گمشدگیوں اور فرضی مقابلوں میں شہید کیے جانے والے بلوچ فرزندوں کے لیے پُرامن سیاسی جدوجہد کر رہی تھیں۔
ہدہ جیل سے پشین جیل تک، اور پشین جیل سے لے کر سی ایم ایچ، اور پھر دوبارہ ہدہ جیل کے عقوبت خانوں تک، سنگت بیبو بلوچ کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا، وہ محض ایک بلوچ سیاسی اسیر پر تشدد نہیں، بلکہ بلوچ قومی وجود کے خلاف ایک متشدد استعماری کارروائی ہے۔
سنگت بیبو بلوچ پر پشین، ہدہ اور کوئٹہ کے اذیت خانوں میں جو تشدد کیا گیا، وہ کسی جرم کی سزا نہیں بلکہ سچ بولنے اور سچ کے ساتھ کھڑے ہونے کی قیمت ہے۔ اُنہیں اُن کی ساتھیوں سنگت ماہ رنگ بلوچ اور سنگت گلزادی بلوچ سمیت تشدد کا نشانہ بنانا، رات کی تاریکی میں خفیہ مقام پر منتقل کرنا، بدترین جسمانی اذیت دینا، اور پھر زخمی حالت میں طبی نگہداشت کے بغیر واپس پابندِ سلاسل کر دینا—یہ تمام مکروہ عمل اُس ذہنیت کی نمائندگی کرتے ہیں جو بلوچ مزاحمت کو ختم کرنے کے لیے ہر غیر انسانی حربہ اختیار کرتی ہے۔
سنگت بیبو بلوچ، بحیثیت ایک رہنما اور انسانی حقوق کی کارکن، محض ایک احتجاجی آواز نہیں، بلکہ وہ ایک مزاحمتی بیانیہ ہیں، جو لاپتہ افراد کی گونگی چیخوں کو عالمی ضمیر تک پہنچانے کی جرأت رکھتا ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کی وجہ سے ریاست اُن کے وجود کو محض ایک سیاسی خطرہ نہیں، بلکہ اپنے نوآبادیاتی وجود کے خلاف ایک چیلنج تصور کرتی ہے۔
پاکستانی ریاستی اداروں کی طرف سے بیبو بلوچ پر جاری جسمانی، نفسیاتی اور اخلاقی تشدد صرف ایک فرد کو توڑنے کی کوشش نہیں، بلکہ اس مزاحمتی شعور کو کچلنے کی کوشش ہے جو استعماری نظام کے خلاف ابھرتی ہر آواز میں سانس لیتا ہے۔
دس روزہ بھوک ہڑتال کے بعد نقاہت کا شکار ایک خاتون سیاسی قیدی پر تشدد، اُن پر وحشیانہ حملے، اور انہیں مسلسل اذیت کا نشانہ بنانا—یہ سب ایک منظم ریاستی پالیسی کا حصہ ہے، جس کا مقصد بلوچ عزت، خودی اور مزاحمت کو روندنا ہے۔
بیبو بلوچ کے جسم پر لگنے والے زخم دراصل rhabdomyolysis کی علامات ہیں، جو مسلسل تشدد اور صدمے کے نتیجے میں پٹھوں کے ٹوٹنے اور خون میں زہریلے مادوں کے اخراج کی صورت میں ظاہر ہوتی ہیں۔ اُن کی پیشاب میں خون کی آمیزش، مسلسل ہائی بلڈ پریشر، اور درد و ستم کے آثار صرف طبی علامات نہیں بلکہ استعماری استبداد کی وحشیانہ شکلیں ہیں۔
پشین جیل میں خفیہ کیمروں اور وائس ریکارڈرز کی تنصیب، درحقیقت ایک بلوچ انقلابی عورت کے وقار، رازداری اور نجی زندگی کی پامالی کا ہولناک نمونہ ہے۔
بلوچ خطے میں پاکستانی ریاست، بلوچ قوم سے منسلک کوئی انتظامی اکائی نہیں بلکہ ایک نوآبادیاتی قوت ہے۔ یہ وہی طریقۂ کار ہے جو غیر ملکی نوآبادیاتی تسلط کے دوران اختیار کیا جاتا رہا ہے۔
بیبو بلوچ محض ایک قیدی نہیں بلکہ انسانی وقار، شعور اور مزاحمت کا استعارہ ہیں۔ ان کی مسلسل حراست، ذہنی و جسمانی تشدد، اور ریاستی عقوبت گاہوں میں جاری بے رحمانہ سلوک اس بات کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے کہ پاکستانی ریاست، بلوچ وجود کو صرف جغرافیائی نہیں بلکہ وجودی خطرہ سمجھتی ہے۔
بیبو بلوچ پر جاری ریاستی بربریت محض ایک فرد پر تشدد نہیں بلکہ پوری بلوچ قومی مزاحمت کے شعور پر حملہ ہے۔ بیبو بلوچ کو سی ایم ایچ کوئٹہ میں چند گھنٹے رکھ کر، بغیر کسی طبی نگہداشت کے دوبارہ ہدہ جیل منتقل کر دینا، اس بات کی علامت ہے کہ یہاں زندگی کی کوئی قدر نہیں، بلکہ موت کو ایک آلہِ سیاست بنا دیا گیا ہے۔
ان کی بگڑتی ہوئی صحت اور جسمانی حالت اس غیر منصفانہ ریاستی نظام کا ثبوت ہے جو بلوچ کو "زندہ” نہیں دیکھنا چاہتا، بلکہ اسے مطیع، خاموش اور غلام رکھنا چاہتا ہے۔
یہ وہی نوآبادیاتی منطق ہے جس میں تشدد ایک پالیسی، عقوبت ایک ضابطہ، اور قتل ایک طریقۂ کار بن چکا ہے۔ نوآبادیاتی ریاست بیبو بلوچ کو صرف اس لیے نشانہ بناتی ہے کہ وہ اپنی قوم کے دکھ کو زبان دیتی ہیں۔ ان کی مزاحمت، ان کا احتجاج، ان کی آواز اور ان کی موجودگی—یہ سب نوآبادیاتی نظام کے لیے ناقابلِ برداشت "جرائم” ہیں۔
استعمار کی بدترین شکل وہ ہے جو ظلم کو "قانون” کا نام دیتی ہے، اور مزاحمت کو "جرم” قرار دیتی ہے۔ بیبو بلوچ پر ریاستی تشدد محض چند اہلکاروں کی درندگی نہیں، بلکہ ایک پوری سامراجی ذہنیت کا اظہار ہے، جو بلوچ قومی تحریک کو سبوتاژ کرنے کے لیے جیل و زندان، تشدد اور جبری گمشدگیوں جیسے ہتھکنڈے استعمال کرتی ہے۔
آج اگر بیبو بلوچ، ماہ رنگ، گلزادی اور دیگر بلوچ اسیران پر تشدد ہو رہا ہے تو یہ صرف بلوچوں کا مسئلہ نہیں بلکہ انسانی وقار کا مسئلہ ہے؛ یہ استعمار کے خلاف انسانیت کے شعور کا مسئلہ ہے۔ اور یہی وہ لمحہ ہے جب خاموشی جرم بن جاتی ہے اور مزاحمت فرض ہو جاتی ہے۔
بیبو بلوچ کی روئیداد محض مظلومیت و بے بسی کی داستان نہیں، بلکہ انسان ہونے کے حق اور غلامی کو رد کرنے کے شعور کی ایک زندہ علامت ہے۔ یہی شعور ایک دن اس استعماری دیوار کو گرا دے گا، اور بیبو جیسی بیٹیوں کی آہٹ، بند کوٹھریوں سے نکل کر فضاؤں میں آزادی کی نوید بن کر گونجے گی۔
بیبو بلوچ کا زخم خوردہ جسم، بلوچ قومی وجود پر مسلط نوآبادیاتی جبر، استعمار کی درندگی، اور ریاستی تشدد کے خلاف انسانیت کی توہین پر ابھرتی ہوئی ایک احتجاجی چیخ ہے۔
بیبو بلوچ کی نظربندی اور ان پر ہونے والے تشدد کا مقصد محض ان کی آواز کو خاموش کرنا نہیں، بلکہ بلوچ قوم کی ہر مزاحمتی آواز کو دبا دینا ہے، جو تاریخ، خودی اور انسانی آزادی کا تصور لیے زندانوں سے گونج رہی ہے۔ مگر جیلیں شعور کو دباتی نہیں، بلکہ انہیں جلا دیتی ہیں۔
ہر وہ رات جو بیبو بلوچ نے اذیت کے عالم میں گزاری، وہ اُس دن کے قریب ہونے کی گواہی ہے، جس دن بلوچ قوم اپنے قومی و انسانی وقار کی بحالی کا تہوار منائے گی۔
تاریخ شاہد ہے کہ تشدد نظریات کو ختم نہیں کرتا۔
جو قومیں اپنے رہنماؤں کے جسموں پر لگے زخموں کو مزاحمت کی علامت بنا لیں، وہ کبھی شکست نہیں کھاتیں۔ بیبو بلوچ کا زخمی جسم محض ایک زخمی جسم نہیں ، بلکہ وہ بلوچ قومی تشخص پر پڑنے والے ریاستی کوڑوں کا زندہ ثبوت ہیں۔
یہ زندانیں ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ مہذب دنیا کے دعویدار اگر ان مظالم پر خاموش رہیں تو وہ نہ صرف انسانی اقدار کے مجرم ہیں، بلکہ وہ خود نوآبادیاتی تشدد کے معاون و محافظ بن جاتے ہیں۔ بیبو بلوچ کی حالتِ زار پر عالمی خاموشی، اس عالمی ضمیر کی منافقت کو بے نقاب کرتی ہے جو آزادیِ اظہار اور انسانی حقوق کے نام پر صرف سامراجی مفادات کی خدمت کرتا ہے۔
سنگت بیبو بلوچ اس بیانیے کے ساتھ ریاست کے مقابل کھڑی ہیں کہ اگر قوموں کی خودمختاری جرم ہے، اگر انسانی حقوق کی بات کرنا ریاستی امن میں خلل ہے—تو پھر یہ "جرم” ہم بار بار کریں گے۔ وہ اس عہد کی تجدید ہیں کہ بلوچ قومی تحریک کو قید و بند، اذیت و جبر، اور گمشدگی و قتل سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔
ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بیبو بلوچ پر ہونے والا تشدد کسی واحد لمحے کا ج ردعمل نہیں، بلکہ ایک منظم، منصوبہ بند، اور تاریخی جبر کا تسلسل ہے۔جو بلوچ سرزمین پر پاکستانی ریاستی عزائم کے تحفظ کے لیے نافذ کیا گیا ہے۔ اس جبر کا جواب صرف انسانی ہمدردی یا قانونی چارہ جوئی سے نہیں دیا جا سکتا، بلکہ اس کا تقاضا ایک منظم، نظریاتی اور ہمہ گیر انقلابی جدوجہدہے۔
اقوامِ متحدہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل، اور وہ تمام عالمی ادارے جو یورپی ریاستوں میں معمولی اظہار پر چیخ اٹھتے ہیں، وہ بلوچستان کے زندانوں میں قید خواتین پر جاری جبر پر کیوں خاموش ہیں؟
کیا بیبو بلوچ انسان نہیں؟ کیا اُن کا درد وہ معیار نہیں رکھتا جو اقوامِ عالم کے ضمیر کو جھنجھوڑ سکے؟
یہ خاموشی دراصل ان سامراجی طاقتوں کی اس شراکت کو بے نقاب کرتی ہے، جو پاکستانی ریاست کی نوآبادیاتی پالیسیوں کو براہِ راست یا بالواسطہ جواز فراہم کرتی ہیں۔
بیبو بلوچ کا نام اب تاریخ میں رقم ہو چکا ہے—ایک ایسی عورت کے طور پر، جو ریاستی قید و بند، تشدد اور استبداد کے باوجود نہ جھکی، نہ بکی، اور نہ ہی خاموش ہوئی۔
بیبو بلوچ پر گزشتہ روز پشین جیل میں ہونے والا بہیمانہ تشدد نہ کوئی اتفاقی واقعہ ہے اور نہ ہی کوئی انفرادی ظلم، بلکہ یہ اُس منظم نوآبادیاتی منصوبے کا تسلسل ہے جو بلوچ قومی وجود کو مٹانے، اس کی مزاحمت کو کچلنے، اور انقلابی قیادت کو جسمانی و ذہنی طور پر مفلوج کرنے پر مرکوز ہے۔
بیبو بلوچ کا سب سے بڑا "جرم” یہ ہے کہ وہ بلوچ قومی مزاحمت کی ایک باشعور، فعال اور باوقار آواز ہیں—جو پاکستانی استعمار کی بلوچ دشمن پالیسیوں کو نظریاتی، فکری اور سیاسی محاذ پر للکارتی ہیں۔
بیبو بلوچ کی موجودہ خطرناک طبی حالت، جیسی میڈیکل پیچیدگیاں، کسی قدرتی بیماری کا نتیجہ نہیں بلکہ منظم جسمانی تشدد کا کلینیکل اظہار ہیں۔
جب ریاست کسی خاتون سیاسی کارکن کو مسلسل دس دنوں کی بھوک ہڑتال کے بعد ایسی نازک حالت میں دیکھ کر بھی طبی امداد سے محروم رکھے، تو یہ صرف ظلم نہیں بلکہ درندگی اور وحشیانہ پالیسی کا حصہ ہے۔
بیبو بلوچ کے سیل اور واش روم میں خفیہ کیمروں اور وائس ریکارڈرز کی تنصیب، اور ان پر کیا جانے والا جسمانی، نفسیاتی اور منظم تشدد—پاکستان کے جیل خانہ جات میں رائج اُس نوآبادیاتی میکانزم کا تسلسل ہے، جس کے ذریعے مزاحمتی شعور کو مفلوج اور قومی تحریک کو زائل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
یہ صرف ایک فرد کے وقار کی توہین نہیں، بلکہ ایک مقبوضہ قوم کی خواتین کو پدرسری اور کالونائزر ذہنیت کے تحت کچلنے کی کوشش ہے، جو بلوچ خواتین کو ایک فعال اور مزاحمتی کردار کے طور پر قبول کرنے سے انکاری ہے۔ یہ وہی نوآبادیاتی پالیسی ہے جو الجزائر، بنگال، اور بوسنیا سمیت اُن تمام جگہوں پر دیکھی گئی جہاں طاقتور ایمپائرز نے قومی آزادی کی تحریکوں کو دبانے کے لیے عورت کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔
اقوامِ متحدہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ اور دیگر "مہذب” دنیا کے ادارے بیبو بلوچ کی تشویشناک حالت پر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ یہ خاموشی درحقیقت ایک استعماری جرم کے مترادف ہے، جو ان اداروں کی منافقت، سیاسی وفاداری اور سامراجی نظام سے ہم آہنگی کو بے نقاب کرتی ہے۔
جب یہی ادارے فلسطین، میانمار اور یوکرین میں انسانیت کا درد محسوس کرتے ہیں، تو بلوچستان کے معاملے میں اپنی زبانوں پر تالے کیوں ڈال لیتے ہیں؟
کیا انسانی حقوق صرف اُن اقوام کے لیے مخصوص ہیں جن کی پشت پر عالمی طاقتوں کے مفادات ہوں؟
اگر بلوچ قوم کی چیخیں عالمی ضمیر کو بیدار نہیں کر سکتیں، تو یہ چیخیں بے معنی نہیں بلکہ ان اداروں کی اخلاقی موت کا اعلان ہیں۔
تو پھر بلوچوں کے لیے یہ ادارے گونگے اور اندھے کیوں بن جاتے ہیں؟
کیا اس کا جواب یہ نہیں کہ: بلوچ مزاحمت مغربی مفادات کی حلیف نہیں، اور پاکستانی ریاست امریکہ، یورپی ممالک اور سعودی عرب کے لیے ایک اسٹریٹیجک اثاثہ ہے—اسی لیے ان کے جرائم کو چھپانا ان اداروں کی مجبوری بن چکا ہے؟
یہ وقت صرف احتجاج سے آگے بڑھ کر تنظیم، فکری جدوجہد اور بین الاقوامی سطح پر بلوچ آواز کو ایک نظریاتی محاذ بنانے کا ہے۔
ہر دانشور، وکیل، صحافی اور حریت پسند کے لیے لازم ہے کہ بیبو بلوچ کے کیس کو ایک عالمی مقدمے کی شکل دے—ایک ایسی مثال جو پاکستانی نوآبادیاتی جبر کو عالمی عدالت میں لا کھڑا کرے۔
بیبو بلوچ کی مسلسل جسمانی کمزوری، گردوں میں زخم، اور شدید بلڈ پریشر جیسی علامات محض طبی رپورٹس نہیں بلکہ ظلم کی وہ فزیکل زبان ہیں جو انسانیت، ضمیر اور قانون کی قبر پر لکھی جا رہی ہیں۔
ان کی بیماری کی شدت اور ڈاکٹروں کا علاج سے انکار اس حقیقت کا ثبوت ہیں کہ ریاستی ادارے اور ان کے تابع میڈیکل نظام بھی ایک مشترکہ نوآبادیاتی سیکیورٹی انفراسٹرکچر کا حصہ بن چکے ہیں، جو بلوچ سیاسی قیدیوں کو سزا دینے کا ایک غیر مرئی مگر مؤثر نظام ہے۔
بیبو بلوچ کے جسم سے جو خون بہا ہے، وہ انقلاب کا لال رنگ ہے۔
یہ خون، استعماری قبضے کے خلاف ایک چیخ ہے۔
یہ اس ریاستی جارحیت کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے جو بلوچ سیاسی اسیران کو محض "قانونی کیس” نہیں، بلکہ ایک فوجی منصوبے کے تحت غیر انسانی سلوک کا نشانہ بناتی ہے۔
بین الاقوامی صحافیوں، وکلاء اور سیاسی کارکنوں کو چاہیے کہ بیبو بلوچ کے معاملے کو صرف ایک قیدی کی اذیت کے طور پر نہ دیکھیں، بلکہ ایک نوآبادیاتی ریاست کی جنگی جارحیت کے مظہر کے طور پر سمجھیں۔
یہ جدوجہد زمین، وجود، بقاء اور شناخت کی جدوجہد ہے۔
بیبو بلوچ اس مزاحمت کی ایک بلند، باوقار اور ناقابلِ تسخیر آواز ہیں۔ ان پر کیا جانے والا جبر دراصل اُس قومی، وطنی اور انسانی نظریے پر حملہ ہے، جسے ہر اُس شخص کو تھامنا ہوگا جو استعماری بربریت، انسانی حقوق کی منافقانہ سیاست، اور ریاستی دہشتگردی کے خلاف کھڑا ہے۔
بانک بیبو بلوچ پر ہونے والا تشدد محض ایک ظلم نہیں، بلکہ تاریخ کا وہ نوشتہ ہے جو نوآبادیات کے خلاف جاری جنگ کا مستقل باب بن چکا ہے۔ ریاست کے اذیت خانوں میں سسکتی صدائیں محض فرد کی چیخ نہیں ہوتیں، وہ پوری محکوم قوم کی کچلی ہوئی روح کی بازگشت ہوتی ہیں۔
لیکن تاریخ گواہ ہے کہ زندانوں میں مقید جسم، جب نظریے سے لیس ہوں، تو وہ خود زندان شکن بن جاتے ہیں۔ بیبو بلوچ، ماہ رنگ بلوچ، گلزادی اور دیگر ہزاروں سیاسی قیدی وہ گواہ ہیں جو ریاستی تشدد کے اندھیروں میں بھی روشن خیالی، حریت اور مزاحمت کے چراغ بنے کھڑے ہیں۔
ان پر ہونے والا تشدد ایک جرم ہے، اگر اُسے محض فرد کے خلاف سمجھا جائے۔ لیکن اگر اُسے قوم کی اجتماعی جدوجہد کے تناظر میں دیکھا جائے، تو یہ ریاست کی شکست خوردہ ذہنیت کی علامت بن جاتا ہے۔ جو نظام اپنی بقا کے لیے اذیت، اغوا اور جبر کا سہارا لیتا ہے، وہ درحقیقت اپنے زوال کی راہ پر گامزن ہوتا ہے۔
بیبو بلوچ کا زخمی وجود ہمارے قومی ضمیر پر ایک سوالیہ نشان ہے:
ہم کب تک خاموش رہیں گے؟ کب تک نوآبادیاتی دیوتاؤں کی پوجا ہوتی رہے گی؟
یہ وقت ہے کہ ہم بیبو بلوچ کے زخموں کو صرف دکھ کے پیمانے سے نہ ناپیں، بلکہ انہیں ایک انقلابی محرک میں ڈھال کر اجتماعی بیداری، تنظیم اور مزاحمت کا راستہ اپنائیں۔
بیبو بلوچ قید میں ہیں، مگر ان کا جرم کیا ہے؟ نہ اُنہوں نے چوری کی، نہ ڈاکہ ڈالا، نہ ریاست کا کوئی خزانہ لوٹا۔ وہ کوئی اخلاقی مجرم نہیں، بلکہ ریاست کے مقدمے میں وہ محض ایک فرد نہیں، ایک نظریہ، ایک فکر ہیں۔ اور اسی فکر سے ریاست خوفزدہ ہے۔ بانک بیبو وہ نودر بہن ہیں، جنہوں نے کتاب ہاتھ میں لی، احتجاج کیے، تقریریں کیں اور آدرش تراشے—اپنی قوم اور مٹی کے لیے۔
کیا سچ بولنا جرم ہے؟
کیا جبری گمشدگیوں اور انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف آواز اٹھانا جرم ہے؟
اگر ہاں، تو بیبو بلوچ واقعی مجرم ہیں، مگر صرف استعماری اور نام نہاد قانون کے مطابق — اُس قانون کے مطابق جو طاقتور کی لکھی ہوئی تحریر کو "حق” کا درجہ دیتا ہے۔ مگر اخلاقیات، انسانیت، ضمیر اور فطری عدل کے قانون میں بیبو بلوچ بے گناہ ہیں؛ بلکہ وہ اُن افراد میں شامل ہیں جنہوں نے ہمیں یاد دلایا کہ قید میں ہونا گناہ کی علامت نہیں ہوتا۔
نوآبادیاتی قبضہ صرف فوجی جبر، اذیت خانوں اور ریاستی تشدد سے جنم نہیں لیتا، بلکہ یہ ایک منظم، ہمہ گیر اور ادارہ جاتی استعماری نظام کی پیداوار ہوتا ہے—جہاں بظاہر "غیر عسکری” کردار اصل میں سب سے مؤثر استعماری ہتھیار بن جاتے ہیں:
وہ جج جو غلامی کو قانون کا نام دیتا ہے،
وہ صحافی جو بغاوت کو دہشت گردی قرار دیتا ہے،
وہ دانشور جو استعمار کو ترقی اور امن کا ضامن بناتا ہے،
وہ بیوروکریٹ جو عوام کو "ریاستی نظم” کے تحت کچلتا ہے،
وہ مذہبی پیشوا جو جبر کو قضا و قدر کی چادر میں چھپا دیتا ہے،
اور وہ کھلاڑی جو ظلم کی شناخت کو حب الوطنی کا جامہ پہناتا ہے —
یہ سب استعمار کے وفادار خادم اور اس مشینری کے کل پرزے ہیں۔
استعماری نظام کا مزدور اور استعمار زدہ قوم کا مزدور کبھی بھی "طبقاتی بھائی چارے” کے مفروضے میں برابر نہیں ہو سکتے۔
استعمار کا مزدور اگر اپنی طاقت، علم اور صلاحیت سے سامراجی مشین چلاتا ہے تو وہ بھی اس جبر کا شریکِ جرم ہے۔
جو مزدور استعمار کی نرسریوں کی پیداوار بن کر بلوچ قومی تحریک کے مدِمقابل کھڑا ہوتا ہے، وہ ایمپائر کے آہنی ہاتھ کو مظلوموں کی گردن پر مزید مضبوط کرنے میں شریکِ جرم بن جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ غلامی میں ترقی کا خواب محض ایک فریب ہے۔ امن، خوشحالی اور استحکام کے نام پر جو کچھ نوآبادیاتی ریاست پیش کرتی ہے، وہ درحقیقت جبر، استبداد اور قبرستان ہوتا ہے۔ بلوچ قوم کی پوری تاریخ ان تمام جھوٹے وعدوں کی قیمت ادا کر چکی ہے۔
ریاستی تشدد کے باوجود مقصد صرف زندہ بچنا نہیں ہوتا، بلکہ زندہ رہنے کے معنی اپنی شرائط پر طے کرنا ہی اصل جدوجہد ہے—اور یہی جدوجہد کسی قوم کو ناقابلِ تسخیر بنا دیتی ہے۔ وہ قوم جس نے اپنے نوجوانوں کو زندانوں میں، اپنے دانشوروں کو سولی پر، اور اپنی بیٹیوں کو اذیت گاہوں میں دیکھا ہو، وہ مظلوم نہیں رہتی، بلکہ جدوجہد کی ایک طاقتور قوت بن جاتی ہے۔
غلامی کے اس گلے سڑے ڈھانچے کو جڑ سے اکھاڑے بغیر بلوچ قوم کی نجات، آزادی، اور بحیثیت انسان باعزت زندگی کا کوئی دوسرا راستہ ممکن نہیں۔ اور یہی وہ مرحلہ ہے جہاں غلامی کے خلاف جدوجہد محض ردعمل نہیں رہتی، بلکہ ایک مکمل قومی و انقلابی نظریے، شعور، اور متبادل نظام کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔
استعمار کو شکست دینا صرف اس کے نمائندوں کو ہرانا نہیں، بلکہ اس پورے نظام کو رد کرنا ہے جو غلامی کو "ترقی” اور قبضے کو "ریاست” کا نام دیتا ہے۔ یہی استعمار کے خلاف ہماری زبان، ہماری زمین، ہمارے قومی وجود، اور سب سے بڑھ کر، ہمارے انسان ہونے کی حقیقی تحریک ہے۔