گلزادی بلوچ کا جیل سے پیغام، تاریخی و انقلابی مکتوب

تحریر: رامین بلوچ — دوسرا حصہ
زرمبش مضمون

یہ تحریر گلزادی کے خط کا تسلسل اور تناظر ہے؛ یہ اس آواز کا عکس ہے جو جیل کی سلاخوں سے گزر کر پہاڑوں تک پہنچتی ہے، اور وہاں سے میدانِ سیاست، فکر، اور مزاحمت میں گونجتی ہے۔ یہ تحریر ایک پیغام ہے — بلوچ عورت نہ کمزور ہے، نہ خاموش، نہ کسی کی ڈھال، نہ مظلوم شے۔ وہ اس جدوجہد کی روح ہے، وہ نظریے کی محافظ ہے، وہ آزادی کی متلاشی ہی نہیں، بلکہ اس کی معمار ہے۔

بلوچ قوم کی نجات اس وقت ممکن ہے جب ہم گلزادی جیسے کرداروں کو فقط ایک خبر یا ایک مکتوب کے طور پر نہیں، بلکہ فکری اور سیاسی رہنما کے طور پر تسلیم کریں۔ کیوں کہ جب عورت زندان سے شعور کا پیغام دے، تو سمجھ لو کہ وہ قوم کبھی غلامی کے اندھیروں میں دفن نہیں ہو سکتی۔

۔گلزادی بلوچ کی جدوجہد، اس کی گرفتاری، جیل کی اذیتیں، اور اس کے قلم سے لکھا گیا خط — یہ سب کچھ محض ان کی ذاتی المیات نہیں بلکہ وہ راجی بیانیہ ہے جو بلوچ مزاحمت کے قلب سے ابھرتا ہے۔ وہ جیل میں ہے، لیکن خاموش نہیں۔ وہ اذیت میں ہے، لیکن مصلحت میں نہیں۔ اس کا خط وہ صدا ہے جو بند دروازوں سے ٹکرا کر پوری قوم کے ضمیر کو جھنجھوڑتی ہے۔ اس کے الفاظ میں وہ سچائی، وہ شعور اور وہ عزم ہے جو تاریخ کے ہر دور میں انقلابات کی اساس بنتا رہا ہے۔

گلزادی کو دیکھ کر یہ گمان نہیں ہوتا کہ وہ کسی خوف کا شکار ہے۔ بلکہ اس کی آنکھوں میں وہ جرات، وہ دلیرانہ شعلہ اور وہ نظریاتی پختگی دکھائی دیتی ہے جو فقط انقلابی عورتوں کے حصے میں آتی ہے۔ وہ وہی بلوچ عورت ہے جو غلامی کی رات میں مزاحمت کی شمع روشن کرتی ہے۔ جو صرف نعرہ نہیں لگاتی، بلکہ نعرے کو نظریہ بناتی ہے۔ جو فقط احتجاج نہیں کرتی، بلکہ فکر سے مزاحمت کی تاریخ تراشتے ہیں بلوچ انقلابی تحریک کی روح میں جس شدت، جس درد، اور جس امید کی تمنا ہے، وہ گلزادی بلوچ کی صورت میں زندہ ہے۔ وہ ایک سوال ہے ہر اُس ذہن کے لیے جو عورت کو صرف کمزور سمجھتا ہے۔ وہ ایک دلیل ہے ہر اُس معاشرے کے لیے جو عورت کو سیاست سے دور رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اور وہ ایک روشن حقیقت ہے ہر اس قوم کے لیے جو اپنی آزادی کی بنیاد عورت کی بیداری پر رکھتی ہے۔

بلوچ مزاحمت، شعور کی اُس سطح کا نام ہے جو ماں کی گود سے جنم لیتی ہے۔ گلزادی بلوچ جیسے جری کردارجبر کے زندانوں میں گونج بن کر ابھرتے ہیں کہ قوم کی آزادی کی جنگ میں عورت محض ہمدرد نہیں بلکہ، قیادت کرتی ہے۔ اور محاذ کے اگلے مورچوں میں نظر آتی ہے وہ جانتے ہیں کے جب شعورمزاحمت، جبر و غلامی کی زنجیروں کو پاش پاش کرے گا،تو صرف جسم کو قید کرنے والی سلاخیں نہیں، آزادی کوقید رکھنے والے وحشیانہ نظام بھی ٹوٹ کر بکھر جائے گا۔ اور جس دن بلوچ عورت مکمل طور پر شعور کی صفِ اول میں آ گئی، وہ دن نوآبادیاتی نظام کی آخری رات ہو گی۔

بلوچ قومی جدوجہد ایک طویل اور کٹھن سفر سے گزرہی ہے، بلوچ قومی مزاحمت کی تاریخ لاوارث قبروں، گمشدہ چہروں اور سنگینوں کے سائے میں لکھی گئی داستان ہے۔ یہ وہ جدوجہد ہے جو لاپتہ افراد کی ماؤں کی آنکھوں میں ٹمٹماتے انتظار، مسخ شدہ لاشوں کے چیختی ہوئی نوحہ، اور نام نہاد مقابلوں میں شہید ہونے والوں کے خون سے عبارت ہے۔ لیکن اس تمام تر المیے کے اندر جو سب سے روشن اور انقلابی پہلو ابھرا ہے، وہ بلوچ عورت کی متحرک، وژنری اور شعوری شمولیت ہے —ایک ایسی شمولیت جو صرف علامتی شرکت تک محدود نہیں، بلکہ جس نے جدوجہد کی فکر، سمت، اور مزاحمت کی زبان کو نئی شناخت بخشی ہے۔ بلوچ عورت، جو روایتی فرسودگیوں کی زنجیروں سے نکل کر آج مزاحمت کا معماربن چکی ہے۔ وہ ماتم نہیں کرتی، وہ پرسہ پر نہیں بھیٹتی کی علامت بن کر ابھری ہے۔ بلوچ عورت کی یہ نظریاتی بیداری، سیاسی بلوغت فکری گہرائی ایک خودمختار سیاسی شعور کا ظہور ہے —ایسا شعور جو ریاستی طاقت کو مظلومیت کی آنکھ سے نہیں دیکھتا، بلکہ نظریاتی سوالات، انقلابی سمتوں اور اجتماعی نجات کے امکانات سے جوڑتا ہے۔

بلوچ سرزمین صدیوں سے آزادی کی مطالبہ، خودداری کی للکار، اور جبر کے خلاف مزاحمت کی گونج سے معمور رہی ہے۔ یہاں کی سنگلاخ پہاڑیاں، بے آب و گیاہ ریگستان، اور شوریدہ ساحل گواہ ہیں کہ یہاں کے باسیوں نے کبھی غلامی کو قبول نہیں کیا۔ مگر جب ہم بلوچ جدوجہد کی تاریخ کو رقم کرتے ہیں، تو وہ محض مردانہ مزاحمت کا بیانیہ نہیں ہوتی— بلکہ اس میں ایک اور وجود بھی سانس لے لے رہاہوتا ہے جو صدیوں سے دکھ سہتا آیا ہے، جو ہر اجتماعی درد کو اپنے آنگن میں پال کر اسے مزاحمت میں ڈھالتا ہے۔ یہی وجود بلوچ عورت ہے —گلزادی کی صورت میں، ماہ رنگ شکل میں، سمی دین کی شبیہ میں، شلی کے عکس میں، اور صبیحہ کے روپ میں۔
یہ عورت صرف گھریلو نہیں، یہ مزاحمت کی پرورش کرنے والی ماں، جدوجہد کا شعور دینے والی استاد، ظلم کے خلاف سینہ تان کر کھڑی رہنے والی بیٹی، اور خامشی میں نعرہ بن جانے والی بہن ہے۔ جبری گمشدگیوں کی اذیت، شہداء کے جنازے، اور گھروں کے ویران آنگن، سب میں اس کی شرکت فریاد نہیں، اذیت نہیں بلکہ آزادی کاسوگندھ ہے۔
گلزادی کوئی ایک فرد نہیں، ایک آدرش ہے، ایک مکتب ہے جو اپنے نظریاتی بھائی کو اغوا ہوتے دیکھتی ہے، ہر وہ اس ماں کی آہ ہے جو اپنے
بیٹے کی لاش وصول کرتی ہے، وہ ہر اس بہن کا احتجاج ہے جو وردی پوش ریاست کے سامنے اپنے وجود کو ڈھال بنا کر کھڑی ہو جاتی ہے۔
گلزادی محض ایک عورت نہیں، بلکہ ریاستی جبر کے خلاف ایک مورچہ ہے۔ اور یہی مزاحمت کی وہ معنوی شناخت ہے جو بلوچ عورت کو محض ایک ماتم کرنے والی ماں، بہن یا بیوی کے کردار سے نکال کر اسے سیاسی و نظریاتی میدان میں ایک زندہ و متحرک قوت میں تبدیل کرتا ہے۔
ایڈورنو کے مطابق "مصیبت کی سب سے بڑی زیادتی یہ ہے کہ وہ اظہار سے انکار کر دی جائے۔” گلزادی کی موجودگی دراصل اس انکار کا خاتمہ ہے۔ وہ مظلومیت کو اظہار میں ڈھالتی ہے، مگر وہ اظہار روایتی جذباتیت نہیں، بلکہ ایک سیاسی دعویٰ ہے: کہ بلوچ عورت صرف ایک ماں، بہن یا بیوی نہیں ہے، بلکہ وہ خود "سیاسی وجود” ہے، جو اپنے وجود سے ریاستی بیانیے کو چیلنج کرتی ہے۔
گلزادی کی فکر ایک "پبلک اسپیس” کی تخلیق ہے، جو جارج ہابرماس کی اصطلاح میں "خودمختار مکالمے ” کی جگہ بن جاتی ہے۔ یہاں احتجاج صرف نعرہ نہیں، بلکہ وہ مکالمہ ہے جو ریاست سے سوال کرتا ہے: تم نے کس اختیار سے زندگیوں کو لاپتہ کیا؟ تم نے کس قانون سے ماں کی ممتا کو بے نشان کیا؟ اور تم نے کس منطق سے مظلوم کو مجرم قرار دیا؟
گلزادی کا وجود محض جذباتی اظہار نہیں، بلکہ وہ سیاسی شعور کی ایک منزل ہے، ایک ایسی آگہی جو غلامی کے خلاف واضح مؤقف رکھتی ہے، جو ریاستی جبر کو صرف ظلم نہیں بلکہ ایک تاریخی سامراجی تسلسل سمجھتی ہے، اور اس کے مقابل میں جو آزادی کا فلسفہ پیش کرتی ہے وہ صرف زمینی نہیں، وجودیاتی ہے۔گلزادی اسی شعور کا انکشاف ہے —وہ عورت جو صرف اپنے گھر کی چولہا نہیں سنبھالتی، بلکہ ریاستی طاقت کے ایوانوں کو للکارتی ہے۔ وہ عورت جو اپنے اندر بیسیوں صدی کی ممتازمفکرہ (ہانا آرنٹ)کی سیاسی آگہی، روزا لکسمبرگ کی گراس روٹ لیول پر متحرک انقلابی روشنی، اور بلوچ ماؤں کی کمیت بلکہ معنویت یعنی باشعور منظم اور مزاحمتی شعور کو ظاہر کرتی ہے۔
گلزادی س بلوچ عورت کی علامت ہے جس نے یہ سیکھ لیا ہے کہ سوال کرنا، انکار کرنا، اور جدوجہد کرنا صرف مرد کا استحقاق نہیں، بلکہ عورت کا فطری اختیار ہے۔ وہ آج صرف ایک ماں، بہن، یا بیٹی نہیں، بلکہ قوم کی محافظ، تحریک کی نظریاتی ساتھی، اور تاریخ کی خالق بن چکی ہے۔
جب بلوچ تحریک کی اگلی صفوں میں گلزادی جیسی عورتیں کھڑی ہوتی ہیں، تو سامراجی طاقتیں مقبوضہ قوم کو خوفزدہ نہیں کرسکتے، بلکہ اس فکر سے وہ خود ہراساں ہوتے اور ڈر جاتے ہیں
گلزادی بلوچ کا جیل سے لکھا گیا خط نہ صرف ایک فرد کی اذیت کی کہانی ہے بلکہ یہ پورے بلوچ قوم کی اجتماعی یادداشت اور عورت کی مزاحمت کی علامت ہے۔
گلزادی بلوچ کا بیان کردہ ہر منظر بلوچ وطن کے اندرونی زخموں کو پاش کرتا ہے۔ اس کی زبان سے نکلے الفاظ چیخ چیخ کر بتاتے ہیں کہ یہ صرف جسمانی اذیت نہیں بلکہ ذہنی، نفسیاتی، اور سماجی جبر کی بھی انتہا ہے۔ جب وہ ریاستی اہلکاروں کو "پاگل کتے اور درندے ” کہہ کر پکارتی ہیں، تو یہ کوئی جذباتی پکار نہیں، بلکہ اس ریاستی جنون کی شناخت ہے جو اپنی غیر فطری وجود کو قائم رکھنے کے لیے بلوچ کے گھروں میں گھس کر ان کی حرمت کو پامال کرتا ہے۔
اس خط میں بیان کی گئی داستان ہر اس بلوچ عورت کی نمائندہ ہے جو اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے سڑکوں پر ہے، جنہوں نے ریاستی
بربریت کے باوجود اپنے حوصلے نہیں کھوئے۔تشدد کی ہر ضرب کے بعد گلزادی کا جسم مزید نڈھال ہوتا ہے، مگر اُس کی آنکھوں میں ایک ایسی روشنی باقی رہتی ہے جو صدیوں کی غلامی، بے چہرہ ریاست، اور فولادی بوٹوں سے زیادہ پائیدار ہے۔ جسم زخمی ہوتا ہے، ہڈیوں میں دراڑیں پڑتی ہیں، ہونٹ سوج جاتے ہیں، مگر زبان کی روانی رُکتی نہیں۔ یہ زبان اب صرف گوشت اور لہجے کا معاملہ نہیں — یہ ایک تاریخ ہے جو ہر صدی کی کوکھ سے جنم لے کر، سچ کو لفظوں میں ڈھالتی آئی ہے۔
گلزادی جبری گمشدگیوں کے ماتمی ہجوم میں فقط ایک فرد نہیں، وہ "ساولاکھ” ہے — وہ لاکھوں بلوچ عورتوں کی اجتماعی روح ہے، جو چیخنا نہیں جانتی، مگر ہر خامشی کے پس پردہ سوال رکھتی ہے۔کون تھے وہ؟ کہاں لے جائے گئے؟ ان کی خطاؤں کا ثبوت کیا تھا؟ریاست کے پاس ہتھیار ہیں، مگر سوالوں کا کوئی جواب نہیں۔گلزادی کو معلوم ہے کہ جسم مٹی میں دفن ہو سکتے ہیں، مگر نظریات ہوا میں تحلیل ہو کر ہر سانس میں شامل ہو جاتے ہیں۔زخم گہرے ہو سکتے ہیں، مگر وہ نظریہ جو آزادی، خودی، اور قوم کے اجتماعی خواب پر استوار ہو — وہ زخموں سے شکست نہیں کھاتا۔ گلزادی کا جسم جلتا رہا، کوڑوں،، اور زنجیروں کے سائے میں وہ کئی بار گرا، کئی بار اٹھا۔ مگر اس کی سوچ نے ہار ماننے سے انکار کر دیا۔ ظالموں کی دنیا میں یہ سب سے بڑا جرم تھا—سوچنا، سوال کرنا، اور اپنے زخموں کو صداؤں میں بدل دینا۔
وہ جانتی ہیں کہ ریاست کے پاس بندوقیں ہیں، عدالتیں ہیں، جیلیں ہیں، مگر اس کے پاس ایک ایسی شے ہے جسے نہ تو زنجیروں سے باندھا جا سکتا ہے اور نہ ہی گولیوں سے مارا جا سکتا ہے —نظریہ۔نظریہ، جو درد کی کوکھ سے جنم لیتا ہے، جسے تشدد کی بھٹی اور تنہائی کی اندھیری کوٹھریاں مزید صیقل کرتی ہیں۔وہ نظریہ جو جسم کے ختم ہو جانے کے بعد بھی زندہ رہتا ہے، جو نسلوں کو جگاتا ہے، جو خوابوں کو سمت دیتا ہے۔
یہی وہ شعلہ ہے جو ایک دن تمام قیدخانوں، عسکری چھاؤنیوں، اور جابرانہ ریاستی بیانیوں کو راکھ میں بدل دے گی
ان کا یہ کہنا کہ "اگر جبر سے لوگ خاموش کیے جا سکتے تو 2006 کے بعد ایک معصوم بچی ماہ رنگ نہ بنتی” — درحقیقت وہ تاریخی حوالہ ہے جو بلوچ جدوجہد کی عورتانہ تسلسل کو زندہ کرتا ہے۔ ماہ رنگ، سمّی، راج بی بی، بس خاتون، یہ سب وہ نام ہیں جو ریاستی تشدد کے خلاف ایک زندہ یادداشت ہیں۔ یہ عورتیں حادثاتی طور پر اس تحریک کا حصہ نہیں بنیں، بلکہ انہوں نے شعوری طور پر اس جدوجہد کو اپنایا۔
ریاستی ادارے اب اس حقیقت سے خائف ہیں کہ وہ بلوچ عورت جو کبھی صرف احتجاج میں تصاویر اٹھائے کھڑی تھی، اب بولنے لگی ہے، لکھنے لگی ہے، اور منظم مزاحمت کا حصہ بن چکی ہے۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

ماما قدیر بلوچ کی قیادت میں وی بی ایم پی کے احتجاجی کیمپ کو 5890 دن مکمل

ہفتہ اپریل 26 , 2025
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز (وی بی ایم پی) کا احتجاجی کیمپ، جو جبری لاپتہ افراد کی بازیابی اور ماورائے عدالت قتل کیے گئے افراد کو انصاف کی فراہمی کے لیے جاری ہے، آج اپنے 5890 ویں دن میں داخل ہوچکا ہے۔ جمعہ کے روز کلات سے تعلق رکھنے والے […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ