تحریر : مہر در بلوچ

قید و بند کی سلاخوں کے پیچھے، شال ہدہ جیل کی ایک تاریک کال کوٹھری سے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے جو سوال اٹھایا ہے — "ہمیں کیا کرنا ہے؟” — وہ محض ایک استفسار نہیں بلکہ پوری بلوچ قوم کے شعور پر دستک ہے۔ یہ سوال نہ صرف بی وائی سی سے نہیں بلکہ ہر بلوچ نوجوان، استاد، دانشور، ادیب، مزدور، ماں، بہن، طالبعلم سیاسی کارکن اور ہر اس فرد سے ہیں جو خود کو بلوچ قومی تحریک کا ایک باشعور جزو سمجھتاہے ۔ یہ سوال ہمیں تاریخ کی ان چوراہوں میں لے جاتا ہے جہاں صرف جواب نہیں، بلکہ ذمہ داریاں بھی منتظر ہوتی ہیں۔”
ماہ رنگ کا سوال محض ایک تاریخی جملہ نہیں، بلکہ ایک تاریخی لمحہ، ایک فکری حوصلہ، اور ایک انقلابی یاد دہانی ہے۔”
یہ ہمیں اس مقام پر لا کھڑا کرتا ہے جہاں خاموشی شکست بن سکتی ہے اور شعوری قدم مستقبل کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔ یہ سوال یاد دہانی ہے کہ مزاحمت محض وقتی اشثعال کانام نہیں بلکہ نظریاتی شعور، تنظیمی مرکزیت، اور فکری ہم آہنگی کا عمل ہے۔ ان کا یہ سوال لینن کے تاریخی جملے ” what is to be doneکی بازگشت ہے — وہی سوال جو ہر انقلابی لمحے میں اٹھتا ہے: اب ہمیں کیا کرنا ہے؟ سوال صرف یہ نہیں کہ دشمن کیا کر رہا ہے، بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں؟ اور ہمیں کیا کرنا ہے؟
یہ سوال ہمیں فینن کے الجزائر، منڈیلا کے جنوبی افریقہ، چی گویرا کے لاطینی امریکہ، اور بھگت سنگھ کے ہندوستان کی جدوجہد سے جوڑتا ہے — جہاں ہر سوال، ہر قربانی، اور ہر مزاحمت ایک بڑے فکری پس منظر سے جڑی تھی۔ ماہ رنگ بلوچ کا سوال بھی اسی کڑی کا تسلسل ہے۔
ڈاکٹر ماہ رنگ یاد دلاتی ہیں کہ تحریک کی روح ردعمل میں نہیں بلکہ نظریاتی رہنمائی، فکری مرکزیت اور تنظیمی وحدت میں ہے۔ ان کے نزدیک آزادی ایک قدرتی نتیجہ نہیں بلکہ مسلسل مزاحمت، ، فکری بالیدگی، قومی شعور اور نظریاتی ترقی کا ثمر ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ڈاکٹر ماہ رنگ کا اشارہ ایک تلخ حقیقت کی طرف ہے: ہماری عوامی مزاحمت کو گہری فکری اور سیاسی نظرِ ثانی کی ضرورت ہے۔ یہ وقت محض نوحہ گری کا نہیں بلکہ انقلابی تنظیمِ نو کا ہے، اور اس کے لیے ایک واضح، ٹھوس، مدلل بیانیہ اور درست نظریاتی نقشہ کشی ضروری ہے۔
جب ایک بلوچ سیاسی رہنما قید کے اندھیروں اور جبر کی دبیز تہوں کے درمیان یہ سوال اٹھاتا ہے کہ "ہمیں کیا کرنا ہے؟” — تو یہ سوال محض کسی مخصوص تنظیمی لائحہ عمل تک محدود نہیں رہتا، بلکہ پوری قوم کو اس کی ذمہ داریوں کا احساس دلاتا ہے۔ یہ ہمیں یہ سمجھاتا ہے کہ مزاحمت کو محض رومان میں لپیٹ کر خاموش ہو جانا ایک ناقابلِ معافی غفلت ہے۔ "بلکہ ہمیں چاہیے کہ اس میراث کو اپنی وراثت سمجھ کر اپنائیں اور اسے اس مقام تک پہنچائیں جو ایک زندہ تحریک، بیدار قوم، اور انقلابی نسل کے شایانِ شان ہو۔”
"ہمیں کیا کرنا ہے؟” — ہمیں اٹھنا ہے۔ اپنی سستی، مایوسی اور کمزوریوں کے خلاف بغاوت کرنی ہے، جو کسی بھی قوم کو غلامی کی طرف دھکیلتی ہیں۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی یہ تحریر نہ صرف بلوچ قومی مزاحمت کا عکاس بیانیہ ہے، بلکہ یہ ایک ایسی فکری زمین کی دریافت بھی ہے جہاں تنظیم، شعور اور جدوجہد ایک نئے نظریاتی رشتے میں پروئے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر ماہ رنگ اس امر پر زور دیتی ہیں کہ جو کچھ ہماری تحریک کے ساتھ ہو رہا ہے، وہ محض "کریک ڈاؤن” نہیں بلکہ "کالونیل جبر” ہے۔ یہ اصطلاحی تفریق صرف الفاظ کا کھیل نہیں بلکہ ایک گہری سیاسی حقیقت کا نظریاتی تجزیہ ہے۔ "کریک ڈاؤن” ایک وقتی، قانونی اور عارضی اصطلاح ہے، جب کہ "کالونیل جبر” ایک مستقل، ساختیاتی اور تاریخی حقیقت ہے۔
اسی نوعیت کی وضاحت فرانز فینن کرتا ہے، جو الجزائر کی نوآبادیاتی جدوجہد کا فکری معمار ہے۔ فینن کہتا ہے کہ نوآبادیاتی جبر صرف بندوق کی نالی سے نہیں بلکہ شعور کی تشکیلِ نو سے بھی قائم رہتا ہے۔ ڈاکٹر ماہ رنگ اسی فکری بنیاد پر شعور کی مرکزیت پر زور دیتی ہیں — کہ اصل شکست گرفتاری نہیں بلکہ فکری پسماندگی ہے۔
ماہ رنگ کا استدلال واضح ہے: "تنظیم” محض افراد کا مجموعہ نہیں، بلکہ شعور کی اجتماعی شکل ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جو انقلابی تحریک کو محض احتجاج یا ردِعمل سے الگ کرتا ہے، اور ایک باقاعدہ نظریاتی و تنظیمی عمل میں بدلتا ہے۔
اسی تناظر میں انٹونیو گرامشی کا تصورِ (Intellectual Organic)خاص اہمیت اختیار کرتا ہے۔ گرامشی کے مطابق ہر قومی جدوجہد میں ایسے دانشور ابھرتے ہیں جو نہ صرف اپنی قوم کی نمائندگی کرتے ہیں بلکہ اس کے شعور کی تشکیل کا فریضہ بھی انجام دیتے ہیں۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ گرامشی کے اسی تصور کے عین مطابق ایک اورگینک انٹیلیکچوئل ہیں — وہ ایک نظریہ ساز، ایک تنظیمی مرکز، ایک مزاحمتی آواز اور ایک راجی راہشون ہیں۔
"ڈاکٹر ماہ رنگ کی تحریر میں سب سے نمایاں اور وزنی نکتہ یہ ہے کہ گرفتاری یا تشدد شکست کی علامت نہیں.، بلکہ اصل شکست سیاسی اور فکری کھوکھلا پن ہے۔ یہی بات فلسطینی مصنف اور مزاحمتی دانشور غسان کنفانی بارہا دہراتے ہیں — کہ شکست وہ نہیں جب کوئی گولی سے مارا جائے، بلکہ جب کوئی اپنی قوم، اپنی تاریخ اور اپنے مقصد سے بے خبر ہو جائے۔
چی گویرا بھی کہتا ہے کہ ایک انقلابی وہ ہوتا ہے جو محبت سے رہنمائی لیتا ہے — لیکن یہ محبت نظم، شعور اور قربانی سے عبارت ہوتی ہے۔ ڈاکٹر ماہ رنگ اسی اصول پر کاربند نظر آتی ہیں جب وہ کہتی ہیں کہ "منظم رہنا ہماری مجبوری نہیں، بلکہ ہماری طاقت ہے۔”
عہدِ حاضر کی انقلابی تحریکوں کے لیے ایک بڑا چیلنج سوشل میڈیا بھی ہے۔ جہاں یہ ذریعہ تحریکوں کے پیغام کو وسعت دے سکتا ہے، وہیں یہ فوری ردِعمل، سطحی تجزیوں اور جذباتی مباحث کا میدان بھی بن جاتا ہے۔ ڈاکٹر ماہ رنگ اس خطرے سے بخوبی واقف ہیں اور خبردار کرتی ہیں کہ سوشل میڈیا کی کج بحثی سے متاثر ہو کر فیصلے لینا تنظیمی شعور کی توہین ہے۔
یہی وہ چیلنج تھا جس کا سامنا عرب بہار کے دوران بھی کیا گیا — جہاں تنظیمی ڈھانچے کی عدم موجودگی نے کئی تحاریک کو وقتی ابال میں تحلیل کر دیا۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا پیغام واضح ہے: مرکزیت، تربیت یافتہ کیڈر، اور نظریاتی یکسانیت کے بغیر مزاحمت دیرپا نہیں ہو سکتی۔
بی وائی سی محض ایک تنظیم نہیں، بلکہ بلوچ مزاحمتی تاریخ کا ایک ارتقائی تسلسل ہے۔ اس کی بنیاد کسی جز وقتی ردِعمل پر نہیں، بلکہ ایک گہرے نظریاتی، تنظیمی اور فکری ڈھانچے پر رکھی گئی ہے۔ ڈاکٹر ماہ رنگ اسے ایک "نیٹ” کہتی ہیں — ایک ایسا جال جو یونٹ سے مرکز تک ہر کارکن کو شعور اور عمل کے ذریعے منسلک رکھتا ہے۔
یہی ماڈل ہمیں ویتنام کی تحریکِ آزادی، بولیویا میں چی گویرا کی گوریلا تنظیم، یا جنوبی افریقہ کی ANC میں بھی نظر آتا ہے — جہاں کامیابی
کا راز فقط قربانی میں نہیں، بلکہ قربانی کے نظریاتی شعور میں پوشیدہ تھا۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا پیغام ایک انقلابی نظریاتی منشور ہے۔ یہ منشور وضاحت کرتی ہےکہ آزادی کی جدوجہد کا پہلا مورچہ شعورہے۔ جب شعور محفوظ، منظم اور مرکزیت یافتہ ہو، تو شکست کا کوئی امکان نہیں۔
ان کی تحریر فینن کے اس قول کی تجسیم ہے کہ نوآبادیات جسم سے زیادہ ذہن کو غلام بناتی ہے — اور مزاحمت بندوق کے ساتھ، فکری بیداری سے جنم لیتی ہے۔
بلوچ قومی تحریک کی تاریخ میں اس فکری مزاحمت کی جڑیں گہری ہیں، اور آج بی وائی سی جیسے انقلابی تنظیمی دھارے اسی فکری تسلسل کی علامت ہیں۔ ڈاکٹر ماہ رنگ کا پیغام ہمیں یہ احساس دلاتا ہے کہ تحریک کا نظریاتی تسلسل اور تنظیمی جڑت صرف جذبے سے نہیں، بلکہ مسلسل فکری محنت، سیاسی تجزیے اور خود تنقیدی عمل سے پروان چڑھتی ہے۔
جب وہ کہتی ہیں کہ "ہمیں کسی ایک لمحے کے لیے بھی منتشر نہیں ہونا”، تو وہ ہمیں چی گویرا کی اس بات کی یاد دلاتی ہیں کہ:
"The true revlutionary is guided by great feelings of love
یعنی، "ایک سچا انقلابی عظیم محبت کے جذبے سے رہنمائی حاصل کرتا ہے "۔ مگر یہ محبت محض ایک رومانوی تصور نہیں بلکہ انقلابی جدوجہد کی روحانی اور اخلاقی بنیاد ہے۔ یہ وہ جذبہ ہے جو انقلابی کو نفرت یا انتقام سے نہیں، بلکہ مظلوم انسانوں سے بے پناہ محبت سے جوڑتا ہے۔
ڈاکٹر ماہ رنگ کی زبان، سوچ اور بیانیہ اسی گہرے جذبہئ محبت کا مظہر ہے۔ وہ جب کہتی ہیں کہ "منظم رہنا ہماری مجبوری نہیں بلکہ ہماری طاقت ہے "، تو یہ فقط ایک تنظیمی ہدایت نہیں، بلکہ قوم کے لئے ایک محبت بھرا پیغام ہے۔ ایک ایسی محبت ہے جو شکست سے نہیں ڈرتی،جبر سے نہیں ٹوٹتی، اور وقت کے امتحان سے گزر کر مزید پختہ ہوجاتی ہے۔ ان کی ہرسطر ایک عہد ہے کہ ہم صرف لکھنے والے قوم نہیں، عمل کرنے والی قوم ہیں۔
ڈاکٹر ماہ رنگ کے پیغام میں ایک گہرا فلسفہ پوشیدہ ہے — کہ جسمانی قید سے زیادہ خطرناک قید غلامی ہے، اور آزادی سے پہلے آزادیئ فکر ضروری ہے۔ عام قید محض جسمانی پابندی ہے، جو انسان کو سلاخوں کے پیچھے بند کر دیتی ہے، اس کی نقل و حرکت محدود کر دیتی ہے۔ مگر غلامی کی قید ایک باطنی جکڑ بندی ہے، جو روح، ضمیر، سوچ اور احساس کو زنجیروں میں جکڑ لیتی ہے۔ یہ قید اندرونی ہوتی ہے — اور سب سے خطرناک بات یہ ہیکہ انسان کو اس کے وجود کا شعور بھی نہیں رہتا۔
غلامی کی سب سے خطرناک شکل وہ ہے جو خود کو آزادی کے لبادے میں چھپا لیتی ہے — یعنی جب مقبوضہ قوم قابض کے "ترقی”، "ترقی پسند اقدار” اور "امن” جیسے بیانیوں کو قبول کر کے اپنی فطری آزادی کو فراموش کر بیٹھتی ہے۔
اس کے مقابلے میں آزادی فکر وہ پہلا پتھر ہے جس پر ہر مزاحمتی عمارت تعمیر کی جاتی ہے۔ جب تک فرد یا قوم سامراجی بیانیے، ریاستی
پروپیگنڈے، اور موروثی غلامانہ ذہنیت سے آزاد نہیں ہوتے، تب تک کوئی بھی آزادی، آزادی نہیں۔
آزادی فکر کا مطلب ہے: انسان سوال کر سکے، رد کر سکے، نیا تخلیق کر سکے۔ اگر ہمارے نوجوان — جو یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں — اپنے قومی، فکری اور سیاسی سوالات سے خالی ہیں، تو وہ ایک زندہ لاش کے سوا کچھ نہیں۔
یہ نکتہ نہ صرف ذہنی بلکہ عملی طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جب تک ہم قیدِ غلامی کو شناخت نہیں کرتے، تب تک ہماری مزاحمت سطحی رہے گی۔ حقیقی مزاحمت وہی ہے جو پہلے دماغ کی زنجیروں کو توڑتی ہے۔ وہی قوم آزادی حاصل کرتی ہے جو شعوری طور پر آزاد ہو چکی ہو۔ ہزاروں گمنام شہداء کی قربانی کا مفہوم بھی یہی ہے: کہ جب فکر آزاد ہو، تو قید و شہادتیں جسم کو محدود نہیں کر سکتیں۔
اور یہاں یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ آزادی کوئی سرحدی یا پرچمی تصور نہیں، بلکہ ایک فکری، شعوری، اور وجودی حالت ہے۔ ہم تبھی آزاد ہوں گے جب ہم سوچنے، سوال کرنے، اور خود کو بیان کرنے کے قابل ہوں گے — تبھی ہم اپنی شناخت، تاریخ اور مستقبل کو خود متعین کر سکیں گے۔
جسمانی طور پر قید ہونا یا جیل سے باہر آ جانا آزادی نہیں۔ اگر ہمارے خیالات، ہماری تعلیم، ہماری زمین، ہماری ثقافت، ہمارا ادب، ہماری دانش، اور ہمارا وجود غلامی میں جکڑے ہوں، تو ہم ہر وقت، ہر لمحہ قید میں ہیں — اور یہ قید جیل کی سلاخوں سے کہیں زیادہ خطرناک ہوتی ہے
"ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ مزاحمت کی کامیابی صرف وقتی فتح کے دن سے مشروط نہیں، بلکہ اس مسلسل
فکری جدوجہد سے وابستہ ہے، جو ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتی ہے — جو زندہ رہنے کا نہیں، جینے کے معنی تخلیق کرنے کا عمل ہے۔”
تنظیم، مرکزیت، شعور، خودتنقیدی اور مسلسل تجزیہ — یہی وہ ستون ہیں جن پر ہر انقلابی تحریک استوار ہوتی ہے۔ اور یہی ڈاکٹر ماہ رنگ کے پیغام کی اصل روح ہے — ایک ایسی روح جو قید کی دیواروں سے کہیں زیادہ وسیع، گہری اور ہمہ گیر ہے۔ یہ ایک سوچ ہے، ایک رجحان ہے، ایک نظریاتی تجدید۔
ماہ رنگ کا کہنا ہے کہ تشدد، گرفتاری یا احتجاج سے گریز شکست کی علامت نہیں۔ شکست، درحقیقت، فکری پسماندگی کا نام ہے۔ یہ ایک گہرا، انقلابی نکتہ ہے جو ہمیں مزاحمت کی ظاہری علامتوں سے نکال کر اس کی فکری بنیادوں کی طرف لے جاتا ہے۔ ایک ایسے عہد میں، جب جبر کو معمول بنا دیا گیا ہے اور شعور کو جذبات کے تابع کرنے کی ترغیب دی جا رہی ہے، اس وقت یہ بات — کہ سیاسی و فکری مرکزیت ہی اصل قوت ہے — ایک انقلابی راہنمائی کی حیثیت رکھتی ہے۔
یہ وہ لمحہ ہے جب تنظیم محض ایک ساخت نہیں رہتی بلکہ شعور کی تجسیم بن جاتی ہے؛ جب مرکزیت صرف ہدایت کا ذریعہ نہیں، بلکہ فکری تربیت کا سرچشمہ بن جاتی ہے۔ ڈاکٹر ماہ رنگ اس فکری نظم کی بات کر رہی ہیں جو تنظیم کو ایک ایسے جال میں پروتی ہے جو نہ صرف جسموں کو، بلکہ ذہنوں کو بھی باہم مربوط کرتا ہے۔
یہ کوئی سادہ پیغام نہیں بلکہ ایک تھیسس ہے — کہ قوموں کی نجات سیاسی احتجاج یا محض علامتی مزاحمتی سے نہیں، بلکہ فکری تنظیم اور مسلسل نظریاتی جستجو سے مشروط ہے۔
ماہ رنگ کا پیغام اس حقیقت کی گواہی ہے کہ مزاحمت محض ایک عمل نہیں، بلکہ ایک شعور ہے۔ اور یہ شعور اُس وقت تک مؤثر نہیں بن سکتا جب تک وہ منظم نہ ہو، اور جب تک وہ جذبات سے بالاتر ہو کر عقل و تنقیدی فکر سے مسلح نہ ہو۔ یہی وہ نکتہ ہے جہاں تنظیم ایک مقدس حیثیت اختیار کر لیتی ہے — نہ صرف اس لیے کہ وہ قوت فراہم کرتی ہے، بلکہ اس لیے بھی کہ وہ فکر کو زندہ رکھتی ہے۔
آخر میں، ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا یہ پیغام ہمیں یاد دلاتا ہے کہ قید و بند کا سامنا کرنے والے جسم شاید وقتی طور پر محدود کیے جا سکتے ہیں، مگر وہ ذہن، جو مسلسل غور و فکر میں مصروف ہو، وہی اصل آزادی کی ضمانت ہے۔ یہی وہ فکری مزاحمت ہے جو جیل کی کوٹھریوں سے نکل کر پورے عہد کی رہنمائی کرتی ہے۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی فکر، پیغام، اور مزاحمتی بصیرت ہمارے لیے ایک فکری میراث ہے۔ یہ میراث ہمیں یاد دلاتی ہے کہ قوموں کو صرف دشمن نہیں مٹاتے، بلکہ ان کا فکری خلا انہیں بے نام کر دیتا ہے۔ اس لیے ہمیں جواب دینا ہے — اور وہ جواب صرف ایک سوال سے شروع ہوتا ہے:
"ہمیں کیا کرنا ہے؟”