تحریر: رامین بلوچ ـ پہلا حصہ

شہید فدا احمد بلوچ کی سینتیسویں برسی کے موقع پر انہیں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے، یہ لازم ہے کہ ہم ان کی شہادت کو محض ایک سماجی واقعے کے طور پر نہ دیکھیں، بلکہ اسے بلوچ قومی تحریک کے فکری، نظریاتی اور انقلابی تسلسل کے ایک بنیادی ستون کے طور پر سمجھیں۔
۔
شہید فدا احمد بلوچ کی شہادت کوئی اتفاقی واقعہ نہیں تھی، بلکہ یہ ایک نظریاتی اور فکری تسلسل کا وہ فیصلہ کن موڑ تھا، جہاں نوآبادیاتی جبر اور قومی شعور آمنے سامنے آ کھڑے ہوئے۔ 2 مئی 1988 کو، جب ریاستی گماشتوں نے انہیں ان کی کتابوں کی دکان میں کلاشنکوف کی گولیوں سے چھلنی کر دیا، تو یہ محض کسی عام بلوچ شہری کا قتل نہ تھا، بلکہ ایک باشعور سیاسی رہنما اور انقلابی دانشور کا قتل تھا—ایک ایسی شخصیت کا قتل جو دانشِ آزادی اور قومی خودمختاری کی مجسم علامت تھی۔
شہید فدا احمد بلوچ کی شہادت اس تاریخی سچائی کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے کہ نوآبادیاتی ریاستیں سب سے زیادہ خوف اُس بیدار شعور سے کھاتی ہیں جو مقبوضہ اقوام کو اپنی حالتِ زار کا ادراک بخشتا ہے، اور انہیں خاموشی کے قبرستان سے نکال کر مزاحمت کی زندہ شاہراہ پر لا کھڑا کرتا ہے۔ یہ شعور جب ذہنوں میں پلنے لگے تو بندوقیں لرزنے لگتی ہیں، ایوانوں میں بےچینی پھیل جاتی ہے، اور قابض قوتیں سب سے پہلے اسی فکر کو کچلنے پر تُل جاتی ہیں جو آزادی کا راستہ دکھاتی ہے، غلامی کے بندھن توڑتی ہے، اور سوال اُٹھانے کی جرات پیدا کرتی ہے۔
شہید فدا احمد بلوچ ایک نظریہ ساز، باشعور دانشور اور انقلابی رہنما تھے جنہوں نے علم و شعور کو ہتھیار بنایا، اور فکری بیداری کو مزاحمت کا سنگِ بنیاد قرار دیا۔ ان کی کتابوں کی دکان فقط ایک "کتاب گھر” نہ تھی، بلکہ وہ ایک ایسا "مزاحمتی مورچہ” تھی جہاں سے آزادی کی سوچ، انقلابی شعور اور نوآبادیاتی نظام کی گہری انہدام کے بیج بوئے جاتے تھے۔ یہ دکان دراصل ایک علمی سنگر تھی،
اُن کا قتل دراصل اُس انقلابی شعور پر حملہ تھا جو ریاست کے بیانیے کو چیلنج کرتا ہے، اور جو گماشتگی پر مبنی مفاہمتی سیاست کو یکسر رد کرتا ہے۔ یہ ایک فرد کا قتل نہیں، بلکہ ایک فکر، ایک تحریک، اور ایک نظریاتی تسلسل پر وار تھا، جس کا مقصد شعور کی اس لہر کو روکنا تھا جو مقبوضہ قوم کے ذہنوں میں سوالات اور مزاحمت کا شعور پیدا کر رہی تھی۔
رازق، جالب اور کہورٹولہ کی سازش اُس ردِ انقلابی ردعمل کا مظہر تھی، جو ہر اُس فکر کو کچل دینا چاہتی ہے جو غلامی کو مسترد کرتی ہے۔ اس سازش میں نہ صرف ایک شخص، بلکہ اُس فکری تسلسل کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی، جس نے بلوچ نوجوانوں کے اذہان کو نیشنلزم سے منور کیا
آج جب ہم شہید فدا احمد بلوچ کی سینتیسویں برسی منا رہے ہیں، تو ہمیں اس امر کا ادراک ہونا چاہیے کہ وہ فقط یاد کیے جانے کی نہیں، بلکہ اپنائے جانے کی علامت ہیں۔ ان کی فکر ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ آزادی بندوق کی ہمراہی میں کتاب، شعور اور نظریے کی پختگی سے جنم لیتی ہے۔ ان کی شہادت کا تقاضا ہے کہ ہم نوآبادیاتی جبر کے خلاف فکری اور عملی مزاحمت کو ایک منظم انقلابی تسلسل میں ڈھالیں، اور اس راہ میں آنے والی ہر سازش اور رکاوٹ کو تاریخ کے کٹہرے میں لا کھڑا کریں۔
شہید فدا احمد بلوچ کی فکر محض خطیبانہ جوش یا علامتی نعروں کی بازگشت نہ تھی، بلکہ وہ خود ایک متحرک، جدلیاتی اور انقلابی مظہر تھے۔ انہوں نے بلوچ قومی تحریک کو محض جذباتی ردِعمل کے دائرے میں محدود نہیں ہونے دیا، بلکہ اسے سائنسی، مادی اور نظریاتی بنیاد فراہم کی۔ وہ اس شعور کے معمار تھے جو نیشنلزم کو تاریخی جبر کے تناظر میں دیکھتا ہے، کالونائزیشن کو ایک سماجی و فکری جمود کے طور پر پہچانتا ہے، اور قومی انقلاب کو بلوچ سماج کی نجات کا واحد راستہ سمجھتا ہے۔
ان کی فکر مارکسی جدلیات کی اُس شاخ سے جڑی ہوئی تھی جو استعمار کے خلاف قومی تحریکوں میں ایک مادی اور تاریخی منطق تلاش کرتی ہے۔ فدا بلوچ کی تحریریں، لیکچرز اور تقاریر محض بیانات نہیں، بلکہ وہ علمی و نظریاتی نقشے تھے، جو بلوچ قوم کو آزادی کی سائنسی منطق سمجھاتے تھے۔ ان کا نقطۂ نظر محض رومانوی انقلابی ولولے تک محدود نہیں تھا—وہ تاریخ کو ایک متعین حرکیات (dynamics) کے تحت دیکھتے تھے۔
سائنسی مادیت (Scientific Materialism) کے اصولوں کے مطابق، وہ بلوچ مزاحمت کو ایک زندہ حقیقت کے طور پر برتتے تھے، ایک ایسی حقیقت جس کے ذریعے نوآبادیاتی جبر کے ہر بیانیے، ہر حربے اور ہر شکل کو بے نقاب کیا جا سکتا تھا۔ ان کی فکر میں دشمن کی شناخت واضح تھی—پنجابی نوآبادیاتی ریاست، اس کے مخصوص استحصالی ڈھانچے، اس کے فوجی و نظریاتی بازو، اور اس کے اندرونی گماشتہ عناصر، جن میں پارلیمانی سیاست کے پروردہ کردار بھی شامل تھے، سب فدا بلوچ کی فکری ضرب کی زد میں تھے۔
اگر کوئی قومی تحریک سائنسی بنیادوں پر منظم نہ ہو، تو وہ محض ایک ردِعمل کی صورت اختیار کر لیتی ہے، جو بالآخر انہی قوتوں کے ہاتھوں co-opt (ضم) ہو جاتی ہے جن کے خلاف وہ ابھرتی ہے۔
ان کی فکر کا بنیادی جوہر یہی تھا کہ آزادی کوئی خداداد عطیہ نہیں، بلکہ ایک سائنسی اور شعوری جدوجہد کا حاصل ہے—ایسی جدوجہد، جو اس وقت ہی ممکن ہوتی ہے جب مقبوضہ اقوام اپنی غلامی کی مادی بنیادوں کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا کرتی ہیں، اور ان اسباب کے خلاف منظم، نظریاتی اور انقلابی مزاحمت کا راستہ اختیار کرتی ہیں
۔شہید فدا احمد بلوچ کی فکر و عمل کو اگر محض ایک فرد کے طور پر دیکھا جائے تو یہ اُن کے کردار کی وسعت اور اثر انگیزی کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔ وہ بلوچ تحریکِ آزادی میں صرف ایک باسک یا دانشور نہیں تھے، بلکہ وہ ایک مکمل فکری، نظریاتی اور انقلابی مکتب کی نمائندگی کرتے تھے—ایسا مکتب جو محکومی کی تفہیم سے لے کر آزادی کی سائنسی منصوبہ بندی تک، ہر مرحلے میں شعوری رہنمائی فراہم کرتا ہے۔
۔جدلیاتی مادیت (Dialectical Materialism) کے اصولوں کی روشنی میں، شہید فدا احمد بلوچ کی شہادت کو محض ایک شخصی سانحہ سمجھنا، نہ صرف تاریخی مادیت کی روح سے انحراف ہے، بلکہ ان کی جدوجہد کی فکری اور انقلابی معنویت کو محدود کرنے کے مترادف بھی ہے۔
شہادت، ان کے لیے کوئی اتفاق نہیں تھی، بلکہ نوآبادیاتی جبر کے خلاف ایک منظم اور شعوری انقلابی مزاحمت کا فطری تسلسل تھی—ایسی مزاحمت جو مادی حالات، اور قومی غلامی کے تاریخی اسباب کی سائنسی تفہیم سے جنم لیتی ہے۔
شہید فدا احمد بلوچ کی زندگی اور شہادت، دونوں ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ تاریخ محض واقعات کا سلسلہ نہیں، بلکہ تضادات کے تصادم میں جنم لینے والی وہ حرکی قوت ہے، جو شعور، عمل اور قربانی سے راستہ بناتی ہے
ان کی شہادت تاریخ کے اُس جدلیاتی عمل کا منطقی اور ناگزیر نتیجہ تھی، جو مقبوضہ اقوام کے شعور، علم اور انقلابی متحرکات کو کچلنے کے لیے نوآبادیاتی حربوں کے ردعمل میں وقوع پذیر ہوتا ہے۔
ان کا قتل اُس تاریخی کشمکش کی علامت ہے جو قابض و مقبوضہ، جابر و محکوم، استحصالی و مظلوم کے درمیان صدیوں سے جاری ہے۔
جدلیاتی مادیت ہمیں سکھاتی ہے کہ ہر سماجی و سیاسی واقعہ کو اس کی مادی بنیادوں، تضادات اور کشمکش کی روشنی میں سمجھا جائے—اسی روشنی میں شہید فدا احمد بلوچ کی شہادت ایک "پیش بینی” (inevitable outcome) بن جاتی ہے، کیونکہ وہ اُس قومی مزاحمت کا حصہ تھے جو ریاستی قبضے کے مجرمانہ ستونوں کو منہدم کرنے کے درپے تھی۔
فدا بلوچ نے قومی آزادی کی جو تعبیر پیش کی، وہ محض کوئی رسمی "روڈمیپ” یا وقتی سیاسی خاکہ نہیں تھی، بلکہ ایک ہمہ جہت سماجی و فکری تعمیرِ نو کا نظریہ تھا—ایسا نظریہ جس میں علم، شعور، مزاحمت اور آزادی ایک دوسرے سے جدا نہیں بلکہ باہم پیوست اور باہم مشروط تھے۔
وہ اس انقلابی تسلسل کے علمبردار تھے جو مقبوضہ اقوام کو ان کے ماضی، حال اور مستقبل کے باہم ربط سے روشناس کراتا ہے، اور انہیں تاریخ کے ایک فعال اور شعوری عامل کے طور پر دیکھنے پر آمادہ کرتا ہے۔
ان کے نزدیک آزادی کوئی مجرد تصور نہیں، بلکہ ایک ایسی سائنسی اور انقلابی جدوجہد ہے جو قومی خودی کی بازیافت اور قومی و سماجی انصاف کی بحالی سے مشروط ہے۔
ان کے نزدیک مزاحمت اُس وقت بامعنی اور نتیجہ خیز بنتی ہے، جب وہ جذباتی ردِعمل کے بجائے شعور کی گہرائی سے جنم لے؛ اور شعور اُس وقت نجات دہندہ کردار ادا کرتا ہے، جب وہ محض وقتی جوش نہیں بلکہ فکری اور نظریاتی بنیادوں پر استوار ہو۔
فدا بلوچ کے لیے مزاحمت کوئی وقتی ردعمل نہیں تھی، بلکہ ایک ایسی شعوری جدوجہد تھی جو غلامی کی مادی وجوہات کو سمجھ کر، اسے تاریخ کے کٹہرے میں لا کھڑا کرتی ہے۔
شہید فدا احمد بلوچ کے قتل میں اگرچہ چند مخصوص نام لیے جاتے ہیں—جن میں رازق، جالب اور کہور شامل ہیں—لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے قاتل صرف یہی تین افراد نہیں تھے۔
ان کا اصل قاتل وہ نوآبادیاتی ریاستی ڈھانچہ تھا، جس کے سائے تلے گماشتے، مفاد پرست مقامی قوتیں، اور سامراجی منصوبہ بندی کے پروردہ عناصر ایک مربوط نیٹ ورک کی صورت میں کام کر رہے تھے۔
یہ وہی تاریخی گٹھ جوڑ ہے، جو کبھی فرانز فینن جیسے انقلابی مفکرین کو خاموش کرنے کے لیے سرگرم ہوا، کبھی ایمیلکار کابرال کو راہِ انقلاب سے ہٹا دیا، اور آج بھی ہر اُس فکر کے خلاف صف آراء ہے جو مقبوضہ اقوام کے شعور کو آزادی کا فکری اسلحہ فراہم کرتی ہے۔
یہ گٹھ جوڑ صرف فوجی جبر تک محدود نہیں، بلکہ نظریاتی ، ادبی زہنی اور ثقافتی قتل کا بھی مؤثر آلۂ کار ہے—ایسا ہتھیار جو غلامی کو محض جسمانی قید میں نہیں، بلکہ ذہنی و روحانی غلامی میں جکڑ دینا چاہتا ہے۔ جاری ہے