گلزادی  بلوچ کا جیل  سے پیغام، تارریخی و انقلابی مکتوب

تحریر: رامین بلوچ  ــ آخری حصہ
زرمبش مضمون

گلزادی بلوچ کا خط اس شعور کی اعلیٰ مثال اور بلوچ سیاسی بیانیہ ہے۔ ریاست اس بیانیے سے خائف ہے، کیونکہ یہ بیانیہ سچ پر مبنی ہے، اس کے پیچھے کوئی ہتھیار نہیں بلکہ وہ درد ہے جو صدیوں پر محیط ہے۔خط میں جن "خوفناک لمحوں ” کا ذکر کیا گیا، ان کا مقصد صرف اذیت کو بیان کرنا نہیں بلکہ اس سچ کو دنیا کے سامنے لانا ہے جو عموماً پردے میں رکھا جاتا ہے۔ یہ اذیت ایک فرد پر نہیں، پوری قوم پر وارد کی جا رہی ہے۔
گلزادی بلوچ کے خط کا اختتام حوصلے سے ہوتا ہے: "ہم حق پر ہیں، ہم اپنے لاپتہ پیاروں کے الفاظ اور حقوق کی آواز ہیں، یہ آواز ہمیشہ باطل کے آگے بلند رہے گی۔” یہ محض ایک جذباتی نعرہ نہیں بلکہ آنے والے وقتوں کے لیے ایک عہد ہے، ایک پکار ہے کہ ظلم کے سامنے سر جھکانا اب بلوچ قوم کا شیوہ نہیں رہا۔
گلزادی کی تحریر کوئی عام مکتوب نہیں، بلکہ تاریخ کے سینے میں نقش ایک انقلابی صحیفہ ہے، جس میں ریاستی جبر کے خلاف بلوچ خواتین کی مزاحمتی حکمتِ عملی اور شعوری وابستگی کا نچوڑ پوشیدہ ہے۔ یہ خط اس مظلومیت کی دستاویز ہے جسے ریاستی طاقت نے دبانا چاہا، لیکن ہر زخم سے ایک نئی للکار ابھری۔ یہ ایک ایسی تحریر ہے جو صرف درد کی نہیں بلکہ شعور، وقار اور خودداری کی گواہی دیتی ہے۔
گلزادی نے لفظوں سے جو تصویر کھینچی ہے، وہ صرف ایک فرد کے ساتھ ہونے والے ظلم کا بیانیہ نہیں بلکہ پورے بلوچ وطن کی اجتماعی کہانی ہے۔ ان کے الفاظ میں موجود شدت، وہ درد جو جیل کی دیواروں کے اندر سہہ کر کاغذ پر منتقل ہوا، وہ ہر پڑھنے والے کے دل میں آگ سی جلا دیتا ہے۔ گلزادی کا خط چیخ کر کہتا ہے کہ بلوچ خواتین اب "عزت کی علامت” سے نکل کر "شعور کی قاصد” بن چکی ہیں۔ اب وہ صرف مظلوم نہیں، مزاحمت کی علامت بن چکی ہیں۔
جب وہ لکھتی ہیں کہ ریاستی اہلکار ان پر وحشی درندوں کی طرح ٹوٹ پڑے، تو یہ الفاظ صرف مظالم کی تصویر کشی نہیں بلکہ ریاستی بیانیے کے خلاف ایک فکری طمانچہ ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ بندوق تھامے دشمن اب پرامن تحریک سے لرزنے لگے ہیں، گویا یہ محض جسمانی تصادم نہیں، ذہنی اور نظریاتی برتری کی دلیل ہے۔ بلوچ قوم کی جدوجہد اب صرف بندوق کی گولیوں سے نہیں، الفاظ، نظریات، اور شعور کی روشنی سے بھی لڑ رہی ہے۔
گلزادی بلوچ کا ذکر ان مظلوم ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کے تسلسل میں آتا ہے جنہوں نے جبر کے اندھیروں میں حق کی شمع جلائی۔ ان کا خط دراصل ماہ رنگ، سمی،، اور دیگر بیٹیوں کی انقلابی وراثت کا تسلسل ہے۔ یہ ان بیٹیوں کی صدا ہے جو پاؤں میں بیڑیاں پہنے، ذہن میں فکر کا چراغ لیے، کالونیئل جبرکی وحشی گلیوں میں حق کا پرچم بلند کرتی رہیں۔
یہ مکتوب درحقیقت ریاستی فاشزم کے خلاف بلوچ عورت کی فکری و نظریاتی صف بندی ہے۔ یہاں عورت مظلوم نہیں، ایک نظریاتی مورچہ ہے۔ وہ گولیوں سے ڈرتی نہیں، بلکہ شعور سے دشمن کا سامنا کرتی ہے۔ ریاست جسے "کمزور کڑی” سمجھتی رہی، اب وہی کڑی "سب سے مضبوط زنجیر” بن چکی ہے۔ بلوچ عورت اب نوحہ نہیں، نعرہ بن چکی ہے۔
خط کا اصل پیغام ایک بنیادی حقیقت کی طرف اشارہ ہے: بلوچ خواتین اس جدوجہد کا حادثاتی حصہ نہیں، بلکہ ایک شعوری انتخاب کی نمائندہ ہیں۔ یہ شعور انہیں بندوق کے سائے، جیلوں کی سلاخوں اور تشدد کے شکنجوں سے بھی نہیں روک سکا۔ اور جب ایک قوم کی مائیں، بہنیں اور بیٹیاں شعوری سطح پر میدان میں اُتریں، تو تاریخ بتاتی ہے کہ ظلم کبھی دیرپا نہیں رہتا۔
گلزادی کی تحریر میں وہ فکری اور انقلابی توانائی موجود ہے جو نسلوں کو بیدار کر سکتی ہے۔ یہ صرف ایک داستان نہیں بلکہ ایک دستور ہے، ایک مزاحمتی منشور ہے، جو آنے والی نسلوں کو راستہ دکھاتا ہے۔ یہ خط چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے:

> "ہم ٹوٹ سکتے ہیں، مگر جھک نہیں سکتے۔ ہم لاپتہ ہو سکتے ہیں،، مگر مغلوب نہیں ہو سکتے۔”

یہ خط ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم صرف پڑھیں نہیں، سمجھیں۔ صرف روئیں نہیں، سوچیں۔ صرف متاثر نہ ہوں، متحرک ہوں۔ گلزادی بلوچ نے جو لکھا، وہ ایک فرد کی نہیں، پوری قوم کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ یہ ہماری تاریخ کا، ہماری مزاحمت کا، اور ہماری  قومی غیرت کا حصہ
ہے۔آج ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہم اس تحریر کو محض ایک خط سمجھ کر بھول جائیں گے یا اسے اپنی جدوجہد کا منشور بنا کر ظلم کے مقابل ایک دلیل، ایک آواز، اور ایک قندیل کی صورت بلند رکھیں گے۔
یقیناً گلزادی بلوچ کا خط صرف ایک فرد کی تکلیف دہ روداد نہیں بلکہ یہ ایک اجتماعی المیے کی گواہی، ایک مزاحمتی منشور اور ایک انقلابی نسخہ ہے جو بلوچ قوم کے ضمیر کو جھنجھوڑنے، عالمی ضمیر کو بیدار کرنے اور مظلوم کے حق میں آواز بلند کرنے کا عزم رکھتا ہے۔ یہ خط ایک ایسی دستاویز ہے جو جبر کے خلاف بلوچ خواتین کی سیاسی اور شعوری شرکت کو تاریخی سیاق و سباق میں رکھ کر، ریاستی بیانیے کو چیلنج کرتی ہے۔ اس خط کا ہر جملہ نہ صرف ایک ذاتی تجربہ ہے بلکہ اجتماعی مزاحمت کی علامت اور آنے والے وقت کے لیے رہنما اصول بھی ہے۔
جب کوئی فرد ریاستی جبر کا نشانہ بنتا ہے، تو وہ اکثر خاموشی میں ڈوب جاتا ہے۔ مگر گلزادی بلوچ نے خاموشی کے اس بت کو پاش پاش کر کے لفظوں میں ایسا  بیانہ گھولا ہے جو ظلم کے ایوانوں کو جھنجھوڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کا خط محض ایک احتجاجی تحریر نہیں، بلکہ شعور کی وہ قندیل ہے جسے بلوچ خواتین نے ہاتھ میں لے کر ظلم کے اندھیروں میں روشنی کی راہ نکالی ہے۔
یہ خط اُس نسل کی نمائندگی کرتا ہے جو گولی، تشدد اور حراست سے نہیں ڈرتی؛ جو "چادر اور چار دیواری” کی عزت کو ہتھیار بنانے والوں کے منہ پر سوال بن کر گرتی ہے؛ جو اپنی لاپتہ پیاروں کی تصویروں کو کفن کی مانند سینے سے لگا کر سڑکوں پر نکلتی ہے، اور کہتی ہے: "ہمیں خاموش نہ سمجھو، ہم تاریخ کے دھارے میں سوال بن چکے ہیں۔”
گلزادی کے بیان کردہ الفاظ میں جس درد، ذلت اور بے بسی کی تصویر کشی ہے، وہ کسی بھی ذی شعور انسان کے لیے ناقابلِ برداشت ہونی چاہیے، مگر یہی وہ سچ ہے جو آج بلوچستان کے ہر کونے سے بلند ہو رہا ہے۔ ایک ایسا سچ جو میڈیا کی سنسرشپ، ریاستی پروپیگنڈا اور بین الاقوامی بے حسی کے باوجود اپنی جگہ پر ایستادہ ہے۔
گلزادی کا خط ریاست کے اُس چہرے کو بے نقاب کرتا ہے جسے "قانون” اور "امن” کے نام پر چھپایا جاتا ہے۔۔ گلزادی کا بیان اس
حقیقت کی تصدیق ہے کہ ریاستی طاقت جب اخلاقی جواز کھو بیٹھتی ہے تو وہ خود ایک دہشت گرد ادارہ بن جاتی ہے۔ اس کی افواج، انٹیلیجنس، اور قانون نافذ کرنے والے ادارے جمہوری اصولوں کے محافظ نہیں بلکہ انسانی حقوق کے غاصب بن جاتے ہیں۔
گلزادی بلوچ  جانتی ہیں کہ یہ راستہ کانٹوں بھرا ہے، مگر وہ اس راستے کو ترک نہیں کرتیں کیونکہ ان کا تعلق صرف درد سے نہیں بلکہ خواب سے ہے، ایک آزاد اور باوقار وجود کے خواب سے۔؎
یہ خط ہمیں بتاتا ہے کہ اگر جبر سے نظریات مٹائے جا سکتے تو گلزادی آج خاموش ہوتی، راج بی بی تھک جاتی، اور ماہ رنگ پیچھے ہٹ جاتی۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ کیونکہ یہ نظریاتی جدوجہد محض ردِ عمل نہیں بلکہ ایک قوم کی بیداری کی علامت ہے۔
ہم اس خط کو ایک انقلابی دستاویز کے طور پر لیں۔ اسے بلوچ قومی بیانیے میں مرکزی حیثیت دیں، اور ہر فورم پر، ہر پلیٹ فارم پر اس سچ کو زبان دیں جو گلزادی نے ہمت کر کے بیان کیا ہے
یہ خط بلوچ خواتین کی سیاسی شناخت، شعور، اور مزاحمت کی ایسی گواہی ہے جسے دبایا نہیں جا سکتا۔ اور یہی وہ پیغام ہے جو گلزادی نے اپنے
بندھے ہاتھوں، زخمی بدن، مگر آزاد ذہن سے لکھا ہے۔ اب یہ ہم پر ہے کہ ہم اس پیغام کو صرف پڑھیں یا اسے مشعل راہ بنائیں۔
یہ خط قلم سے نہیں، تشدد کے زخموں، آنسوؤں، اور جدوجہد کے جذبے سے لکھا گیا ہے۔ اس میں صرف الفاظ نہیں، تاریخ کے ان دیکھے درد، غیر مرئی زخم، اور نسل در نسل جاری مزاحمت کی گونج چھپی ہوئی ہے۔
یہ تحریر اُس بلوچستان کی ہے جسے خاموش کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی، جسے لاپتہ کر کے مٹانے کی سازشیں کی گئیں، مگر جو ہر بار ماؤں کے آنسوؤں، بہنوں کی پکار، اور بیٹیوں کے بینوں سے پھر زندہ ہو جاتا ہے۔ گلزادی بلوچ کی آواز ان ہزاروں لاپتہ بلوچوں کی زبان بن کر ابھری ہے جنہیں نامعلوم گاڑیوں میں اغوا کر کے اندھی کوٹھڑیوں میں پھینکا گیا، جن کے جسموں پر صرف تشدد کے نشان ہی باقی رہ گئے، اور جن کی مائیں تصویریں اٹھائے دن رات عدالتوں، پریس کلبوں اور شاہراہوں پر انصاف کی بھیگ مانگتی ہیں۔
اس خط کی ایک ایک سطر ریاست کے اس چہرے کو بے نقاب کرتی ہے جو جمہوریت، قانون اور آئین کی چادر اوڑھے ہوئے بلوچ شناخت، سوچ اور وجود کے خلاف برسرپیکار ہے۔ یہ خط فاشزم، عسکریت اور نوآبادیاتی ظلم کے سامنے ایک انسانی وجود کی چیخ ہے، جو زندانوں  میں  ہیں ہے مگر اپنی صداقت، نظریے، اور مقصد کے باعث فولادی دیوار ہے۔
یہ خط ان  ریاستی کاسہ لیس صحافیوں کے لیے بھی ایک چیلنج ہے۔ وہ میڈیا جو ریاستی بیانیے کو خوشنما بنا کر دکھاتا ہے، جو گمشدہ بلوچ نوجوانوں کی خبریں سنسر کرتا ہے، اس کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے۔ یہ خط ان "غیر جانبدار” تجزیہ کاروں، صحافیوں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کو بے نقاب کرتا ہے جن کی غیر جانبداری ریاست کے جبر کے سامنے ہمیشہ دم توڑ دیتی ہے۔تم جو خود کو صحافت کے روشن مینار کہتے ہو، جن کے قلم کی سیاہی ریاستی مراعات سے بھرتی ہے، جن کی زبان پر آئین کی قسمیں اور ضمیر میں فقط غلامی کی مہریں ثبت ہیں، تمہارے لیے یہ خط ایک آئینہ ہے —ایسا آئینہ جو تمہیں تمہارے اصل چہرے کے ساتھ روبرو کرتا ہے، جہاں تمہاری غیر جانبداری، ریاستی جبر کے قدموں میں پڑی سسک رہی ہے۔
تم نے ہمیشہ حقائق کو دفن کیا، تم نے ہمیشہ مظلوم کی آواز کو شورش قرار دیا، تم نے ہمیشہ ان گمشدہ نوجوانوں کی آنکھوں میں جھانکنے سے گریز کیا جنہیں ریاستی عقوبت خانوں کے اندھیرے نگل چکے ہیں۔ تمہاری صحافت مصلحت کی چادر اوڑھے قبرستان کی خامشی میں بدل چکی ہے، اور تمہیں اس خامشی میں ایک "قومی فریضہ” سنائی دیتا ہے۔
تم وہ ہو جو آزادی کی صداؤں کو بغاوت کے نام پر خاموش کراتے ہو، تم وہ ہو جو خاردار باڑوں اور فوجی چوکیوں کو "ترقیاتی منصوبے ” قرار دیتے ہو، تم وہ ہو جو ماں کے کرب کو“ریاست مخالف پراپیگنڈا”کہہ کر
سنسر کرتے ہو۔ تمہاری صحافت کوئی ستون نہیں، یہ نوآبادیاتی محل کا وہ جھوٹا آئینہ ہے جس میں صرف طاقتور کا عکس دکھایا جاتا ہے۔
اور تم، ا "غیر جانبدار” تجزیہ کار، تم وہ مجرم ہو جو فلسفے، تجزیے اور اعدادوشمار کے پردے میں سچ کی گردن کاٹتے ہو۔ تمہارے ہر تبصرے میں طاقت کے ساتھ جبرکیساتھ وفاداری  اور نمک حلالی کی مہک آتی ہے۔ تم ریاستی بیانیے کے چالاک معمار ہو، جن کی غیر جانبداری کی ترازو ہمیشہ ظالم کے پلڑے میں جھکتی ہے۔ تمہاری زبان کی بے حسی، انسانی حقوق کے علمبرداروں کی خامشی، اور تمہارے اداروں کیمنافقت—یہ سب اس جبر کا حصہ ہیں جسے تم "قانون کی بالادستی” کا نام دیتے ہو۔
کیا تمہاری غیر جانبداری میں وہ چیخیں شامل ہیں جو حراستی مراکز کی دیواروں سے ٹکرا کر لوٹ آتی ہیں؟کیا تمہاری تجزیاتی بصیرت اتنی اندھی ہے کہ اسے صرف وہی دکھائی دیتا ہے جو ریاستی کیمرہ دکھاتا ہے؟ہم تم سے پوچھتے ہیں، نہیں —ہم تمہیں جھنجھوڑتے ہیں —کہ کب تمہارا قلم آزاد ہوا تھا؟کب تم نے آخری بار کسی لاپتہ کی تصویر کو صفحہئ اول پر چھاپا تھا؟کب تم نے آخری بار ریاست کی وردی کو سوالوں کے کٹہرے میں کھڑا کیا تھا؟تم جو کہتے ہو کہ ہم متعصب ہیں،تم جو کہتے ہو کہ ہم شور کرتے ہیں،کیا تم نے کبھی اپنی خامشی کی قیمت پر غور کیا؟کیا یہ ممکن ہے کہ تمہاری خاموشی بھی ایک نظریہ ہو—وہی نظریہ جو بکتر بند گاڑیوں میں سفر کرتا ہے،وہی نظریہ جو رات کے سناٹے میں دروازے توڑتا ہے،اور جو ہر سوال کو غداری میں تولتا ہے؟
ہم سوال کرتے ہیں:کیا صحافت صرف وہی ہے جو نیوز روم کے ایئر کنڈیشنر میں پنپے؟کیا غیر جانبداری کا مطلب یہ ہے کہ ظالم اور مظلوم کو ایک ہی ترازو میں تولا جائے؟کیا تم نے کبھی سوچا کہ وہ بلوچ ماں، جو اپنے بیٹے کی تصویر لیے بیٹھتی ہے،اس کے آنسو تمہارے تجزیے میں کہاں فٹ آتے ہیں؟تم جو انسانی حقوق کے علمبردار بنے پھرتے ہو،کیا تمہاری تعریفِ انسانیت میں ”بلوچ“سرسری سے حاشیے میں لکھے گئے فقروں سے آگے بڑھتے ہیں؟
یہ خط تمہارے لیے ہے۔نہیں، یہ خط تمہارے ضمیر کے لیے ہے —اگر وہ اب بھی کسی قبر میں دفن نہیں ہو چکا۔یہ وہ آئینہ ہے جس میں تم اپنا چہرہ نہیں،اپنے چہرے پر پڑی منافقت کی دھند دیکھو گے۔اور اگر تم واقعی صحافی ہو،
اگر واقعی تمہارے اندر صحافت کی تقدیس زندہ ہیں —تو اٹھو۔ لکھو۔اور اگر نہیں —تو یاد رکھو، تاریخ خامشی کو بھی درج کرتی ہے۔لیکن وہ اسے جرم کے کالم میں لکھتی ہے۔کیا تمہیں یہ قیمت قبول ہے
یہ خط ایک —ایک فکری گولی، جو تمہارے ضمیر پر چلائی گئی ہے۔ یہ گمشدہ نوجوانوں کی طرف سے وہ سوال ہے جس کا جواب تمہارے پاس نہیں، کیونکہ تم نے سوالوں کو جرم اور سچ کو دہشت بنا دیا ہے۔ یہ تمہیں یاد دلاتا ہے کہ تاریخ خاموش نہیں رہتی۔ وہ لکھتی ہے، محفوظ کرتی ہے، اور ایک دن حساب لیتی ہے۔جب تخت گرتے ہیں اور محرابیں خاک ہوتی ہیں، تو یہی سچ، جو تم نے دفن کیا، مٹی سے اٹھ کر تمہاری قبروں پر نوحے لکھتا ہے۔
سنسر کرتے ہو۔ تمہاری صحافت کوئی ستون نہیں، یہ نوآبادیاتی محل کا وہ جھوٹا آئینہ ہے جس میں صرف طاقتور کا عکس دکھایا جاتا ہے۔
اور تم، ا "غیر جانبدار” تجزیہ کار، تم وہ مجرم ہو جو فلسفے، تجزیے اور اعدادوشمار کے پردے میں سچ کی گردن کاٹتے ہو۔ تمہارے ہر تبصرے میں طاقت کے ساتھ جبرکیساتھ وفاداری  اور نمک حلالی کی مہک آتی ہے۔ تم ریاستی بیانیے کے چالاک معمار ہو، جن کی غیر جانبداری کی ترازو ہمیشہ ظالم کے پلڑے میں جھکتی ہے۔ تمہاری زبان کی بے حسی، انسانی حقوق کے علمبرداروں کی خامشی، اور تمہارے اداروں کی
منافقت—یہ سب اس جبر کا حصہ ہیں جسے تم "قانون کی بالادستی” کا نام دیتے ہو۔
کیا تمہاری غیر جانبداری میں وہ چیخیں شامل ہیں جو حراستی مراکز کی دیواروں سے ٹکرا کر لوٹ آتی ہیں؟کیا تمہاری تجزیاتی بصیرت اتنی اندھی ہے کہ اسے صرف وہی دکھائی دیتا ہے جو ریاستی کیمرہ دکھاتا ہے؟ہم تم سے پوچھتے ہیں، نہیں —ہم تمہیں جھنجھوڑتے ہیں —کہ کب تمہارا قلم آزاد ہوا تھا؟کب تم نے آخری بار کسی لاپتہ کی تصویر کو صفحہئ اول پر چھاپا تھا؟کب تم نے آخری بار ریاست کی وردی کو سوالوں کے کٹہرے میں کھڑا کیا تھا؟تم جو کہتے ہو کہ ہم متعصب ہیں،تم جو کہتے ہو کہ ہم شور کرتے ہیں،کیا تم نے کبھی اپنی خامشی کی قیمت پر غور کیا؟کیا یہ ممکن ہے کہ تمہاری خاموشی بھی ایک نظریہ ہو—وہی نظریہ جو بکتر بند گاڑیوں میں سفر کرتا ہے،وہی نظریہ جو رات کے سناٹے میں دروازے توڑتا ہے،اور جو ہر سوال کو غداری میں تولتا ہے؟
ہم سوال کرتے ہیں:کیا صحافت صرف وہی ہے جو نیوز روم کے ایئر کنڈیشنر میں پنپے؟کیا غیر جانبداری کا مطلب یہ ہے کہ ظالم اور مظلوم کو ایک ہی ترازو میں تولا جائے؟کیا تم نے کبھی سوچا کہ وہ بلوچ ماں، جو اپنے بیٹے کی تصویر لیے بیٹھتی ہے،اس کے آنسو تمہارے تجزیے میں کہاں فٹ آتے ہیں؟تم جو انسانی حقوق کے علمبردار بنے پھرتے ہو،کیا تمہاری تعریفِ انسانیت میں ”بلوچ“سرسری سے حاشیے میں لکھے گئے فقروں سے آگے بڑھتے ہیں؟
یہ خط تمہارے لیے ہے۔نہیں، یہ خط تمہارے ضمیر کے لیے ہے —اگر وہ اب بھی کسی قبر میں دفن نہیں ہو چکا۔یہ وہ آئینہ ہے جس میں تم اپنا چہرہ نہیں،اپنے چہرے پر پڑی منافقت کی دھند دیکھو گے۔اور اگر تم واقعی صحافی ہو،
اگر واقعی تمہارے اندر صحافت کی تقدیس زندہ ہیں —تو اٹھو۔ لکھو۔اور اگر نہیں —تو یاد رکھو، تاریخ خامشی کو بھی درج کرتی ہے۔لیکن وہ اسے جرم کے کالم میں لکھتی ہے۔کیا تمہیں یہ قیمت قبول ہے
یہ خط ایک —ایک فکری گولی، جو تمہارے ضمیر پر چلائی گئی ہے۔ یہ گمشدہ نوجوانوں کی طرف سے وہ سوال ہے جس کا جواب تمہارے پاس نہیں، کیونکہ تم نے سوالوں کو جرم اور سچ کو دہشت بنا دیا ہے۔ یہ تمہیں یاد دلاتا ہے کہ تاریخ خاموش نہیں رہتی۔ وہ لکھتی ہے، محفوظ کرتی ہے، اور ایک دن حساب لیتی ہے۔جب تخت گرتے ہیں اور محرابیں خاک ہوتی ہیں، تو یہی سچ، جو تم نے دفن کیا، مٹی سے اٹھ کر تمہاری قبروں پر نوحے لکھتا ہے۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

قلات اور کیچ میں مسلح افراد کی ناکہ بندی و چیکنگ، سیندک سپلائی گاڑیوں پر حملہ

اتوار اپریل 27 , 2025
قلات کے علاقے گزنائی اور منگوچر میں اتوار کے روز بڑی تعداد میں مسلح افراد نے مرکزی شاہراہ کو بلاک کر کے گاڑیوں کی چیکنگ کی۔ اطلاعات کے مطابق مسلح افراد نے سیندک منصوبے کی سپلائی گاڑیوں کو راکٹ لانچر اور دیگر بھاری ہتھیاروں سے نشانہ بنایا۔ تاہم تاحال کسی […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ