گوادر: صحافی جاوید بلوچ کو جان سے مارنے کی دھمکیاں، بلوچستان میں اظہار رائے کی آزادی پر بڑھتی ہوئی پابندیوں کی عکاس کرتی ہیں۔ بی وائی سی

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ترجمان نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ بلوچستان کے گوادر میں مقیم ایک دلیر صحافی جاوید بلوچ طویل عرصے سے صحافتی اخلاقیات کو برقرار رکھنے اور مقامی اور علاقائی مسائل پر رپورٹنگ کرکے پسماندہ طبقات کی آواز کو بلند کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ ان کی بے خوف رپورٹنگ نے بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، ماحولیاتی تحفظات، اور سماجی و سیاسی ناانصافیوں پر روشنی ڈالی ہے — ایسے موضوعات جنہیں اکثر مرکزی دھارے کے میڈیا میں نظر انداز کیا جاتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ حال ہی میں جاوید بلوچ کو ایک شخص کی جانب سے فون کے ذریعے جان سے مارنے کی دھمکی موصول ہوئی جس نے اپنی شناخت “عرفان” کے نام سے کی، جس نے پاکستان کوسٹ گارڈز (PCG) سے وابستگی کا دعویٰ کیا۔ مصدقہ مقامی ذرائع کے مطابق مذکورہ شخص کا تعلق پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں سے ہے۔ یہ ٹارگٹڈ خطرہ کوئی الگ تھلگ واقعہ نہیں ہے بلکہ بلوچستان میں صحافیوں کو درپیش ڈرانے دھمکانے، ہراساں کرنے اور تشدد کے وسیع نمونے کا حصہ ہے۔

انھوں نے کہا کہ صحافیوں کے خلاف جان سے مارنے کی دھمکیوں کا اجراء ان کے بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے، خاص طور پر آزادی اظہار کے حق جیسا کہ انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ (UDHR) کے آرٹیکل 19 اور شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے (ICCPR) میں درج ہے، جس میں پاکستان ایک ریاستی فریق ہے۔ ڈرانے دھمکانے کی ایسی کارروائیاں نہ صرف انفرادی صحافیوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالتی ہیں بلکہ ان تمام انفرادی صحافیوں کو خاموش کرنے میں بھی معاون ہوتی ہیں جو بغیر کسی خوف کے صحافت کر رہے ہیں۔

بیان میں کہا کہ ہم اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل، اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق (OHCHR) کے دفتر، اور صحافت کی آزادی کے بین الاقوامی نگران اداروں جیسے کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (CPJ)، رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز (RSF) اور انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس (IFJ) سے جاوید بلوچ کے خلاف خطرے کا نوٹس لینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

مزید برآں، ہم آزادی صحافت اور صحافیوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تمام قومی اور بین الاقوامی تنظیموں سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ جاوید بلوچ کو حفاظتی اقدامات اور تعاون فراہم کریں اور ایسی ساختی اصلاحات کی وکالت کریں جو بلوچستان جیسے تنازعات سے متاثرہ علاقوں میں صحافیوں کے تحفظ کی ضمانت دیں۔

انھوں نے آخر میں کہا کہ دھمکیوں اور تشدد کے ذریعے صحافتی آوازوں کو خاموش کرنا سچائی، احتساب اور جمہوری عمل پر حملہ ہے۔ صحافیوں کے تحفظ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا اور اسے انتہائی عجلت کے ساتھ برقرار رکھا جانا چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

وی بی ایم پی کیمپ کا 5798 دن مکمل، جبری گمشدگیاں بلوچ سماج کو ایک گہرے المیے سے دوچار کر چکی ہیں، ماما قدیر بلوچ

پیر اپریل 14 , 2025
جبری لاپتہ افراد کے اہل خانہ کی جانب سے لگائے گئے وی بی ایم پی کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5798 دن مکمل ہوچکے ہیں۔ کیمپ میں اظہارِ یکجہتی کے لیے شال سے سیاسی و سماجی کارکنان، جن میں نور محمد بلوچ، فیض محمد بلوچ، عزیز بلوچ اور متعدد خواتین […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ