
تحریر: رامین بلوچ — دوسری قسط
زرمبش اردو
بلوچ تحریکِ آزادی کے سفر میں، ایوب بلوچ جیسے کردار ہمیں یہ درس دیتے ہیں کہ قومیں صرف دانشوروں سے نہیں، بلکہ ایسے سادہ مگر باہوش لوگوں سے بنتی ہیں جو جانتے ہیں کہ حق کیا ہے، اور اس کی قیمت کیا ہے؟ آج جب ہم مزاحمت، شعور، اور قومی خودمختاری کی بات کرتے ہیں، تو ہمیں ایوب جیسے نوجوانوں کو اپنی سیاسی، فکری، مزاحمتی اور ادبی تاریخ کا حصہ بنانا ہوگا، تاکہ آئندہ نسلوں کو معلوم ہو کہ آزادی کی قیمت صرف نعرے نہیں، جانیں بھی ہوتی ہیں۔
یقیناً، ایوب بلوچ جیسے نوجوان — تاریخ کی سانس لیتے ہوئے کردار ہوتے ہیں، جنہیں اگر یاد نہ کیا جائے، تو نہ صرف ایک کہانی، بلکہ ایک پوری نسل کی مزاحمت گمنام ہو جاتی ہے۔
ایوب کی سادگی اس کی سب سے بڑی بصیرت تھی۔ وہ یونیورسٹی کا پروفیسر یا کسی تنظیم کا مرکزی رہنما نہیں تھا، لیکن وہ جانتا تھا کہ کیا غلط ہے، اور کسے درست ہونا چاہیے؟۔ ۔ ایوب جیسے نوجوان جدوجہد کو وہ زندگی بخشتے ہیں جن کے بغیر کوئی تحریک صرف تحریری رومانیت ہوتی ہے۔
ہمیں یہ اعتراف کرنا ہوگا کہ ہمارے قومی بیانیے میں ایوب جیسے کئی کردار اکثر نظر انداز ہوتے ہیں، کیونکہ وہ نہ اتنے "معروف” ہوتے ہیں، نہ "منظور شدہ”۔ مگر شاید تاریخ وہی ہوتی ہے جو نامعلوم لوگوں کے خون سے لکھی جاتی ہے۔ اگر ہم اپنی سیاسی اور فکری وراثت کو واقعی زندہ رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں مزاحمت کو صرف "قائدین” کی فہرست سے نکال کر عام نوجوان کے روزمرہ جدوجہدتک لانا ہوگا۔ وہاں جہاں وہ خوف کے سائے میں بھی "آزادی” کا نام لیتے ہیں۔
ایوب بلوچ جیسے کرداروں کی موجودگی کسی بھی قومی آزادی کی تحریک کو ایک انسانی، فکری اور مزاحمتی مشن میں تبدیل کر دیتی ہے۔ بلوچ تحریکِ آزادی کا سفر اور اس کی روح ان نوجوانوں میں بسی ہوئی ہے جو اپنے سادہ پن میں عظمت چھپائے ہوتے ہیں۔ ایوب بلوچ انہی میں سے ایک ہے — کوئی نظریہ ساز یا پالیسی ساز نہیں، مگر اپنی زمین، زبان اور شناخت سے بے پناہ وفادار۔
میری رائے میں تحریکوں کی اصل طاقت وہ لوگ ہوتے ہیں جو ان نظریات کو اپنی زندگی میں جیتے ہیں، اور اگر وقت آئے، تو اپنی جان دے کر ان نظریات کی صداقت پر مہر ثبت کر دیتے ہیں۔ ایوب بلوچ جیسے نوجوان ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ مزاحمت کا سب سے طاقتور ہتھیار شعور ہے — وہ شعور جواحساس، تجربے، درد، اور اجتماعی یادداشت سے جنم لیتا ہے۔
ایوب بلوچ جیسے جہد کاروں اگر آج ہم نے یاد نہیں، تو کل ان کی یاد بھی شاید کسی فائل کے حاشیے میں دفن ہو جائے گی۔ اس لیے میری رائے ہے کہ بلوچ نوجوانوں کے اندر جو فطری انقلابی وجدان ہے، اسے محدود نہ رکھا جائے۔ یہ ایک وسیع قومی جدوجہد ہے، جس میں ایوب جیسے کردار ایک نظریاتی مشعل کی مانند جلتے رہتے ہیں — خاموش، مگر روشن۔
ہمیں اپنی شہداء کی تاریخ کو ازسرِ نو لکھنے کی ضرورت ہے — ایک ایسی تاریخ جو صرف نامور جہد کاروں کے نام نہ گنائے، بلکہ ان بے نام لوگوں کو بھی یادرکھے جنہوں نے مزاحمت کو معنی دیا، اور جن کی قبریں آج ہمارے ضمیر پر سوال ہیں۔ ایوب بلوچ تاریخ کا حاشیہ نہیں، متن ہونا چاہیے۔
ایوب بلوچ جیسے کرداروں کا تذکرہ صرف ایک جذباتی حوالہ نہیں، بلکہ وہ ایک فکری ضرورت ہے —ایسی ضرورت جو کسی بھی محکوم قوم کی قومی شعور کی تشکیل میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ بے شک قومی تحریک میں جہد کار قومی تحریک میں سیاسی رہنماء، نظریہ ساز، شاعر، ادیب، اوردانشور کل مل کر تاریخ کے جملہ معمار ہوتے ہیں، لیکن درحقیقت تاریخ کی سب سے مضبوط اینٹیں وہی پر حوصلہ مزاحمت کار ہوتے ہیں جن کے پاس نہ فلسفے کی پیچیدگیاں ہوتی ہیں، نہ پیچیدہ سیاسی اصطلاحات، مگر ان کے دل میں آزادی کا یقین اور قربانی کا حوصلہ ہوتا ہے۔ ایوب بلوچ بھی انہی میں سے ایک تھا۔
۔ ان کی سادگی، ان کا فہم، اور ان کا جذبہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ مزاحمت، شعور کی وہ سطح ہے جہاں انسان اپنی زندگی، اپنا سکون، حتیٰ کہ اپنے خواب تک قربان کر دیتا ہے، صرف اس لیے کہ وہ ایک آزاد فضا میں سانس لینے کا حق رکھتا ہے۔
جب ہم "مزاحمت”، "شعور”، اور "خودمختاری” جیسے الفاظ استعمال کرتے ہیں، تو ہمیں انہیں زمین سے جوڑنا ہوگا۔ یہ زمین ایوب بلوچ جیسے لوگوں کی قربانیوں سے سیراب ہوئی ہے۔ ہمیں اپنی سیاسی اور فکری تاریخ میں ان کرداروں کو شامل کرنا چاہیے جو عام تھے، مگر ان کا عزم غیر معمولی تھا۔ ان کی زندگیوں سے نہ صرف ہمیں سبق ملتا ہے، بلکہ ہمیں یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ آزادی کی جدوجہد کوئی رومانوی داستان نہیں، یہ ایک مسلسل اذیت، ایک کرب، اور ایک شعوری فیصلہ ہے کہ ظلم کے خلاف خاموش نہ رہا جائے۔
ایوب بلوچ کا ذکر محض ایک نام کا ذکر نہیں؛ یہ ایک مکالمہ ہے ہر اُس فرد سے جو آزادی کی بات تو کرتا ہے، مگر اس کی قیمت سے ناواقف ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان کرداروں کو اپنی نصاب، ادب، اور قومی بیانیے کا حصہ بنائیں۔ کیونکہ اگر ہم نے ان کی قربانیوں کو صرف سوشل میڈیا کی چند پوسٹوں تک محدود کر دیا، تو نہ صرف ہم ان کے ساتھ بے وفائی کریں گے، بلکہ اپنی نسلوں سے بھی۔
بلوچ قوم کی آزادی کی منزل تبھی ممکن ہے جب ایوب جیسے نوجوانوں کو ہم ایک نظریہ، ایک مشعل، اور ایک لازوال روایت کی حیثیت دیں۔ تب جا کے شاید ہم یہ حق ادا کر سکیں کہ جنہوں نے سب کچھ قربان کیا، انہیں تاریخ میں وہ مقام ملے جس کے وہ مستحق ہیں۔
یقیناً، بلوچ تحریکِ آزادی کی تاریخ میں گمنام کرداروں کا تذکرہ ایک ایسا موضوع ہے جو صرف جذباتی وابستگی کا تقاضا نہیں کرتا، بلکہ فکری ایمانداری، تاریخی شعور، اور قومی ذمہ داری بھی مانگتا ہے۔ ان کرداروں نے نہ صرف اپنی زندگیوں کو قربان کیا، بلکہ اپنے لہو سے اس تحریک کو نظریاتی اور جذباتی توانائی بھی عطا کی جو آج تک زندہ ہے۔
میرے نزدیک، ان گمنام کرداروں کی یاد منانا صرف ایک رسمی یا علامتی عمل نہیں ہونا چاہیے، بلکہ یہ ایک سیاسی، فکری اور قومی جدوجہد کا مسلسل حصہ ہونا چاہیے۔
بلوچ شہداء کی کہانیاں صرف ریاستی جبر کی داستانیں نہیں، بلکہ یہ بلوچ قومی شعور کے بیدار ہونے کی قیمت کی علامت ہیں۔ وہ نوجوان جنہوں نے مزاحمت کا رخ کیا، یا وہ مائیں جو دہائیوں سے اپنے بیٹوں کی واپسی کا انتظار کر رہی ہیں، وہ مظلوم نہیں بلکہ مزاحمت کی جیتی جاگتی علامتیں ہیں۔ اگر ہم ان کرداروں کو فراموش کریں تو ہم اپنی قومی تاریخ کی ریڑھ کی ہڈی توڑتے ہیں۔
ان گمنام کرداروں کی زندگیوں کو قلمبند کرنا، ان کے کردار کو تحریری شکل میں محفوظ کرنا، ان کی سوچ کو آج کی نسل تک پہنچانا—یہ سب ہمارے نظریاتی تسلسل کا تقاضا ہے۔ تاریخ صرف وہ نہیں جو لکھی گئی ہو، بلکہ وہ بھی ہے جو لکھی جانی چاہیے۔
ہمیں اس روایت کو مضبوط بنانا ہوگا کہ جب بھی کوئی بلوچ بچہ شعور کی عمر کو پہنچے تو وہ ان گمنام نوجوانوں کو بھی جانے جو خاموشی سے تاریخ کا دھارا بدل دیتے ہیں۔
یہ کردار شاید ریاستی مین سٹریم میڈیایا اخبارات کی شہ سرخیوں میں نہ آئے، لیکن ان کا لہو بلوچ سرزمین کے ذرات میں جذب ہے۔ اور جب تک ہم ان ذرات کو سمیٹ کر اپنی فکری زمین پر بکھیرتے رہیں گے، تب تک ہماری تحریک بھی فکری، اخلاقی اور نظریاتی سطح پر زندہ رہے گی۔
یہ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے، لیکن ایک لکھاری کی حیثیت سے میری انفرادی ذمہ داری بھی ہے کہ میں ان جہد کاروں کے کردار اور عمل کو لفظوں میں ڈھالوں، تاکہ وہ فضاؤں کی دھول میں گم نہ ہو جائیں، بلکہ کتابوں، شاعری، اور تاریخ میں ہمیشہ کے لیے گونجتی رہیں۔
کسی بھی قومی تحریک کی اصل روح وہ کردار ہوتے ہیں جو روشنی کی تمنا میں جلتے ہیں، مگر خود روشنی کے منظرنامے میں کہیں نظر نہیں آتے۔ بلوچ تحریکِ آزادی کی تاریخ میں ایسے سینکڑوں نہیں، ہزاروں کردار ہیں جن کے نام نہ کتابوں میں درج ہیں، نہ تصاویر دیواروں پر آویزاں، نہ مزاروں پر کتبے ہیں اور نہ ہی ان برسیاں منعقد ہوتی ہیں۔ مگر ان کا وجود اور ان کی قربانیوں کا اثر اس تحریک کی ہر لَے میں، ہر نعرے میں اور ہر مزاحمتی آہنگ میں موجود ہے۔
یہ گمنام کردار وہ نوجوان ہیں جنہوں نے اپنی ماں کی آنکھوں کا نور قربان کیا، وہ مائیں تھیں جنہوں نے اپنے بیٹوں کو جدوجہد کی راہ پر رخصت کیا اور برسوں ان کی راہ دیکھتی رہیں۔ یہ وہ استاد تھے جو بند کمروں میں نسلِ نو کو شعور کی چنگاریاں دیتے رہے، وہ شاعر تھے جنہوں نے کوہِ سلیمان کی بلندیوں سے آزادی کی سرگوشیاں رقم کیں۔ یہ وہ مزاحمت کار تھے جنہوں نے سرد و گرم دنوں میں ریاست کے خلاف مورچہ زن ہو کر اپنی زندگی کو قربانی کی آخری حد تک لے گئے۔
تحریکوں کی بنیاد وہ لوگ بھی ہوتے ہیں، وہ خون، وہ آنسو، وہ سسکیاں، وہ اذیتیں اور وہ قربانیاں ہوتی ہیں جو کبھی کیمروں کے سامنے نہیں آتیں۔ بلوچ تحریکِ آزادی اگر آج ایک فکری اور عملی سطح پر دنیا کے سامنے ایک باوقار مقام حاصل کر چکی ہے تو یہ انہی گمنام کرداروں کی مرہونِ منت ہے۔ یہ گمنام لوگ تاریخ کے وہ ستون ہیں جن پر قومی مزاحمت کی عمارت کھڑی ہے۔
ان کرداروں کو یاد رکھنا محض جذباتی اظہار یا روایتی رسم نہیں، بلکہ ایک سیاسی، اخلاقی اور قومی فریضہ ہے۔ ان کی یاد منانا دراصل تاریخ کے اس ورق کو محفوظ کرنا ہے جو ورنہ دشمن کی تحریف، ریاستی پراپیگنڈہ یا قومی غفلت کی دھول میں گم ہو سکتا ہے۔
ہمارے لئے سب سے اہم سوال یہی ہونا چاہیے کہ ہم اپنے ان گمشدہ مشعلوں کو تاریخ کا حصہ کیسے بنائیں؟ کیا ہمیں ان کے کردار پرکتب تیار کرنی چاہئیں؟ کیا ہم ان کی کہانیاں، نظموں، گیتوں، دستاویزی فلموں اورلٹریچر کی شکل میں نئی نسل تک پہنچا سکتے ہیں؟ کیا ہر گاؤں، ہر قصبے میں ایک یادگار، ایک کتاب خانہ، یا کم از کم ایک دن مخصوص کیا جا سکتا ہے جو ان کرداروں کو خراجِ تحسین دے؟ کیونکہ اگر ہم نے اپنی تاریخ کو خود نہیں لکھا، تو دشمن اسے ہمارے خلاف لکھ دے گا۔
یہ فکری، علمی اور ثقافتی جدوجہد، مسلح مزاحمت سے کم اہم نہیں۔ کیونکہ بندوق جسم کو مارتی ہے، مگر قلم دشمن کے بیانیے کو۔ اور آج بلوچ تحریک کو دونوں محاذوں پر لڑنے کی ضرورت ہے۔
یاد رکھیں، گمنام کردار تب تک ہی گمنام رہتے ہیں جب تک قوم خود ان کو یاد نہ کرے۔ جب قوم اپنے شہداء، لاپتہ افراد اور خاموش ہیروز کو اپنا فخر بناتی ہے تو پھر وہ تحریک ایک وقتی لہر نہیں رہتی بلکہ ایک ناقابلِ شکست قومی شعور میں تبدیل ہو جاتی۔