تحریر: رامین بلوچ

بلوچ گل زمین—وہ خطہ جہاں زمین معدنیات سے مالامال ہے، مگر اس پر بسنے والا انسان مسلسل جبر و استحصال کی چکی میں پس رہا ہے۔ یہاں ایک غیر فطری ریاستی طاقت کے نام پر ایسا نوآبادیاتی جبر مسلط ہے جو صرف عسکری نہیں بلکہ سیاسی، ثقافتی، اقتصادی اور وجودی سطح پر بھی فعال ہے۔ جبری گمشدگیاں، نسل کشی، وسائل کی منظم لوٹ مار، اور عالمی اداروں کی خاموش شراکت داری—یہ سب اس خطے کو نہ صرف ایک انسانی المیے میں تبدیل کر چکے ہیں، بلکہ اسے ایک فکری اور انقلابی جدلیات کا مرکز بھی بنا چکے ہیں۔
بلوچستان میں ریاست، انتونیو گرامشی کے الفاظ میں، محض "ریاستی قوت” نہیں بلکہ "ہیجیمونی” (Hegemony) کا ایک مکمل نظام ہے—یعنی وہ طاقت جو محض جسموں پر نہیں بلکہ شعور پر غلبہ پاتی ہے۔ یہاں جبر کی نوعیت صرف فوجی نہیں، بلکہ ایک مکمل نوآبادیاتی ساخت میں ظاہر ہوتی ہے، جس کے ذریعے تعلیمی ادارے، میڈیا، اور مذہبی بیانیہ کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے بلوچ قوم کے ذہنی، جسمانی اور مادی استحصال کو انتظامی شکل دی گئی ہے۔
گرامشی لکھتا ہے:
"جدیدیت کا سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہم کے بغیر جینا سیکھا جائے اور مایوسی کا شکار بھی نہ ہوا جائے۔”
بلوچ شعور آج اسی دوہرے چیلنج سے نبرد آزما ہے—جہاں اسے ریاستی وہموں سے نجات پا کر اپنی حقیقت کی شناخت کرنی ہے؛ یعنی غلامی کو تقدیر سمجھنے کے بجائے اس کی ساخت اور منطق کو پہچاننا ہے۔
فرانز فینن اس مکالمے کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتا ہے کہ نوآبادکار صرف زمین پر نہیں بلکہ ذہن پر قبضہ کرتا ہے۔
استعمار، فینن کے نزدیک، ایک ایسا نفسیاتی آپریشن ہے جو محکوم کو سکھاتا ہے کہ اس کی زبان پسماندہ ہے، اس کی شناخت غیر اہم ہے، اور اس کی سرزمین صرف کارپوریشنز اور فوجی اڈوں کے لیے ہے۔ فینن اسی عمل کو "روح کا قتل” (the killing of the soul) قرار دیتا ہے۔ وہ لکھتا ہے:
"نوآبادکار مقبوضہ قوم کو اس کے ‘جنگلی’ درجے سے اسی حد تک بلند سمجھتا ہے، جتنی حد تک وہ استعماری آقا کی تہذیبی اقدار کو اپناتا ہے۔”
یہی وہ نوآبادیاتی منطق ہے جو بلوچ قوم کی آزادی کو ایک غیر فطری مطالبہ، اور ریاستی جبر کو ایک "قومی دھارہ” بنا کر پیش کرتی ہے۔ لیکن آج کا بلوچ شعور، فکر و بصیرت سے لیس ہو کر، اس تاریخی دھوکے کو بے نقاب کر رہا ہے۔
ایمی سیزر نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب Discours sur le colonialisme (خطاب بر استعمار) میں نوآبادیاتی طاقتوں کی نام نہاد "تہذیبی مشن” کو بے نقاب کرتے ہوئے لکھا کہ یورپی استعمار ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ میں "وحشی اقوام” کو مہذب بنانے کے دعوے کے ساتھ داخل ہوا۔ لیکن جس تہذیب نے اپنے قدم جہاں بھی رکھے، وہاں وہ غربت، قتلِ عام، نسل کشی، اور ثقافتی بگاڑ کا زہریلا ورثہ چھوڑ گئی۔ سیزر کے مطابق، جو قوم یا گروہ نوآبادیات جیسے غیر انسانی نظام کو جنم دے اور پھر اس کے نتائج سے انکار کرے، وہ نہ صرف زوال پذیر ہے بلکہ اخلاقی طور پر دیوالیہ ہو چکی ہے۔
پاکستانی ریاست، جسے برطانوی سامراج کی ایک بگڑی ہوئی استعماری ورثہ کا تھانیدارکہنا غلط نہ ہوگا، انہی نوآبادیاتی پالیسیوں کو آج بھی بلوچستان میں نافذ کر رہی ہے۔ وسائل کی لوٹ مار، نوآبادیاتی فوجی تسلط، ، —یہ سب نوآبادیاتی لغت کے اُس زنگ آلود ڈھانچے کے عناصر ہیں جو آج بندوق، سنسرشپ اور ملٹری ہارڈ ویئر جمہوریت کے سہارے اپنی نامعقول دیوالیہ پن کی ہاری ہوئی جنگ لڑ رہا ہے۔
اگر ہم انسانی سماج کو تاریخی مادیت کے اصول کے تحت دیکھیں تو بلوچ مزاحمت کوئی "جذباتی ردعمل” یا وقتی حادثہ نہیں، بلکہ ایک ناگزیر، سائنسی اور زمینی حقیقت ہے۔ جہاں جہاں ریاستی جبر اپنی انتہا کو پہنچتا ہے، وہاں شعوری مزاحمت ایک فطری اور سیاسی فریضہ بن جاتی ہے۔ بلوچ تحریکِ آزادی بھی اسی حقیقت کا تسلسل ہے—
"یہ وہ صدائیں ہیں جو تاریخ کے لہو سے لکھے گئے اور شعور کی گہرائیوں میں ثبت لمحوں کی بازگشت ہیں۔”
بلوچ قومی تحریک نہ تو محض وسائل کے حصول کی جنگ ہے، نہ صرف زحقوق کی سیاست ،اور نہ ہی یہ محدود معنوں میں ایک انسانی حقوق کی تحریک ہے۔ یہ ایک ہمہ گیر، انقلابی اور نظریاتی جدوجہد ہے جو بلوچ قوم کی مکمل آزادی اور نوآبادیاتی نظام کے مکمل خاتمے پر مرکوز ہے۔
یہ قومی شعور، زبان، ثقافت اور انسانیت کی بازیافت کی تحریک ہے۔ اس کی ساخت ادبی ہے کیونکہ اس کا سرچشمہ اجتماعی درد، جمالیات، اور تاریخی زخم ہیں۔ یہ سیاسی ہے کیونکہ اس کا ہدف ریاستی جبر، قبضہ اور سامراجی تسلط ہے۔ اور یہ سائنسی ہے کیونکہ اس کی بنیاد مادی حقیقتوں کی جدلیاتی تفہیم پر رکھی گئی ہے۔
یہ تحریک اس تصورِ آزادی سے جڑی ہے جو انسانی وقار، قومی خودمختاری، اور تاریخی انصاف کی بنیاد پر قائم ہو۔
یہ صرف ریاستی جبر کا ردعمل نہیں بلکہ ایک باشعور قوم کا وہ نظریاتی مؤقف ہے جو اپنے وجود، سرزمین، زبان، ثقافت، اور اجتماعی شعور کے تحفظ کو عالمی ضمیر کے سامنے پیش کر رہی ہے۔
اقوامِ متحدہ کا چارٹر، جنیوا کنونشن، اور بین الاقوامی قوانین بلوچ قوم کو یہ حق دیتے ہیں کہ وہ نوآبادیاتی قبضے، جبری الحاق، اور کالونیئل جبر کے خلاف ، اپنی آزادی، اور قومی وجود کے لیے جدوجہد کر سکتی ہے۔ بلوچ تحریک اسی عالمی قانونی اور اخلاقی جواز کی روشنی میں، ایک فکری اور سیاسی مزاحمت کی صورت دنیا کے سامنے ابھری ہے۔
یہ تحریک صرف بلوچ قوم کی نجات کا پیغام نہیں، بلکہ وہ آئینہ ہے جس میں آج کی عالمی سیاسی منافقت، نوآبادیاتی تسلسل، اور انسانی حقوق کے دوہرے معیار بے نقاب ہوتے ہیں۔
ہے۔
بلوچستان ایک ایسی دھرتی ہے جو صرف معدنی دولت نہیں بلکہ شعور، نظریہ، اور مزاحمت کی دولت رکھتی ہے—اور یہی دولت آج ریاستِ پاکستان کے سامراجی ڈھانچے کو اندر سے کھوکھلا کر چکی ہے۔ یہ وہ شعور ہے جسے نہ گولی دباسکتی ہے، نہ سنسر چھپا سکتا ہے، اور نہ مفاہمتی بیانیہ مسخ کر سکتا ہے۔
جب ریاست انسانی وجود کو ایک غیر فطری جغرافیے میں دفن کر دے؛ جب شناخت کو سنگین جرم اور زبان کو خاموشی کے شکنجے میں جکڑ دیا جائے؛ جب زمین کو صرف معدنیات کا ذخیرہ اور انسان کو صرف لاش شمار کیا جانے لگے—تب مزاحمت محض ایک ردِعمل نہیں رہتی، بلکہ وہ ایک اخلاقی، سیاسی، سائنسی اور وجودی فریضہ بن جاتی ہے۔
بلوچستان کی سرزمین آج اسی فریضے کی ادائیگی میں اپنی پوری تاریخ، تشخص، فکر اور خون کے ساتھ صف آراء ہے۔ "جبری گمشدہ افراد کی بازیابی اور بلوچ نسل کشی کے خلاف مزاحمت” محض ایک احتجاجی ٹائٹل نہیں، بلکہ کل بلوچ قوم کے اجتماعی شعور، تاریخی درد اور انقلابی عزم کا اظہار ہے۔ یہ ایک زندہ گواہی ہے، جو دعالمی ضمیر سے مخاطب ہے۔
آج بلوچ خواتین، بچے، بزرگ، نوجوان، طالبعلم، فنکار اور دانشور—سب ایک ایسی ریاست کے خلاف صف بندی کر چکے ہیں جو خود کو "ریاست” کہتی ہے مگر دراصل ریاست کے نام پر ایک داغ ہے—ایک ایسا نوآبادیاتی ڈھانچہ جو بلوچ قومی آزادی کو کچلنے، وسائل کو لوٹنے، اور قومی شعور کو مسخ کرنے کے لیے وجود میں آیا اور آج بھی برقرار ہے۔
بلوچ نوجوانوں اور بی وائی سی کی جانب سے منایا گیا سوگ کوئی روایتی نوحہ نہیں، بلکہ مزاحمت کا ایک زندہ اور سیاسی اظہار ہے۔ سیاہ لباس، سفید پٹیاں، زنجیریں، لاپتہ افراد کی تصاویر، اور انقلابی فن پارے—یہ سب اس ریاستی منافقت، بے رحمی، اور جبر کے خلاف تاریخی علامتیں بن چکے ہیں۔ یہ وہ علاماتِ مزاحمت ہیں جو نوآبادیاتی ظلم کے بدن پر ثبت ہو چکی ہیں،
یہ سوگ، درحقیقت، امید اور شعور کا ایک نیا بیانیہ ہے—جہاں نوآبادیاتی خاموشی کو توڑ کر، ہر تصویر، ہر پٹی، ہر قدم، ہر آواز ایک نئے بلوچستان کی بنیاد رکھ رہی ہے۔ یہ نوآبادیات کے خلاف ایک جمالیاتی بغاوت ہے، جو جبر کو شکست دینے سے پہلے، تاریخ کے صفحات پر اپنی گواہی رقم کر رہی ہے
پاکستان کی ریاستی ساخت اپنی بنیاد میں ہی نوآبادیاتی ہے۔ اس کی فوج، عدلیہ، بیوروکریسی اور تعلیمی ادارے—سب وہی استعماری ڈھانچے ہیں جو برطانوی راج نے محکوم اقوام پر تسلط کے لیے وضع کیے تھے۔ یہاں قوموں کو رعایا، زمین کو خام مال، اور انسان کو صرف ایک تابع جسم سمجھا جاتا ہے۔
سی پیک، ریکوڈک، ملٹری چھاؤنیاں، اور نام نہاد "ڈیولپمنٹ پراجیکٹس”—یہ سب صرف ترقیاتی منصوبے نہیں، بلکہ استعمار کے جدید چہرے ہیں۔ آج بلوچستان کے پہاڑ، دریا، صحرا اور ساحل بلوچ قوم کے دسترس و اختیار میں نہیں بلکہ یہ سب بین الاقوامی سرمایہ داری اور ریاستی عسکریت اور نو آبادیت کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں۔
یہ استعماریت محض ایک اتفاقی یا عارضی صورتحال نہیں، بلکہ ایک منصوبہ بند نظام ہے—جس میں جبر کو ترقی، جبری گمشدگیوں کو "قانونی تحویل”، اور نسل کشی کو "سیکیورٹی آپریشن” بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ نظام نہ صرف جسم کو، بلکہ شعور، زبان، یادداشت اور شناخت کو بھی محکوم بناتا ہے۔
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ آج عالمی طاقتوں کا ضمیر ان کے سیاسی اور معاشی مفادات کے تابع ہو چکا ہے۔ فلسطین کی نسل کشی پر اگرچہ کچھ آوازیں بلند ہوتی ہیں، یوکرین پر دنیا متحرک ہو جاتی ہے، مگر بلوچستان—جہاں روز انسانی حقوق کی پامالی، اجتماعی قبروں کی دریافت، اور ثقافتی نسل کشی جاری ہے—وہاں بین الاقوامی ادارے، میڈیا، اور حقوقِ انسانی کے علمبردار مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
اس خاموشی کی جڑ میں وہ استعماری دوہرا معیار ہے جس کے تحت ظلم صرف تب ظلم سمجھا جاتا ہے جب وہ کسی مغربی مخالف ریاست سے سرزد ہو۔ بلوچستان پر جو ستم ڈھائے جا رہے ہیں، وہ "غیر مغربی استعمار” کے زمرے میں آتے ہیں—ایسا استعمار جو اپنی پراکسی ریاستوں کے ذریعے خام مال، جغرافیائی رسائی، اور سرمایہ کاری کے مفادات کو محفوظ رکھنے کے لیے اقوام کو غلام بنائے رکھتا ہے۔
مگر بلوچ مزاحمت محض احتجاج یا سوگ کی صورت میں ظاہر نہیں ہوتی؛ یہ ایک فکری، فلسفیانہ اور تخلیقی جدوجہد ہے۔ بلوچ شعور نے اپنے درد کو نظم، افسانے، مکالمے، پرفارمنس آرٹ، اور فلسفے میں ڈھال کر دنیا کے سامنے رکھا ہے—یہ ثابت کرتے ہوئے کہ آزادی صرف ایک سیاسی مطالبہ نہیں، بلکہ انسان کی فطری طلب، روحانی ارتقاء، اور اخلاقی بقا ہے۔
"زنجیروں میں جکڑے ہاتھ” محض قید کی علامت نہیں، بلکہ وہ سوالیہ نشان ہیں جو ریاستی جبر کے چہرے کو بے نقاب کرتے ہیں۔ "منہ پر بندھی سیاہ پٹیاں” صرف خاموشی کی علامت نہیں، بلکہ اظہار رائے کے قتل کے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔ اور "سفید کپڑے” محض سوگ کا اظہار نہیں، بلکہ آنے والے انقلاب کی پیش گوئی ہیں—ایک ایسا انقلاب جو نوآبادیاتی قلعوں کو زمیں بوس کرے گا۔
جبری گمشدگیاں محض انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں، بلکہ ایک کالونیل سائیکوسِس (colonial psychosis) کو جنم دیتی ہیں—ایسا ذہنی، وجودی اور سماجی اضطراب جس میں انسان اپنی یادداشت، شناخت، اور خودی سے خوفزدہ ہو جاتا ہے۔ اس کے خلاف مزاحمت صرف سیاسی نہیں، بلکہ سائنسی، نظریاتی اور فکری جہاد بھی ہے—ایسا علم، جو نوآبادیاتی جبر کے ہر سائنسی، تاریخی، ثقافتی اور اخلاقی جواز کو رد کرتا ہے۔
بلوچ مزاحمت دراصل ایک عالمی مزاحمتی روایت کا تسلسل ہے۔ یہ الجزائر، ویتنام، جنوبی افریقہ اور کردستان کی جدوجہد سے جڑی ہوئی ہے۔ یہ ایک ایسی عالمی تحریک کا جزو ہے جو ایک نئے انسانی ورلڈ آرڈر کی بنیاد رکھتی ہے—ایسا نظام جو آزادی، برابری، شناخت، بقاء، وقار، اور عالمگیر امن پر استوار ہو۔
جب دنیا انسانی حقوق، آزادی، اور جمہوریت کے نام پر ہنگامی اجلاس بلاتی ہے، اقوامِ متحدہ قراردادیں منظور کرتی ہے، اور عالمی میڈیا کسی یورپی ریاست میں ہونے والی پیش رفت کو لمحہ بہ لمحہ نشر کرتا ہے—تب بلوچ سرزمین پر جاری ریاستی نسل کشی، جبری گمشدگی، اور اجتماعی قبریں خاموشی میں دفن کر دی جاتی ہیں۔ یہ خاموشی محض منافقت نہیں، بلکہ اس نوآبادیاتی تسلسل کی علامت ہے جسے عالمی طاقتوں نے اپنے سیاسی اور معاشی مفادات کی تجدید کے لیے زندہ رکھا ہوا ہے۔
یوکرین پر روسی حملے کو "آزادی” اور "خودمختاری” کا مسئلہ قرار دے کر مغرب نے عسکری، سفارتی، اور معاشی ردعمل کی ایک پوری زنجیر متحرک کر دی۔ لیکن بلوچستان، جہاں دہائیوں سے ایک پوری قوم ریاستی جبر، منظم قتل عام، اور وجودی انکار کا سامنا کر رہی ہے، وہاں یہی عالمی قوتیں نہ صرف خاموش تماشائی ہیں بلکہ اس خاموشی کی شریکِ جرم بھی۔ یہ وہی منافقانہ منطق ہے جسے فرانز فینن نے نوآبادیاتی جبر کی لبرل جمہوری توجیہ قرار دیا تھا۔
بلوچ قومی مسئلہ نہ تو عالمی معیشت کے مرکز سے ٹکراتا ہے، نہ ہی نیٹو یا G7 کے تزویراتی منصوبوں کا حصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب کی خاموشی، دراصل اس اسٹریٹیجک شراکت داری کی قیمت ہے جو وہ پاکستان جیسے ریاستی اتحادی کے ساتھ نبھاتا ہے—خصوصاً چین کے خلاف عالمی توازن کی جنگ میں۔ پاکستان کی جغرافیائی اہمیت، سی پیک جیسے منصوبے، اور علاقائی بالادستی کے کھیل میں بلوچ عوام کی قربانی ایک معمولی لاگت سمجھی جاتی ہے۔
عالمی میڈیا صرف وہی دیکھتا ہے جسے "انسان” تسلیم کیا گیا ہو—اور شاید بلوچ لاشیں ان کے لیے مکمل انسان نہیں۔ میڈیا کی ساختیاتی نسل پرستی اور خبریاتی نوآبادیات، بلوچ المیے کو عالمی ضمیر کی نظروں سے اوجھل رکھتے ہیں۔ جب کسی قوم کو خبر کے دائرے سے ہی خارج کر دیا جائے، تو اس کی نسل کشی تاریخ کے کسی کونے میں دفن کر دی جاتی ہے—محض چیخ باقی رہ جاتی ہے، جو پہاڑوں سے ٹکرا کر واپس لوٹ آتی ہے۔
بلوچ تحریکِ آزادی محض ایک سیاسی مطالبہ نہیں، بلکہ ایک اخلاقی، فکری، اور تہذیبی مزاحمت ہے اُس عالمی نظام کے خلاف، جو طاقت کو حق، اور خاموشی کو امن سمجھنے لگا ہے۔ یہ تحریک اس سوال کو جنم دیتی ہے جس سے موجودہ تہذیب کے جھوٹے نقاب چاک ہو جاتے ہیں:
کیا آزادی صرف یورپ کے لیے ہے؟
کیا انسانیت کی قدر رنگ، نسل، اور جغرافیہ طے کرتا ہے؟
بلوچ نوجوانوں نے اس صدی کی سب سے عظیم اخلاقی ذمہ داری کو پہچانا ہے۔ انہوں نے پہاڑوں، قیدخانوں، اور قبروں کو شعور کی درسگاہ میں بدل دیا ہے۔ ان کے ہاتھوں میں بندوق محض ہتھیار نہیں، بلکہ ایک فکری انکار ہے—اس عالمی جھوٹ کے خلاف جو انصاف کے نقاب میں ظلم کی توثیق کرتا ہے۔
مزاحمت محض ردعمل نہیں، بلکہ ایک سائنسی اور شعوری عمل ہے، جو تنظیم، نظریاتی گہرائی، اور تاریخی شعور پر استوار ہوتا ہے۔ بلوچ مزاحمت نے یہ ثابت کیا ہے کہ ایک محکوم قوم اپنے زخم کو بیانیہ، اور اپنے کرب کو نظریہ بنا سکتی ہے۔
یہی مزاحمت ہمیں سکھاتی ہے کہ آزادی انسان کا فطری حق ہے، اور غلامی ایک مصنوعی بندوبست۔ ریاستی جغرافیے عارضی ہو سکتے ہیں، لیکن مقبوضہ اقوام کا شعور ابدی ہوتا ہے۔
جب تک عالمی ضمیر بلوچ نسل کشی پر خاموش ہے، وہ اپنے انسانی حقوق کے تمام دعووں کو جھٹلا رہا ہے۔ مگر بلوچ مزاحمت، اس خاموشی کو توڑنے والی وہ صدا ہے جو نہ صرف قومی نجات بلکہ عالمی اخلاقی بیداری کی بنیاد رکھتی ہے۔
بلوچ تحریک، ایک ایسے مستقبل کا خواب ہے جہاں ریاست طاقت کا مظہر نہیں بلکہ خدمت کا ذریعہ ہو؛ جہاں آزادی کسی مملکت کی خیرات نہیں بلکہ ہر انسان کا پیدائشی حق ہو؛ اور جہاں انسان کی قدر اس کی زبان، زمین، اور شناخت سے جڑی ہو۔ جیسا کہ چی گویرا نے کہا تھا:
"سچا انقلابی عظیم محبت کے جذبات سے رہنمائی حاصل کرتا ہے۔”
جب ایک بلوچ جہد کار جبری گمشدگیوں، نسل کشی، اور وسائل کی لوٹ مار کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا ہے، تو وہ دراصل محبت کی سب سے عظیم شکل کا اظہار کرتا ہے—ایسی محبت جو ظلم کے خلاف سینہ سپر ہو، جو غلامی کے خلاف آزادی کا پرچم بلند کرے، اور جو خوف کے اندھیرے میں امید کا چراغ روشن کرے۔
یہ محبت مٹی سے ہے، شہیدوں کی قربانیوں سے ہے، اپنی زبان، ثقافت، اور اجتماعی آزادی کے خواب سے ہے۔
یہی محبت مزاحمت کو جنم دیتی ہے،
یہی محبت قابض کے قلعوں کو لرزا دیتی ہے،
اور یہی محبت وہ روحانی و فکری طاقت ہے
جو ایک نئی، آزاد، اور انسان دوست بلوچ ریاست کی بنیاد رکھ سکتی ہے۔