تحریر: ڈاکٹر نوکاپ بلوچ
زرمبش اردو

’’استاد‘‘ ایک ایسا لقب ہے جو اُس شخص کے لیے استعمال ہوتا ہے جو اپنے کام، ہنر اور علم میں مہارت و عبور رکھتا ہو۔ ایسے افراد جو اپنی محنت، لگن اور قابلیت سے دوسروں کے لیے مشعلِ راہ بن جائیں، معاشرہ اُنہیں احتراماً ’’استاد‘‘ کے نام سے یاد کرتا ہے۔
ہمارے دوستوں اور رہنماؤں میں بھی کئی ایسی شخصیات شامل ہیں جنہوں نے اپنے علم و عمل، مہارت اور راست گوئی کی بنیاد پر ’’استاد‘‘ کا درجہ حاصل کیا۔ انہی باکمال ہستیوں میں ایک ہمیشہ یاد رہنے والی، امر شخصیت ’’استاد علی جان‘‘ بھی شامل ہیں۔
استاد علی جان نے اپنی علمی بصیرت، دوستوں کی رہنمائی اور پڑھنے پڑھانے کی صلاحیت کے باعث نہ صرف ’’استاد‘‘ کا لقب پایا، بلکہ اس لقب کا پورا حق بھی ادا کیا۔ وہ اپنے ہمسفر ساتھیوں کے لیے ایک عظیم رہنما اور سچے استاد کی حیثیت رکھتے تھے۔ اپنے اسی عملی اور فکری کردار کی بدولت وہ آج بھی دلوں میں زندہ ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ استاد علی جان کو صرف اپنے علاقے تک محدود کرکے استاد کہنا اُن کی شخصیت کے ساتھ ناانصافی ہوگی، کیونکہ اُن کی فکر، جدوجہد اور رہنمائی کا دائرہ اس قدر وسیع تھا کہ اس میں پورا بلوچستان سمٹ آتا تھا۔ وہ ایک ایسے استاد تھے جو غلامی جیسے ناسور کا علاج اپنی تعلیم، فکر اور شعور کے ذریعے کر رہے تھے۔
استاد علی جان نے سب سے پہلے خود اس غلامی کے ناسور سے آزادی حاصل کی تھی۔ وہ ایک سچے، پختہ اور انقلابی نظریات کے حامل انسان بن چکے تھے۔ اُنہوں نے اپنی زندگی دوستوں اور قوم کی رہنمائی کے لیے وقف کر دی تھی۔ وہ انقلاب کے اصول، معیار اور طریقے نہایت دلنشین اور واضح انداز میں سمجھاتے تھے۔
مگر افسوس، تاریخ کا یہی کڑوا سچ ہے کہ انقلاب اکثر اپنے ہی سچے، مخلص اور بے لوث فرزندوں کو نگل لیتا ہے۔ استاد علی جان بھی اسی المیے کا شکار ہوئے، مگر ان کا نام، ان کا نظریہ اور ان کی جدوجہد ہمیشہ زندہ رہے گی۔ وہ آج بھی ہر باضمیر انسان کے دل میں بطور ’’استاد‘‘ اور رہبر زندہ ہیں۔