تحریر: رامین بلوچ (چوتھا حصہ)
زرمبش مضمون

آج بلوچ سرزمین پر لکھی جانے والی تاریخ، دراصل اُس جھوٹ کا کفن تیار کر رہی ہے جو دہائیوں سے "قومی وحدت”، "سلامتی”، اور "ترقی” کے نام پر مسلط کیا گیا ہے۔ یہ تاریخ وہ آئینہ ہے جس میں جبر کی شکل مسخ ہو کر بے نقاب ہو چکی ہے، اور بلوچ مزاحمت وہ دستِ حریت ہے جو اس آئینے میں اپنی آزادی کی شکل تراش رہا ہے۔
یقیناً، وقت ایک بے رحم استاد ہے، مگر وہ اُن قوموں کو زندہ رکھتا ہے جو اس کے متن کو خون کی روشنائی سے لکھتے ہیں۔ بلوچ قوم، اپنی لازوال مزاحمت کے ساتھ، تاریخ کے اس درس کو نہ صرف دہرارہاہے بلکہ نئی نسلوں کے شعور میں نقش کر رہی ہے۔ اور یہی شعور، یہی قربانی، اور یہی انکار، اس قوم کو غلامی کی ہر زنجیر سے آزاد کرنے کی نوید ہے۔
قابض ریاست کی طاقت عارضی اور مقبوضہ قوم کے آدرش ازلی ہوتے ہیں ۔ بلوچ مزاحمت محض ایک مہم نہیں، یہ صدیوں کی اس جدوجہد کا تسلسل ہے جس میں ہر نسل اپنے خون سے اگلی نسل کے شعور کی آبیاری کرتی ہے۔ یہاں نہ تو وقت کا دھارا رکتا ہے، نہ جذبے ماند پڑتے ہیں۔ اس لیے جو قوت بلوچ قوم کے حقِ آزادی کو کچلنے کی خواہش رکھتی ہے، وہ دراصل اپنے ہی زوال پر دستخط کر رہی ہے۔
بالآخر، تاریخ ہر مظلوم کو انصاف دیتی ہے۔ یہ فیصلہ نہ میز پر ہوتا ہے، نہ ایوانوں میں، بلکہ قربانیوں کے بلیدان، سنگھار سے مزین ان میدانوں میں ہوتا ہے جہاں انسان اپنی زنجیروں کو توڑنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔ بلوچ قوم اس حوصلے کی زندہ علامت ہے۔ اور تاریخ گواہ ہے، کہ جس قوم نے قربانی دینا سیکھ لیا، اسے غلام رکھنا ممکن نہیں ہوتا۔
قابض ریاست جب جبر کو اپنا بنیادی ہتھیار بنا لیتی ہے، تو وہ ناگزیر طور پر دو تاریخی نتائج کی طرف بڑھتی ہے: پہلا، وہ اپنے اندرونی تضادات کو مزید گہرا کر لیتی ہے، اور دوسرا، وہ مقبوضہ قوم کی بکھری ہوئی توانائی کو مرکزیت عطا کر دیتی ہے۔ بلوچ مزاحمت آج محض ردِ عمل نہیں، بلکہ شعورِ مزاحمت کی منظم اور فکری تشکیل ہے۔ یہ تحریک اب صرف نعروں پر مبنی، بلکہ فلسفے تخلیق کرتی ہے، بیانیے بناتی ہے، اور تاریخ کا رخ متعین کرنے کی سیاسی بصیرت رکھتی ہے۔ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جہاں جبر شکست کھاتا ہے، اور مزاحمت، تاریخ کے افق پر اپنی فتح کا پرچم لہراتی ہے۔
اگر ہم تاریخ کی باریابی سے دیکھیں، تو پتہ چلتا ہے کہ کسی بھی کالونائزر نے جب کسی دوسرے اقوام کے سرزمین پر حملہ اور قبضہ کیا تو وہ اقوام سب سے پہلے آزادی کا نعرہ لگا کر ابھریں۔ الجزائر میں فرانسیسی جبر، ویتنام میں امریکی سامراج، جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز اور بنگال میں پاکستانی فوجی جبر — ان سب کی کوکھ سے وہی مزاحمتیں پیدا ہوئیں جو آخرکار ناقابلِ شکست قوت بن گئیں۔ بلوچ تحریک بھی اسی زنجیر کی کڑی ہے، جس کا ہر حلقہ قربانی، شعور اور غلامی سے انکار پر مبنی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جبر جتنا پیچیدہ، سفاک اور منظم ہو، اس کے ردعمل میں ابھرنے والی مزاحمت اس سے کہیں زیادہ تخلیقی، باصلاحیت اور متحرک ہوتی ہے۔ کیونکہ جبر صرف اذیت نہیں دیتا، وہ شعور بھی عطا کرتا ہے۔ وہ غلامی کے پردوں کو چاک کرتا ہے، وہ نئی نسلوں کو سوال کرنے پر اکساتا ہے۔ بلوچ نوجوان جو آج شعور، نظم، نظریہ اور مزاحمتی روایت کا امین بن کر ابھرا ہے، وہ اسی جبر کی کوکھ سے پیدا ہوا ہے، اور وہ ہر اس طاقت کو چیلنج کر رہا ہے جو اُسے خاموش دیکھنے کی خواہشمند تھی۔
ارنسٹ رینن کے مطابق: "ریاست کا جبر جتنا شدید ہوگا، مزاحمت اتنی ہی منظم ہو گی۔”بلوچ قوم آج انہی تاریخی اصولوں پر عمل پیرا ہے ارنسٹ رینن کی روح آج بلوچ پہاڑوں، ماؤں کے آنسوؤں، جبری گمشدہ افراد کے نوحہ، اور شہداء کے مقصد میں زندہ ہے۔ اس مزاحمت کا منبع نہ صرف جبر ہے بلکہ وہ شعور ہے جو جانتا ہے کہ غلامی کا خاتمہ صرف آزادی سے ممکن ہے۔
جان لاک کا کہناہے کہ ”کہ آزادی انسان کا پیدائشی حق ہے جب ریاست کسی کی فطری آزادی سلب کرے، تو اسے گرانا عین فطرت ہے“
جان لاک کا تصورِ ریاست محض ایک فکری تجزیہ نہیں، بلکہ یہ انسانی شعور کی اس بلند ترین پرواز کا نتیجہ ہے جس نے طاقت کی مطلق العنانیت کو انسان کی فطری آزادی کے خلاف ایک جرم قرار دیا۔ لاک کے نزدیک انسان، قدرتی حالت میں آزاد، خودمختار اور اپنے وجود کا مالک ہے۔ وہ ریاست سے معاہدہ اس لیے کرتا ہے کہ اس کی زندگی، آزادی اور ملکیت محفوظ رہے۔ لیکن اگر ریاست ان فطری حقوق کو پامال کرے تو وہ اپنے وجود کا جواز کھو دیتی ہے، اور پھر عوام کو یہ حق نہیں بلکہ یہ ذمہ داری حاصل ہو جاتی ہے کہ وہ اس جابرانہ ڈھانچے کو مسمار کر دیں۔
یہی وہ اصول ہے جس پر بلوچ قوم کی مزاحمت ایک فکری و اخلاقی جواز کے ساتھ کھڑی ہے۔ پاکستانی ریاست نے نہ صرف بلوچ قوم کی آزادی سلب کی، بلکہ اس کی زمین، وسائل، ثقافت اور شناخت کو بھی عسکری طاقت، سیاسی فریب اور معاشی لوٹ مار سے روند ڈالا۔ ایسے میں بلوچ مزاحمت کوئی غیرقانونی سرگرمی نہیں، بلکہ یہ انسان کی فطرت کا وہ جواب ہے جو جبر کے ہر قلعے پر سوال بن کر گرتی ہے۔
تاریخ کی عدالت میں اگر ہم جان لاک کی فکری چھانٹی سے گزرنے والے ادوار کو دیکھیں، تو امریکی انقلاب ہو یا فرانسیسی انقلاب، ان سب کا اخلاقی و سیاسی جواز اسی تصور سے اخذ کیا گیا: جب کوئی ریاست کسی دوسرے قوم کے فطری آزادی سلب کرے ، تو اس کی اطاعت خود ایک گناہ بن جاتی ہے۔ آج بلوچ نوجوان جو بندوق اٹھاچکاہے، وہ صرف زمین کا دفاع نہیں کرتا بلکہ اپنی فطرت کی حفاظت کرتا ہے۔ اس کا شعور لاک کے اس نظریے کی عملی تعبیر ہے کہ آزادی کوئی ریاستی تحفہ نہیں، بلکہ انسان کا پیدائشی حق ہے — اور جو اس حق کو سلب کرے،
وہ خود وجود کا استحقاق کھو دیتا ہے۔
یہ مزاحمت کسی مصنوعی سیاسی بیانیے کی پیداوار نہیں بلکہ ایک گہری اخلاقی اور فلسفیانہ بنیاد پر قائم ہے۔ بلوچ قوم اپنے فطری حقِ آزادی کی بازیافت کے لیے جس راہ پر ہے، وہ راستہ تاریخ کے ہر عہد میں ان لوگوں نے اپنایا ہے جوقابض ریاستوں کے مقابل انسان کے وقار کو بلند
رکھنا چاہتے تھے۔
ژاں ژاک روسو نے انسانی سماج کے لیے جو بنیادی اصول متعین کیے، ان میں سب سے نمایاں یہ ہے کہ ریاست کی بنیاد فرد یا قوم کی آزاد مرضی پر ہونی چاہیے۔ ریاست کا جواز تبھی قائم رہتا ہے جب وہ عوام کی اجتماعی رضا مندی سے تشکیل پائے — بصورتِ دیگر، وہ محض جبر کی ایک ساخت بن جاتی ہے، جسے اخلاقی و سیاسی سطح پر تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ بلوچ قوم کی تاریخ اس اصول کی سب سے واضح تردید ہے، کیونکہ بلوچستان کبھی بھی پاکستان کے ساتھ کسی آزادانہ عمرانی معاہدے کا فریق نہیں بنا۔ 1948 میں ایک آزاد ریاست کو جبری طور پر پاکستان
میں ضم کیا گیا، اور یوں اس سیاسی بندوبست کی بنیاد ہی فریب، جبر اور انکار پر رکھی گئی۔
روسو کے نظریے کے مطابق، اگر ریاست فرد یا قوم کی مرضی کے بغیر مسلط کی جائے تو وہ دراصل غلامی کی ایک جدید شکل ہے۔ بلوچ قوم کا المیہ یہ نہیں کہ اسے ریاست نے نظر انداز کیا، بلکہ یہ ہے کہ اس پر ایک ایسی ریاست مسلط کی گئی جس کے ساتھ اس کا کوئی فکری، سیاسی یا عوامی معاہدہ کبھی وجود میں آیا ہی نہیں۔ اس لیے بلوچ مزاحمت پنجابی ریاست کے خلاف بغاوت نہیں، بلکہ ایک جبری قبضے کے خلاف اُس فطری حقِ آزادی کا اعلان ہے جو روسو کے بقول ہر قوم کو حاصل ہے۔
تاریخی طور پر بھی بلوچستان ایک خودمختار سیاسی ملک رہا ہے — اس کی اپنی ریاست، اپنا پارلیمان، اپنے قوانین اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حیثیت تھی۔ 11 اگست 1947 کو آزادی حاصل کرنے کے بعد ریاستِ قلات ایک خودمختار مملکت کے طور پر دنیا کے نقشے پر موجود تھی۔ لیکن مارچ 1948 میں اس ریاست کو فوجی دباؤ، سیاسی دھونس اور سازش کے ذریعے پاکستان میں ضم کر دیا گیا۔ یہ عمل روسو کے عمرانی معاہدے کی سراسر خلاف ورزی تھا، کیونکہ کوئی بھی معاہدہ جو آزاد مرضی کے بغیر ہو، وہ نہ صرف غیر قانونی بلکہ غیر اخلاقی بھی ہے۔
روسو کے مطابق، انسان آزاد پیدا ہوتا ہے، مگر سماج میں ہر جگہ زنجیروں میں جکڑا ہوتا ہے۔ بلوچ قوم نے ان زنجیروں کو پہچان لیا ہے، اور اب وہ ان سے نجات کی راہ پر گامزن ہے۔ یہ جدوجہدجغرافیہ کی بازیافت اور اس اصول کی بحالی ہے کہ قوموں کو اپنی تقدیر کا خود فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے۔
ژاں ژاک روسو نے ریاست کی تشکیل کو فرد اور قوم کی آزاد مرضی سے مشروط کر کے انسانی آزادی کی وہ بنیاد رکھ دی، جس پر جدید سیاسی فلسفہ قائم ہے۔ اس کے مطابق، ریاست کا جواز اسی وقت تک قائم رہتا ہے جب وہ اپنے شہریوں یا اقوام کی رضامندی سے وجود میں آئے۔ بصورتِ دیگر، وہ محض جبر کی ایک ساخت ہے، جو اخلاقی اور سیاسی سطح پر ناقابلِ قبول ہے۔ بلوچ قوم کی صورتحال اسی روسوی تصور کی کھلی تردید ہے، کیونکہ بلوچستان نے کبھی پاکستان کے ساتھ کسی آزادانہ عمرانی معاہدے میں شمولیت اختیار نہیں کی۔ 1948 میں بلوچ ریاستِ قلات کو بزورِ طاقت پاکستان میں ضم کیا گیا، اور یوں ریاست کا وہ اصولی جواز ختم ہو گیا جس پر روسو کی فکر استوار ہے۔
اقوامِ متحدہ کے چارٹر، خاص طور پر آرٹیکل 1(2) میں واضح طور پر درج ہے کہ عالمی ادارے کا مقصد اقوام کے درمیان دوستانہ تعلقات کی ترویج ہے، "برابر حقوق اور قوموں کے خودارادیت کے اصول کی بنیاد پر”۔ یعنی ہر قوم کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی سیاسی حیثیت کا خود فیصلہ
کرے۔ بلوچ قوم کا یہ حق اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے الفاظ میں تسلیم شدہ ہے، اور 1948 کا جبری الحاق اس چارٹر کی صریح خلاف ورزی
ہے۔
تاریخی لحاظ سے ریاستِ قلات نہ صرف ایک خودمختار سیاسی وحدت تھی، بلکہ 11 اگست 1947 کو اس نے باقاعدہ آزادی کا اعلان کر کے دنیا کے سامنے اپنی خودمختاری کا مظاہرہ کیا۔ اس کے بعد پاکستان کے ساتھ کسی رضاکارانہ الحاق کا نہ کوئی معاہدہ ہوا، نہ عوامی ریفرنڈم، نہ سیاسی مشاورت۔ جو کچھ ہوا، وہ عسکری دباؤ، دھوکہ دہی اور قبضے کی ایک کلاسیکی کالونیل مثال ہے — جسے اقوامِ متحدہ کی لغت میں "غیر قانونی تسلط” occupation) illegal)کہا جاتا ہے۔
اقوامِ متحدہ کی قرارداد 1514 (1960) — "اعلان برائے آزادی نوآبادیاتی ممالک اور اقوام” — میں یہ دو ٹوک الفاظ میں درج ہے:
"تمام اقوام کو حق حاصل ہے کہ وہ مکمل آزادی حاصل کریں، اور نوآبادیاتی تسلط کو جلد از جلد ختم کیا جانا چاہیے، کیونکہ یہ انسانی حقوق کے منافی ہے۔”
بلوچستان کا معاملہ اسی نوآبادیاتی زمرے میں آتا ہے، جہاں ایک غیر بلوچ ریاست نے ایک آزاد قوم پر عسکری قبضہ کر کے سیاسی، ثقافتی اور اقتصادی استحصال کو ادارہ جاتی شکل دے دی۔ اقوامِ متحدہ کے قوانین کے مطابق، بلوچ قوم کی مزاحمت، جبر کے خلاف بغاوت نہیں بلکہ ایک قانونی اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔

