
جبری لاپتہ افراد شہدا کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5817 دن ہوگئے اظہارِ یکجہتی کرنے والوں میں شال سے عبدالجبار بلوچ شکیل بلوچ نور احمد بلوچ اور ہر طبقہ فکر کے لوگوں نے اظہار یکجہتی کی وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے مخاطب ہوکر کہا کہ ہم اقوام متحدہ کے نوٹس میں انتہائی ضروری چیزیں لانا چاہتے ہیں جو آپ کے رہنمائی میں معاون ثابت ہونگی۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں گمشدگی کا مسلہ انتہائی گھمبیر شکل اختیار کر چکا ہے اور گمشدکی کا سلسلہ تواتر کے ساتھ جاری ساری ہے جبری گمشدہ افراد کے لواحقین اور وی بی ایم پی تنظیم کے رپورٹس کے مطابق 2001 سے لیکر اب تک 5500 ہزار سے زاہد بلوچ سیاسی کارکن جبری لاپتہ ہیں جو کہ خفیہ اداروں کی حراست میں اذیت ناک مراحل سے گزر رہے ہیں ان میں سے ہزاروں بلوچ ماورائے قانون شہید کر دیئے گئے ہیں۔ ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ 2011 میں پاکستانی سپریم کورٹ نے مسئلے کا نوٹس لیا لیکن بار بار سماعتوں کے باوجود نہ صرف ایک گمشدہ فرد بازیاب ہوا بلکہ اس گمشدگی میں مزید شدت لائی گئی سپریم کورٹ کی سماعت محض وقت کا ضیاع اور میڈیا کا شوشہ تھا کہ سپریم کورٹ بھی پاکستانی حکمرانوں کی ایما پر گمشدہ افراد کے لواحقین کو تسلی دے رہا تھا ۔ یا پھر سپریم کورٹ خودان بااثر اداروں کے سامنے بےبس ہے۔ دونوں صورت میں لاپتہ افردی کے مسئلے میں بہتری کی بھی کوئی امید نہیں ہے۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان جبری لاپتہ افراد کی بازیابی میں وارننگ کی حد تک محدود تھا حالانکہ کورٹ نے ایف سی کو مدت دی تھی کہ وہ اتنے دنوں میں لاپتہ افراد کو پیش کرے لیکن خفیہ ایجنسیاں اور ایف سی کورٹ کی وارننگ کی کوئی پرواہ کیے بغیر ا مزید افراد کو جبری اغوا کر کے مسخ شدہ لاشیں پھینکتے رہے جس طرح انڈونیشیا میں مشرقی تیمور کے مسلے پر کورٹ کے فیصلوں کو رد کرتے ہوئے مشرقی تیمور میں قابض کی ایجنسیاں بےلگام تھیں اسی طرح بلوچستان میں بھی خفیہ اداروں کی جانب سے ظلم کی ہولی کھیلی جارہی ہے۔