ریاست کی سفاکیت پر خاموشی کا رواج ہمارے لئے باعث موت کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ ڈاکٹر صبیحہ بلوچ

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی رہنما ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے بلوچ قوم کے نام جاری کردہ ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ اس ظالم اور جابر ریاست کی سفاکیت اور درندگیاں ہم سب کے سامنے واضع ہیں ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ کیسے بلاجواز اور بلاتفریق ریاست نے ہمارے لیڈراں کو پابندِ سلاسل کیا ہے۔ یہ نوآبادکار اپنے طاقت کے نشے میں اس قدر اندھا ہو چکا ہے کہ اس کے سامنے جنس، عمر اور پیشہ وغیرہ کچھ بھی معنی نہیں رکھتے اگر وہ مارتے یا تشدد کرتے وقت کسی بھی چیز کا خیال رکھتا ہے تو وہ بلوچ شناخت ہے اور بلوچ کو مارنے یا بیگواہ کرنے کے لئے یہی شناخت کافی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ویسے تو کئی سالوں سے ہم یہ قیامت جھیلتے آ رہے ہیں لیکن اس مختصر دورانیے میں ہم نے ریاست کی بدترین شکل دیکھی ہے کہ اُس نے کیسے ہمارے نہتے مظاہرین پر گولیاں برسائیں، آنسو گیس چلائے اور واٹر کینن سے پانی برسائے اور جب سے ہمارے توانا آوازیں ہمارے رہنما سلاخوں کے پیچھے ہیں اُس دن سے ریاست پورے بلوچستان میں اس گھمنڈ کے ساتھ خون کی ہولی کھیل رہی ہے کہ پیچھے کوئی آواز اٹھانے والا نہیں ہے اور ہم بھی نادانستہ طور پر آہستہ آہستہ ریاست کی سفاکیتوں کے سامنے خاموشی کا رواج اپنا رہے ہیں جو کہ ہمارے لئے باعث موت کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔

بی وائی سی رہنما نے کہا کہ قریب ماضی میں جہاں بھی کوئی شخص اٹھایا جاتا یا کسی کو ماورائے عدالت قتل کیا جاتا تو اس کے لواحقین فوراً سراپاء احتجاج ہوتے لیکن حالیہ دنوں میں ریاست ہماری خاموشی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہر روز کسی نہ کسی جگہ سے لوگوں کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنا رہی ہے اور مسخ شدہ لاشیں پھینک رہی ہے لیکن ہم خاموش ہیں کیوں؟ کیا ہم بالاچ مولابخش کی شہادت کو بھول چُکے ہیں کہ جس سے ایک تحریک وجود میں آئی، اس کی بھی بنیادی اکائی شہید بالاچ کے لواحقین تھے کہ جنہوں نے خاموشی کا گلا گھونٹ دے کر ہم سب کو ایک آواز ہونے پر مجبور کیا، آج بھی حالت وہی ہیں آج بھی بالاچ مر رہے ہیں لیکن ہم خاموش ہیں کیا ہم اس خاموشی کو اپنا کر اپنے ہی شہداء کی وارثی سے کترا کر انکا مجرم تو نہیں بن رہے؟

انہوں نے کہا کہ ہم بارہا کہتے ہیں کہ بی وائی سی صرف ایک پارٹی نہیں اور نہ ہی اس قیادت تک محدود ہے ،بی وائی سی پوری قوم ہے وہ قوم جو ریاستی جبر کے سامنے لاشیں اٹھارہی ہے جو اپنے آنکھوں کے سامنے اپنے گھروں کو اجھڑتا دیکھ رہی ہے۔ ہر بلوچ جو اس جبر کو دیکھ رہا ہے اور اس کو محسوس کر رہا ہے اُس پر اتنی ہی ذمہ داری عائد ہوتی ہے جتنی کہ بی وائی سی پر ہوتی ہے، تو پھر اس کٹھن حالت میں جہاں ہر طرف موت ہے اور مزاحمت کرکے زندہ رہنے کے علاوہ کوئی دوسرا کسر موجود ہی نہیں تو یہ خاموشی اور بے حسی کیسی؟ کیا ہم خود کو اور اپنے قوم کو اس چیز سے دھوکے میں نہیں ڈال رہے کہ خاموشی سے ہم بچ سکتے ہیں، لیکن ظالم کا ہمیشہ سے یہی وطیرہ رہا ہے کہ وہ کبھی بھی اپنے غلام قوم یا زمین پر لوگوں میں تفریق نہیں کرتی۔ تو پھر ہم کیوں اس خوش فہمی میں رہیں؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

تربت و دکی میں قابض فوج کے 22 اہلکار ہلاک کرنے کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں – بی ایل اے

ہفتہ مئی 3 , 2025
بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان جیئند بلوچ نے کہا ہے کہ تربت اور دکی میں قابض پاکستانی فوج کے ساتھ جھڑپوں میں دشمن کے 22 اہلکار ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے، جبکہ بلوچ لبریشن آرمی کے 6 سرمچاروں نے شہادت پاکر قومی آزادی کی جدوجہد میں ناقابل فراموش نقوش چھوڑے۔ […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ