مہر در بلوچ
زرمبش اردو

جب سیاست مزاحمت سے کٹ کر صرف مفاہمت کے لیے کی جائے، جب قوم دوستی مفاد پرستی کی نذر ہو جائے، اور جب احتجاج کا انجام کسی “آل پارٹیز کانفرنس” کے دبیز پردوں میں دفن ہو، تب لازم ہے کہ سوال اٹھایا جائے: یہ احتجاج تھا یا اسٹیج شدہ واپسی کا ایک منظم اسکرپٹ؟
ہمیں بی این پی (بلوچستان نیشنل پارٹی) کے لانگ مارچ سے ایک امید تھی، ایک کمزور سی امید کہ شاید اس بار کوئی موثر پیش رفت ہوگی، شاید اس بار یہ جماعت اپنی تاریخ کے داغ دھونے آئے گی۔ لیکن تاریخ کے سنگین اور خوں چکاں موڑ پر، جب قومی غیرت کو کندھوں پر کفن کی مانند اٹھانا تھا، بی این پی نے ایک بار پھر خود کو محض زبانی دعووں اور کاغذی شیروں کی آڑ میں چھپایا۔ ان کے بیانیے میں مزاحمت کی گھن گرج تو تھی، مگر عمل میں وہی پرانی مفاہمت، وہی مصلحت، اور وہی پرانی روایتی بیانیے سے ہم آہنگی دکھائی دی۔ کفن واپس لے جانے کی بات کرنے والے جب عملاً اپنے خیمے پیک کرکے واپس ہو چلے تو ان کی جدوجہد نعرے بازی سے آگے نہیں بڑھتی۔ یہی تضاد ہمشہ سے انہیں ایک سنجیدہ قومی قوت بننے سے روکتا رہا ہے۔
ماہ رنگ بلوچ اور ان کے ساتھیوں سمیت ہزاروں بلوچ فرزندوں کی جبری گمشدگی ایک ایسا قومی المیہ ہے جس پر خاموشی تاریخی جرم کی مترادف ہے۔ جب کوئی پارٹی جو خود کو بلوچ قوم کا وارث قرار دیتی ہے، صرف ایک "پوزیشن” لینے کے بعد مزاحمت کی صف سے نکل کر آل پارٹیز کانفرنس کے سایہ دار خیمے میں پناہ لیتی ہے، تو دراصل وہ اپنی اصولی بنیادوں سے انحراف کرتی ہے
۔ یہ "پوزیشن” دراصل ایک بہانہ بن جاتی ہے، ایک ایسا راستہ جس کے ذریعے وہ طاقت کے مراکز سے مفاہمت کا دروازہ کھولتی ہے۔ مزاحمت کا خیمہ صرف نعرہ بازی یا وقتی موقف کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک نظریاتی، سیاسی اور عوامی وابستگی کا مظہر ہوتا ہے۔ جب پارٹی اس خیمے سے نکلتی ہے، تو وہ صرف اپنی پالیسی نہیں بدلتی، بلکہ اپنے تاریخی دعووں، شہیدوں کی قربانیوں اور عوامی اعتماد کو بھی پسِ پشت ڈال دیتی ہے۔ آل پارٹیز کانفرنس کی میز، جہاں ریاستی مفاہمت کے جھنڈے تلے مفاداتی سیاست ہوتی ہے، وہاں کسی قوم کے حقیقی وارث کی کرسی نہیں ہونی چاہیے۔ وہاں صرف وہی جاتے ہیں جنہوں نے مزاحمت کا بوجھ اتار کر مفاہمت کا تمغہ پہننا ہو۔
بی این پی کی تاریخ مسئلہ بلوچ کے ساتھ نہیں، مسئلہ بلوچ پر سیاست کرنے کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ اس کی سیاست وہی ہے جو اکبر بگٹی کی شہادت کے بعد دیکھی گئی۔ بابا مری سے پوچھا گیا کہ آپ نے بی این پی کی جانب سے شہید اکبر خان بگٹی کی غائبانہ نمازِ جنازہ میں کیوں شرکت نہیں کی ؟ جواب آیا: "جب لاش نہیں ملی تو جنازہ کیسا؟”
یہی سوال آج بھی بی این پی پر لاگو ہوتا ہے: جب مطالبہ پورا نہیں ہوا تو دھرنا ختم کیوں کیا؟ لانگ مارچ چلنے کے لیے گاڑی نہیں، ارادہ چاہیے۔ راستے نہیں، جذبہ چاہیے۔ ماؤزے تنگ نے ہزاروں میل پہاڑ، صحرا، دریا عبور کر کے لانگ مارچ کیا، تو وہ نظریے کا قافلہ تھا، نہ کہ پروٹوکول کا قافلہ۔
ماؤزے تنگ کا لانگ مارچ، اکتوبر 1934 سے اکتوبر 1935 تک، 9000 کلومیٹر کا سفر، صرف ایک جغرافیائی نقل و حرکت نہیں تھا، وہ ایک نظریاتی تجدید تھی، وہ ان کی بقا کی جنگ تھی، جس میں لاکھوں لوگ چلے، ہزاروں شہید ہوئے، اور چند ہزار زندہ پہنچے،
اسی طرح، بلوچ مارچ — کیچ سے اسلام آباد تک، راجی مچی گوادر سے دالبندین تک، جو سینکڑوں ریاستی رکاوٹوں، تشدد اور گرفتاریوں کے باوجود جاری رہا — وہ بھی ایک نظریاتی مچی اور مارچ تھا۔ ایک عوامی ابھار، جو بی وائی سی (بلوچ یکجہتی کمیٹی) جیسی نوجوان تنظیموں نے لیڈ کیا، جس میں چادر کفن بنی، اور قدموں میں زنجیریں ہونے کے باوجود قافلے آگے بڑھتے رہے۔
مگر دوسری جانب بی این پی کا "لانگ مارچ” محض چلتن کے دامن میں ایک کیمپ لگا کر بیس روزہ پڑاؤ تک محدود رہا، پھر اچانک آل پارٹیز کانفرنس کی مشاورت، اور ریاستی دباؤ کے باعث ختم کر دیا گیا — بغیر کسی نتیجے کے۔
بلوچ قومی تحریک کو ہمیشہ سے بیرونی جبر و جارحیت کا سامنا رہا ہے، لیکن ایک خطرہ جسے اکثر نظر انداز کیا جاتاہے وہ اندرونی کمزوریوں اور سیاسی مبہمیت سے آتا ہے۔ بی این پی جیسی جماعتیں جب قومی قربانی کے بیانیے کو سیاست کاری کے سٹیج شو میں تبدیل کرتی ہیں، تو وہ صرف تحریک کو نقصان نہیں پہنچاتیں، بلکہ قوم کو نظریاتی کنفییو ژ ن میں مبتلا کرتی ہیں۔
ان کا کردار آج وہی ہے جو فیڈل کاسٹرو کے مقابلے فلوریڈا کے بورژوا کیوبا کے جلا وطنوں کا تھا، یا الجزائر میں فرینچ سامراج کے ساتھ تعاون کرنے والے "انٹیگرلسٹ” طبقے کا تھا۔ ان کا دعویٰ نیشنلزم کا تھا، لیکن رویہ وہ ہے جو مزاحمت کے بجائے ریاستی انتظام سے مصالحت چاہتا ہے۔
بابا مری نے کیل لگے جوتے اور پیوند زدہ کپڑوں میں آزادی کا علم اٹھایا۔ بگٹی نے اپنی زمین، گھر، نام، سب کچھ قربان کر کے پہاڑوں کو اپنا قلعہ بنایا۔ انہوں نے کبھی قومی بیانیہ دے کر واپس لوٹنے کی پالیسی نہیں اپنائی۔ وہ کفن لے کر نکلے اور اس میں واپس آئے۔
آج بی وائی سی، بلوچ نودر بر اور دیگر تنظیمیں اور نوجوان نسل انہی قربانیوں کی وارث ہے۔ لیکن جب ان کے ساتھ وہ سیاسی جماعت کھڑی ہو، جو محض میڈیا بیانیے اور ریاستی میزوں پر مشاورت کے بیج بوتی ہے، تو تحریک کمزور نہیں ہوتی، البتہ کنفیوز ضرور ہو جاتی ہے۔
انقلابی تحریکیں مفاہمت کے ساتھ نہیں جیتی جاتیں، بلکہ قربانی، نظریہ اور عوامی قوت سے فتح پاتی ہیں۔ بی این پی جیسے جماعت اگر اپنے سیاسی مفاد کے لیے تحریک کی حرارت کو سرد کرنے کا سبب بنیں گے، تو تاریخ انہیں ردِ انقلابی قوتوں کے زمرے میں رکھے گی، نہ کہ انقلابی ورثے کے وارثوں میں۔
بلوچ قوم کو آج ان سوالات کا سامنا ہے:
کیا ہم بیانیہ سنتے رہیں گے یا فیصلہ کریں گے؟
کیا ہم مفاہمت کے تاجر مانیں گے یا مزاحمت کے علامت بنیں گیں؟
کیا ہم اپنے شہیدوں کی قربانی کو سیاست کا ایندھن بننے دیں گے یا اسے قومی خود اختیاری کی روشنی میں ڈھالیں گے؟
یہ وہ سوالات ہیں ۔ جن کا جواب صرف عمل دے گا — وہی عمل جو چلتن سے آگے نہیں بلکہ مزاحمت کی آخری حد تک جانا جانتا ہے
تحریکیں ہمیشہ اپنے خالص جذبے، قربانی، اور مقصد کی سچائی سے پہچانی جاتی ہیں۔ کسی قوم کی بقا، اس اس کی وجود شناخت کی جدوجہد کبھی بھی نیم دلانہ مفاہمت یا مصالحتی سیاست سے ممکن نہیں ہوتی۔ بلوچ قومی جدوجہد، جو دہائیوں سے نوآبادیاتی جبر، جبری گمشدگیوں، نسل کشی، اور وسائل کی لوٹ مار کے خلاف ایک زندہ و جاوید مزاحمتی سفر ہے،
بی این پی کا ماہ رنگ بلوچ اور اس کے ساتھیوں کی حراستی گرفتاری کے خلاف شروع کردہ لانگ مارچ ایک ایسی امید کا عکس تھا جو شاید اپنے انجام تک پہنچ سکتی تھی۔ لیکن بیس دن کے بعد، جب یہ مارچ چلتن کے دامن میں آ کر بیٹھ گیا، تو وہی ریاستی دباو، وہی پرانے آل پارٹیز کے سراب، اور وہی روایتی مصالحتی بیانیہ ایک بار پھر غالب آیا۔ احتجاجی دھرنا، جو بظاہر مزاحمت کا استعارہ بننے جا رہا تھا، وہ بغیر کسی نتیجے، بغیر کسی تسلی بخش جواب کے، دفن کر دیا گیا۔ لانگ مارچ کے لیے ہزار راستے تھے، ہر راستہ ایک قدم مزاحمت تھا، مگر بی این پی نے وہ راستہ چنا جس پر نرم قدموں سے واپس لوٹا جا سکے۔
بی این پی کی سیاست دراصل ایک خاص "ایشو پولیٹکس” کا نمونہ ہے — ایک ایسی سیاست جو وقتی جذبات کو کیش کرتی ہے، مگر منزل کی طرف ایک انچ بھی پیش رفت نہیں کرتی۔ نہ وہ مزاحمت کا واضح بیانیہ اپناتی ہے، نہ ہی مصالحت کی کھلی حمایت کرتی ہے، بلکہ ہمیشہ آدھا تیتر آدھا بٹیر والی حکمتِ عملی کے ساتھ مزاحمتی جدوجہد کو کنفیوز کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ شہداء کے نام پر سیاست ان کا پرانا ہنر ہے۔ اکبر بگٹی کی شہادت پر ان کا رویہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بی این پی کی سیاست میں شہیدوں کی لاشیں محض علامتی تابوت ہیں، جنہیں دکھا کر قوم کو بہلایا جا سکتا ہے۔
تاریخ میں کوئی بھی انقلابی تحریک نیم دلی، مصالحت یا “آل پارٹیز” کے فریب سے کامیاب نہیں ہوئی۔ ویتنام میں ہوچی منہ نے امریکی سامراج کے خلاف لڑائی اس وقت جیتی جب ساری دنیا اسے دہشت گرد سمجھتی تھی۔ الجزائر میں نیشنلسٹ تحریکیں فرانسیسی استعمار کے خلاف ایک ایسی مزاحمت کی جو لاکھوں شہادتوں کے بعد آزادی پر منتج ہوئی۔ ان سب تحریکوں میں ایک چیز مشترک تھی — قیادت کی قربانی، غیر متزلزل موقف، اور عوامی تحریک پر بھروسہ۔
یہ سچ ہے کہ بلوچ مزاحمتی سیاست کو ریاست سے زیادہ نقصان داخلی ردِانقلابی قوتوں سے ہوا ہے۔ جب بھی تحریک آگے بڑھتی ہے، کوئی نہ کوئی "قومی جماعت” یا "معتدل قیادت” اسے روکنے کے لیے میدان میں آ جاتی ہے۔ یہ جماعتیں بظاہر قومی بیانیے کی علمبردار ہوتی ہیں، مگر عملاً وہ ریاستی بیانیے کو بلوچ قوم کے اندرونی بیانیے پر مسلط کرتی ہیں۔
یہ وقت ہے کہ بلوچ نوجوان، دانشور، اور سیاسی کارکن بی این پی جیسے اداروں کو سوالات کے کٹہرے میں کھڑا کریں۔ قومی تحریک صرف میڈیا بیانیوں اور لفاظیت سے آگے نہیں بڑھتی، اس کے لیے بابا مری کے فکر فلسفہ تعلیمات ، شہید اکبر خان بگٹی کی قربانی، اور ان گنت شہداء کی یاد سے سچی وفاداری درکار ہے۔ وہ وفاداری جو صرف نعرہ نہ ہو، بلکہ عملی قربانی، ہمت، اور سچائی کے سمندر سے گزرنے کی طاقت رکھتی ہو۔