تحریر: آزاد بلوچ
زرمبش مضمون

ویسے تو بلوچستان کے لیے بے شمار جانثاروں نے اپنی جانیں قربان کر کے خود کو امر کر دیا، لیکن ان میں سے ایک عظیم سرمچار، شہید میجر نصر اللہ عرف استاد ماما میجر چاکر جان تھے، جو 19 اگست 2024 کو مستونگ میں اپنے دو عظیم ساتھیوں سمیت شہید ہوئے۔ اُنہوں نے ثابت کیا کہ مادرِ وطن بلوچستان کے لیے سر کٹوانے سے ہم نہ کبھی ڈرے ہیں، نہ کبھی ڈریں گے۔ ہم دشمن کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہونا بھی جانتے ہیں۔
ایک عظیم سرمچار وہی ہو سکتا ہے جو قربانی سے نہ گھبرائے بلکہ اسے اپنی خوش نصیبی سمجھے۔ شہید میجر نصر اللہ، جنہیں استاد ماما چاکر کے نام سے جانا جاتا ہے، ایسے ہی عظیم سرمچار تھے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی بلوچستان سے محبت اور آزادی کی جدوجہد کے لیے وقف کر دی۔ وہ ہر اُس خوشی سے دستبردار ہوئے جو وطن کی آزادی کے راستے میں رکاوٹ بن سکتی تھی، اور ہر اُس درد کو خوشی سے قبول کیا جس سے ایک دن آزادی کا خواب تعبیر پا سکے۔
ان کی جدوجہد اُس حقیقی آزادی کے لیے تھی جہاں نہ کوئی یہ پوچھے کہ کہاں جا رہے ہو یا کہاں سے آ رہے ہو۔ وہ آزادی جہاں ہر فرد کو برابر حقوق حاصل ہوں، اچھی تعلیم دستیاب ہو، اور عزتِ نفس مجروح نہ ہو۔ ایسی آزادی آسانی سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ بے شمار قربانیوں اور مسلسل جدوجہد سے حاصل کی جاتی ہے۔ لیکن وہ جو ایمان، سچائی اور عشقِ وطن پر یقین رکھتے ہیں، انہیں آزادی ایک دن ضرور ملتی ہے۔
شہید ماما چاکر جان نہ صرف ایک دلیر سرمچار بلکہ ایک مہربان دوست، بھائی، اور رہنما بھی تھے۔ کم عمری کے باوجود وہ شہداء کی عظیم مشن کو بھرپور انداز میں آگے بڑھاتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پورے بلوچستان میں "ماما” اور "استاد” کے نام سے پہچانے گئے۔
شہید کی کئی یادیں آج بھی میرے دل میں زندہ ہیں، جو مجھے اور ہر بلوچ فرزند کو سکھاتی ہیں کہ مادرِ وطن سے بے پناہ محبت اور غلامی سے شدید نفرت دشمن کے دل و دماغ میں خوف و ہراس پیدا کرتی ہے۔ ماما چاکر ہمیشہ کہا کرتے تھے:
"یہ حوصلوں کی جنگ ہے، یہ نجات کی جنگ ہے۔ یہ زر و مال کی جنگ نہیں بلکہ یہ ننگ و ناموس، شناخت اور آزادی کی جنگ ہے۔ حوصلے ہمیشہ جیتتے ہیں، اور ہم بھی جیتیں گے۔”
ماما چاکر یقین سے کہتے تھے کہ دشمن جان چکا ہے کہ بلوچ اور بلوچستان کو قابو میں رکھنا اب ناممکن ہے، اسی لیے وہ اپنی درندگی کی آخری حدوں تک جا رہا ہے۔
ماما ہمیں ہمیشہ یہ درس دیتے کہ غلامی کے خلاف شدید مزاحمت اور بے دریغ قربانی ہی وہ واحد راستہ ہے جس سے ہم اپنے اسیران اور شہداء کے مشن کو مکمل کر سکتے ہیں۔
ایک دن شہید نے مجھے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ اُن کا کہنا تھا:
"تم بہت یاد آ رہے ہو، ضرور آؤ، تم سے ملاقات ضروری ہے۔”
میں خوشی سے نہال ہو گیا اور کہا:
"بس حکم کریں، میری جان آپ کے لیے حاضر ہے۔”
ہماری ملاقات بولان کے خوبصورت پہاڑوں میں ہوئی۔ جب میں ماما سے ملا تو اُن کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔ انہوں نے مجھے سینے سے لگایا۔ میں بھی جذباتی ہو گیا کہ آج میں ایک ایسے عظیم، محبت سے بھرے، فولادی حوصلے والے رہنما کے ساتھ موجود ہوں۔
شہید ماما چاکر اپنے ساتھیوں کی ہر تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھ کر اسے دور کرنے کی کوشش کرتے تھے تاکہ کوئی ساتھی خود کو تنہا نہ سمجھے۔ یہی طرزِ فکر اُنہیں "ماما” سے لے کر "استاد” اور ایک مؤثر کمانڈر تک لے گئی۔ وہ ہر چھوٹے بڑے کام میں سرمچاروں کا ساتھ دیتے اور ہر کام خوش مزاجی، خلوص اور تربیت کے جذبے سے انجام دیتے۔
آج اُن کے تربیت یافتہ سرمچار فخر سے دشمن کو للکارتے ہیں اور کہتے ہیں:
"ہمارا استاد، ماما میجر چاکر، تمہیں وہ سبق سکھا گیا ہے جو تمہاری سات نسلیں نہیں بھول سکیں گی!”
شہید کا پیغام آج بھی ہمارے دلوں میں گونجتا ہے:
"آزادی کی راہ میں چاہے جتنی بھی قربانیاں دینی پڑیں، یہ جنگ جاری رہنی چاہیے۔ آج کی قربانیاں ہی مستقبل کو روشن کریں گی۔”
اگرچہ ماما چاکر جان آج ہمارے درمیان نہیں، لیکن ان کی باتیں، ان کے افکار، ان کی یادیں اور ان کی قربانی ہمیں ہمیشہ راستہ دکھاتی رہیں گی۔ استاد جان، آپ نے وہ مقام حاصل کیا جس کے لیے دن رات محنت کی، اور آخرکار مادرِ وطن پر قربان ہو کر بلوچ تاریخ میں خود کو ہمیشہ کے لیے امر کر دیا۔
مادرِ وطن کے لیے قربانی ہر بلوچ فرزند پر فرض بن چکی ہے۔ یہی پیغام شہید چاکر جان اور ہزاروں دیگر شہداء کے خون سے نکلتا ہے:
قربانی، قربانی، نسل در نسل مزاحمت — جو کسی بھی صورت ہو، بس اپنی کھوئی ہوئی آزادی کی بحالی کے لیے ہو۔
یہی ہے شہید چاکر جان کا فلسفہ:
آزادی کے لیے بے دریغ قربانی۔