شہید ایوب بلوچ: بلوچ تحریک آزادی کا راج گرو!

تحریر: رامین بلوچ — پہلا قسط
زرمبش اردو

شہید ایوب بلوچ عرف (Rebel) 3 جولائی 1990 کو قلات میں پیدا ہوا۔ اس نے جب آنکھ کھولی تو ہر سمت غلامی، جبر، اور قومی محکومی کا آسیب طاری تھا۔ ایک ایسے معاشی و سماجی پس منظر میں پرورش پانے والے ایوب جان نے ابتدائی تعلیم قلات ماڈل اسکول میں حاصل کی، مگر شدید غربت نے اسے تعلیم مکمل نہ کرنے دی۔ بعد ازاں، اس نے میٹرک کا امتحان پرائیویٹ طور پر پاس کیا، لیکن 2002 تک اعلیٰ تعلیم کے لیے اس کے پاس وسائل موجود نہ تھے۔

اس کی شعوری آنکھ اُس وقت کھلی جب 6 جنوری کے شہدائے قلات کے واقعے کی پہلی برسی پر قلات میں ایک کیلنڈر تقسیم کیا گیا، جس پر شہید گل بہار، شہید صوبدار، اور شہید واحد مری کی تصاویر نمایاں تھیں۔ جب ایوب کو یہ کیلنڈر گلی میں کھیلتے ہوئے تھمایا گیا، تو وہ اسے گھر لاکر دیوار پر ٹانگ دیتا ہے۔ محض 13 برس کی عمر میں، مڈل پاس ایوب نے گھر والوں سے کہہ دیا: ’’اس کیلنڈر کو ہاتھ مت لگانا، یہ ہمارے قومی ہیرو ہیں۔‘‘ وہ روز ان تصاویر کو تکتا، زیارت کرتا اور ان چہروں میں چھپی قربانیوں کو محسوس کرنے لگتا۔

15 برس کی عمر میں ایوب بلوچ کے ذہن میں تجسس نے جنم لیا کہ یہ تصاویر کس پس منظر کی نمائندگی کرتی ہیں اس وقت۔ بعد ازاں، تنظیم بی ایس او متحدہ کے نام سے قومی آزادی کی جدوجہد کے حوالہ سے سیاسی تحریک جاری تھی اور پہلی دفعہ بی ایس او متحدہ نے ان شہداء کی برسی نوشکی میں منائی۔ ایوب بلوچ اگرچہ رسمی طور پر زیادہ تعلیم یافتہ نہیں تھا، لیکن بی ایس او کے دفتر میں اس کی ملاقات ایک عام انقلابی نوجوان کی طرح ہوئی۔ اُس نے کسی ساتھی سے پوچھا کہ کیا بی ایس او میں اُسے ممبرشپ مل سکتی ہے، جب کہ وہ کسی اسکول یا کالج میں داخل نہیں؟ جواب میں ساتھی نے کہا: ’’بی ایس او محض طلباء یا نوآبادیاتی سکولوں میں پڑھے لکھے نوجوانوں کی کی تنظیم نہیں بلکہ پوری انقلابی بلوچ نوجوان نسل کی نمائندہ تنظیم ہے۔”ہم ریاستی اداروں کی قید میں نہیں جیتے،بلکہ ہمارادروازہ ہر نوجوان کے کھلاہے۔

یہ سن کر ایوب بلوچ بہت خوش ہوا اور۔ 200 میں وہ باقاعدہ طور پر بی ایس او متحدہ کا فوری ممبرشپ حاصل کی۔ اُس نے مطالعے کو اپنا شعار بنایا، روزانہ اخبار پڑھتا تھا، کتابیں، لیکچر، اور سیاسی تحریریں سنیں، اور مسلسل سوالات کیے۔ وہ آغا محمود خان کی سیاسی و تربیتی نشستوں میں باقاعدگی سے شرکت کرتا رہا۔ بعد ازاں، بی ایس او سے فراغت کے بعد اُس نے بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم)کی رکنیت حاصل کی تاکہ وہ بلوچ تاریخ، قومی شناخت، اور آزادی کی جدوجہد کو مزید گہرائی سے سمجھ سکے۔
ایوب بلوچ مسلسل فکری ارتقاء کی منازل طے کرتا گیا۔ وہ ایک عام نوجوان سے ایک باشعور، متحرک اور نظریاتی انقلابی میں ڈھل چکا تھا۔ اُس نے 2008 میں بی این ایم کے ساتویں کونسل سیشن، جو پالاری باغ ملیر کراچی میں منعقد ہوا، میں ایک کونسلر کے طور پرشرکت۔ بعد ازاں 2010 میں جاہو کوڑاسک میں منعقدہ کونسل سیشن میں بھی وہ دوبارہ کونسلر منتخب ہوا۔

ایوب بلوچ اُس نسل سے تعلق رکھتا ہے جس نے اپنی قومی شناخت، آزادی اور سماجی انصاف کے لیے شعوری طور پر جدوجہد کا راستہ اپنایا۔ ابتدا میں وہ پُرامن سیاسی سرگرمیوں میں رہتے ہوئے جدوجہد پر یقین رکھتا تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ تحریر، تقریر اور تنظیم کے ذریعے قومی سوال کو اجاگر کیا جا سکتا ہے۔ لیکن جب ریاستی جبر نے اظہارِ رائے، سیاسی اجتماع، اور تنظیم سازی جیسے بنیادی حقوق کو سلب کیا، جب ہر سیاسی دروازہ اس کے لیے بند کر دیا گیا، تو اُس کے سامنے صرف دو راستے باقی رہ گئے: خاموشی یا مزاحمت۔

ایوب نے خاموشی کو غلامی کے مترادف سمجھا۔ اس نے پُرامن سیاسی جدوجہد سے مسلح مزاحمت کی طرف قدم بڑھایا، کیونکہ اُس کے نزدیک بندوق اٹھانا ایک جرم نہیں، بلکہ اپنے وجود، اپنی قوم، اور اپنے حقِ آزادی کا اعلان تھا۔ وہ زیر زمین چلا گیا، لیکن اس کا خواب زمین پر زندہ رہا — ایک آزاد، باوقار اور خودمختار بلوچ وطن کا خواب۔
ایوب بلوچ کی داستان ان ہزاروں نوجوانوں کی نمائندہ ہے جنہوں نے پرامن سیاست کو جب ریاستی تشدد نے رد کر دیا تو انھیں اپنی زمین کی حفاظت کے لیے گوریلا پہاڑوں کا راستہ اختیار کرنا پڑا۔

10 مارچ 2016 کو، جب وہ محض 26 برس کا تھا، اوروہ اپنی بیمارماں کی خیریت معلوم کرنے اور اس سے ملنے کے لئے محاذ سے اپنے گھر آئے تھے۔ لیکن بدقسمتی سے ان کی آمد کی اطلاع ایک ریاستی کاسہ لیس اور ان کے ہی ایک خونی رشتہ دار نے ریاستی اداروں کو دے دی۔اس معلومات کی بنیاد پر ریاستی اداروں کے سینکڑوں اہلکار رات گئے ان کے گھر پر ان کی جبری گمشدگی کے غرض سے چھاپہ مارا۔ مگر ایوب گرفتاری دینے کے بجائے، مزاحمت کے عظیم راستے پر گامزن ہوا۔ اُس نے فورسز کے ایک اہلکار سے اسلحہ چھین کر ان پر فائرنگ کی بوچھاڑ کردی، لیکن بالآخر اس کے گھرکے چھت پر موجود اہلکار وں نے اُسے نشانہ بنایا اور وہ شہید ہوگیا۔

اپنی شہادت سے چند لمحہ قبل جب انہیں معلوم ہواکہ وہ گھیرے میں ہیں تو وہ اپنی ماں سے مخاطب ہوا:ماں! میں نہتا ہوں، اکیلا ہوں، لیکن میں گرفتاری نہیں دوں گا۔ میں جانتا ہوں کہ میں اکیلا اس پوری دستہ کا مقابلہ نہیں کرسکتا، لیکن میں مزاحمت کے راستے، شہادت کے راستے کا انتخاب کرتا ہوں۔ جیسے تم میری ماں ہو، یہ سرزمین بھی میری ماں ہے، اب میں ہمیشہ کے لیے اس کی کھوکھ میں رہوں گا۔ رونا مت، میری لاش پر ماتم نہ کرنا۔ مجھے قومی اعزاز اور انقلابی گیتوں کے ساتھ دفن کرنا۔‘‘
ایوب بلوچ ایک انتہائی سادہ، مہربان، مگر دلیر نوجوان تھا۔ وہ راج گرو کی طرح مسکراتے ہوئے موت کو گلے لگانے کا ہنر جانتا تھا۔ لیکن یہ ہماری قومی بدقسمتی ہے کہ ہم اپنے ایسے انقلابی ہیروز کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔ ایسے کردار، ایسے سپوت ہماری قومی تاریخ کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ ان کی یاد محض عقیدت نہیں، بلکہ تحریک کا تسلسل ہے۔

شہید ایوب بلوچ کو ریاستی جبر کی گھناؤنی پالیسیوں کے تحت قلات میں شہید کر دیا گیا۔ ان کی شہادت نے نہ صرف بلوچ قوم کو سوگوار کیا بلکہ مزاحمت کی صفوں میں ایک نیا جذبہ اور عزم بھی پیدا کیا۔ وہ آج بھی بلوچ قوم کے راج گروہ کے طور پر زندہ ہیں —ایسے گروہ کے نمائندہ جو قربانی، شعور اور مزاحمت کا پیکر ہوتے ہیں۔
ایوب جان بلوچ کی کہانی محض ایک فرد کی داستان نہیں بلکہ ایک مقبوضہ قوم کی جدوجہد، قربانی، اور تشخص کی بازیابی کی علامت ہے۔ وہ ان آوازوں میں سے ایک ہے جو غلامی کے سناٹے میں گونجی، اور جنہوں نے تاریخ کے پتھروں پر اپنے لہو سے آزادی کا پیغام کندہ کیا۔ تین جولائی 1990 کو قلات کے فضا میں آنکھ کھولنے والا یہ بچہ، ایک ایسے عہد میں پروان چڑھا جب ہر طرف ریاستی جبر، ناانصافی، اور غلامی
کے سایے پھیلے ہوئے تھے۔ ان حالات میں اس کی زندگی محض ایک وجود نہیں بلکہ مزاحمت کا تسلسل بنی۔

ایوب جان کی ابتدائی زندگی فقر، مجبوری اور تعلیمی رکاوٹوں سے بھری ہوئی تھی، لیکن اس محرومی نے اس کی شعوری بلندی میں رکاوٹ نہ ڈالی۔ وہ جس سماج کا فرد تھا، وہاں قومی شناخت، ثقافتی آزادی، اور سیاسی خودمختاری ایک خواب کی مانند تھیں۔ تعلیم سے محرومی کے باوجود اس نے شعور کی روشنی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا۔ بی ایس اسے اس کا تعلق محض ایک رکنیت نہیں تھا بلکہ ایک نظریاتی بنیاد تھی، جہاں وہ سیاسی و فکری تربیت کے مراحل سے گزرا، اور ایک عام نوجوان سے ایک باشعور انقلابی میں ڈھل گیا۔

بی ایس او اور بی این ایم جیسی تنظیموں میں اس کی شمولیت ایک ایسے کارکن کی تھی جو نہ صرف سیکھنا جانتا تھا بلکہ دوسروں کو سکھانا بھی۔ اس کا مطالعہ، اس کی سیاسی نشستوں میں شرکت، اور اس کا مسلسل سوال کرنا، ایک ایسے اذہان کی نمائندگی کرتا ہے جو اپنے حال پر قانع نہیں بلکہ اسے بدلنے کے لیے کوشاں ہے۔ اس کی شخصیت میں جو سادگی، حلم، مہربانی اور فکری پختگی تھی، وہ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ایک انقلابی صرف بندوق بردار نہیں ہوتا بلکہ وہ ایک دانشور اورمعلم بھی ہوتا ہے۔

2016 میں جب ریاستی جبر اپنے عروج پر تھا اور قلات میں چھاپے کے دوران ایوب جان کو گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی، تو اس نے وہی کیا جو ایک سچے انقلابی کو زیب دیتا ہے — اس نے گرفتاری سے انکار کیا، اسلحہ چھینا، مزاحمت کی اور شہادت کو گلے لگایا۔ اُس کے آخری الفاظ — "جیسے تم میری ماں ہو، یہ سرزمین بھی میری ماں ہے ” — محض ایک جذباتی فقرہ نہیں بلکہ ایک نظریاتی اعلان تھا؛ ایک سیاسی بیانیہ کہ زمین سے رشتہ خون سے نہیں بلکہ شعور سے جڑتا ہے، اور وہ شعور جو بندوق جھڑتے ہی زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔

ایوب جان کی شہادت، بلوچ قومی جدوجہد کی تاریخ کا وہ باب ہے جسے بلوچ قومی تحریک میں بہت کم جگہ دی گئی۔ اس اجتماعی غفلت ہے میں ہم سب شامل ہیں کہ ہم اپنی ایسے ہیروز کو یاد نہیں رکھتے، ان کی قربانیوں کو زندہ رکھنے کے بجائے بھلا دیتے ہیں۔ آایوب جان ایک فرد نہیں بلکہ ایک علامت ہے — وہ علامت جو یاد دلاتی ہے کہ محکوم اقوام کی نجات صرف سیاسی نعروں سے نہیں بلکہ قربانی، نظریاتی یکسوئی، اور شعوری جدوجہد سے ممکن ہے۔ وہ ایک ایسا کردار ہے جسے صرف یاد کرنے کی نہیں بلکہ اس سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس کی کہانی ہمیں دعوت دیتی ہے کہ ہم اپنی تاریخ کو محض المیے کے طور پر نہ دیکھیں بلکہ اسے مزاحمت کے استعارے کے طور پر اپنائیں۔

آج ایوب جان جیسے نوجوانوں کی ضرورت ہے — جوہنستے ہوئے موت کو گلے لگانا جانتے ہوں، جو آزادی کو محض خواب نہیں، ایک عملی حقیقت بنانا جانتے ہوں۔ یہ تحریر ایک خراجِ تحسین ہے، ایک یاددہانی ہے، اور ایک انقلابی اعلان ہے: کہ ہم ایوب جان کو نہیں بھولے، اور نہ ہی بھولیں گے۔ کیونکہ ایوب جان وہ چراغ ہے جس کی لو آنے والے کل کے اندھیروں کو چیر کر راستہ دکھائے گی۔

ایوب بلوچ: تاریخ کے حاشیے پر لکھا گیا ایک گمشدہ کردار
بلوچ قومی جدوجہد کی تاریخ بے شمار گمنام کرداروں، بے آواز چیخوں، اور پس پشت ڈالے گئے انقلابیوں سے بھری ہوئی ہے جنہوں نے خاموشی سے اپنی زندگی وقف کی، مگر ان کی قربانیاں آج بھی اجتماعی حافظے میں دفن ہیں۔ ایوب بلوچ انہی کرداروں میں سے ایک ہے —ایک ایسا نام جو شاید تاریخ کی مرکزی شاہراہ پر نظر نہ آئے، لیکن جدوجہد کی گرد آلود گلیوں میں اُس کے نقوش آج بھی باقی ہیں۔

ایوب جان سے میری پہلی ملاقات 2002 میں ہوئی وہ ایک عام بلوچ نوجوان تھا—زیادہ تعلیم یافتہ نہیں، نہ ہی کسی اسکول یا ادارے سے وابستہ—لیکن اُس کے اندر ایک سوال، ایک اضطراب، اور ایک مقصد کی تڑپ نمایاں تھی۔ جس کے الفاظ میں آزادی کا خواب، مزاحمت کا سفر، اور شعور کی روشنی تھی، سیاسی و تاریخی مباحثوں میں حصہ لینا اُس کا معمول بن گیا۔ وہ ہمیشہ کہتا تھا، میں جاننا چاہتا ہوں کہ ہم غلام کیوں ہیں اور آزاد کیسے ہوں گے۔”

رفتہ رفتہ ایوب بلوچ خود ایک سیاسی تربیت کنندہ بن گیا۔ وہ دوسروں کو موبلائز کرتا، سیاسی سوالات اٹھاتا، اور نوآموز نوجوانوں کو بلوچ تاریخ، قومی شناخت، اور سامراجی جبر کے خلاف مزاحمت کی طرف راغب کرتا۔ اس کی شخصیت سادہ، مہربان، لیکن دلیر اور اصولوں پر اٹل تھی۔ اُس نے کبھی مراعات، منصب، یا ذاتی فائدے کی سیاست نہیں کی—اُس کی سیاست فقط قوم اور اس کی آزادی کے گرد گھومتی تھی۔

لیکن نوآبادیاتی ریاست کو ایسے کردار سب سے زیادہ خطرناک لگتے ہیں جو شعور کی بیداری لاتے ہیں، جو بند ذہنوں میں سوال بیدار کرتے ہیں، اور جن کی زبان میں آزادی کا شہد گھلا ہوتا ہے۔ ایوب بلوچ ہماری تاریخ کا وہ گمشدہ باب ہے جسے ہم نے نظرانداز کیا، مگر وہ تاریخ کے چھاتی پر زندہ ہے۔ وہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ تعلیم یافتہ ہونے سے پہلے بیدار ہونا ضروری ہے، اور آزادی کی تمنا کسی ڈگری کی محتاج نہیں۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

مغربی بلوچستان میں فائرنگ سے خضدار کا رہائشی نوجوان جاں بحق

منگل اپریل 15 , 2025
مغربی بلوچستان کے سرحدی علاقے سراوان مرز میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے خضدار کے علاقے نال کوڑاسک سے تعلق رکھنے والے حلیم ولد عبدالنبی جان جاں بحق ہوگئے۔ ذرائع کے مطابق حلیم گزشتہ کئی سالوں سے مغربی بلوچستان میں مزدوری کے غرض سے مقیم تھے۔ خاندانی ذرائع کا کہنا […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ